ایک عجیب وصیت نامه
ہم
اپنی روز مرہ کی زندگی میں بہت سارے لوگوں سے ملتے ہیں ان سے ملاقات کرتے ہیں اور
پھر بھول جاتے ہیں مگر کبھی کبھی ایسا شخص ہمیں ملتاہے کہ ہم اسکی ملاقات کو ہمیشہ
یاد رکھتے ہیں او ر اسکے لئے دل میں عجیب جذبات بھی پیدا ہوجاتے ہیں کبھی ہم اس کو
محبت کا نام دیتے ہیں تو کبھی ہم اسکو دشمن
کے طورپر یاد رکھتے ہیں ۔
مگر
آج کا جو واقعہ ہے وہ اپنے اندر عجیب کردار لئے ہوئے ہے جس شخص کا یہ واقعہ ہے ان
سے ملاقات کی حضرت مولانا مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم نے اور میں یہ واقعہ
حضرت ہی کی زبانی انکے سفر نامے دنیا میرے آگے
سے انتخاب کرکے آپ حضرات کی خدمت میں پیش کر رہاہوں
اس واقعہ کا عنوان ہے ایک عجیب وصیت نامہ
حضرت
مفتی صاحب لکھتے ہیں کہ !وایونگ میں ایک خوبصورت مسجد جس میں ہم نے عشاء کی نماز
پڑھی ، جس کا نام "مسجدالقہار ہے، یہ مسجد جن صاحب نے تعمیر کی ہے، وہ ایک
انڈونیشی مسلمان ہیں جنہیں یہاں لوگ رضوان صاحب کے نام سے جانتے ہیں اور اس وقت وہ
متعدد فیکٹریوں کے مالک اور بڑے دولت مند انسان ہیں۔
عشاء کے بعد وہ ملاقات کے لیے قیام گیاہ پر آگئے
، باتوں باتوں میں ایک صاحب نے ذکر کیا کہ وہ نو مسلم ہیں اور ان کا اصل نام را
برٹ واجود تھا،پھر انہوں نے بتایا کہ وہ تقریباً دس سال پہلے مسلمان ہوئے ہیں،اس
کے بعد انہوں نے اپنے مسلمان ہونے کی داستان سُنائی وہ بڑی ایمان افروز ہے اور اسے
یہاں ذکر کئے بغیر میرے اس سفر کا تذکرہ نامکمل رہے گا۔
اُنہوں نے بتایا کہ میرے
دادا اگر چہ مسلمان تھے لیکن انہوں نے ایک عیسائی
خاتون سے شادی کر لی تھی ، ان عیسائی خاتون نے ( جورضوان صاحب کی دادی تھیں ) اپنی
ساری اولاد کو عیسائی بنالیا جن میں میرے والد صاحب بھی شامل تھے، اُن کے زیر اثر
میں بھی عیسائی تھا۔ میں اپنے لڑکپن میں ایک خطرناک حد تک آوارہ لڑکا تھا جو شراب
و شباب سے لے کر قتل و غارت گری تک ہر برائی میں مبتلا تھا،اگر چہ اپنے جیسے آوارہ
لڑکوں کے ساتھ رہ کر یہ ساری برائیاں میرے لیے روز مرہ کی عادت بن گئی تھیں لیکن
کبھی کبھی میرے دل میں سویا ہوا ضمیر جاگتا اور مجھے احساس ہوتا کہ میں سنگین
گناہوں کا ارتکاب کر رہا ہوں، ایسے موقع پر میں کبھی کبھی چرچ جاتا اور پادری صاحب
سے اپنے گناہوں کا ذکر کرتا، پادری صاحب میری بخشش کی دعا کر کے مجھے مطمئن کر دیتے۔
دوسری طرف میں جس تعلیمی ادارے میں پڑھتا تھا، وہاں میری ایک خاتون استاد تھیں جو مسلمان تھیں اور
مجھے ان کی باتیں اچھی لگتی تھیں، اس لیے میں کبھی کبھی ان کے پاس چلا جاتا اور ان
سے بھی اپنی حالت کا ذکر کرتا تو وہ مجھے ان حرکتوں سے باز رہنے کی تلقین کرتیں
اور بتاتیں کہ ان کاموں کا انجام دنیا میں بھی بُرا ہے اور آخرت میں بھی۔
میرے والد نے جو
فوج کے بڑے اونچے عہدے پر فائز تھے ، مجھے ایک بی ایم ڈبلیو گاڑی خرید کر دی ہوئی
تھی اور اس کے لیے ایک ڈرائیور رکھا ہوا تھا ، وہ بھی مسلمان تھا، یہ
مسلمان ڈرائیور بھی بھی بھی باتوں میں میرے سامنے اسلام کی خوبیاں بیان کیا کرتا
تھا۔
اسی
دوران میرے مسلمان دادا بیمار ہوئے ، اور مجھے پتہ
چلا کہ انہوں نے میرے لئے ایک وصیت نامہ سر بمہر کر کے رکھا ہوا ہے اور یہ
وصیت کی ہے کہ یہ تحریر ان کی وفات کے بعد مجھے دی جائے، مجھے یقین تھا کہ میرے
دادا نے اس تحریر میں اپنی جائیداد وغیرہ مجھے دینے کی وصیت کی ہوگی، کچھ عرصہ کے
بعد جب میرے دادا کی وفات ہوئی تو ان کی وصیت کے مطابق یہ سر بمہر لفافہ میرے
حوالے کیا گیا، میں خوش تھا کہ اس وصیت نامے کے نتیجے میں ،میں مزید مالدار ہو
جاؤں گا،لیکن جب میں نے لفافہ کھول کر دیکھا تو میری حیرت اور افسوس کی انتہا نہ رہی۔
یہ ایک سادہ کاغذ تھا، جس پر کسی وصیت نامے کے
بجائے صرف یہ کلمہ لکھا ہوا تھا کہ اشهد ان لا اله الا
الله واشهد ان محمداً عبده ورسوله مجھے یہ پرچہ دیکھ کر اتنا صدمہ ہوا کہ میں نے
اس کے دوٹکڑے کر کے اسے ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا اور سیدھا اپنی مسلمان استانی کے
پاس پہنچا اور اُن کو جا کر یہ واقعہ سنایا، وہ میرے ساتھ میرے گھر آئیں، پر چہ دیکھا
اور مجھے سمجھانے کی کوشش کی کہ تمہارے دادا نے تمہیں دنیا کے مال و دولت سے کہیں
بڑی نعمت کی وصیت کی ہے کہ تم مسلمان ہو جاؤ،
مگر میں نے ان کی بات نہ مانی اور پھر اپنی انہی بداعمالیوں میں مصروف ہو گیا۔
وہ کہتے ہیں کہ ایک عرصے کے بعد ایک مرتبہ پھر میرے
ضمیر کے کچو کے مجھے چرچ لے گئے اور میں نے پادری صاحب سے کہا کہ میں بار بار آپ
کے پاس آتا ہوں اور آپ مجھے مغفرت کی بشارت سنا کر واپس بھیج دیتے ہیں، لیکن میری
زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آتی ، میں پھر بے دھڑک وہی کام کرنے لگتا ہوں ۔
پادری
صاحب نے پھر وہی بات دہرائی کہ جب میں تمہارے لیے مغفرت کی دعا کر دیتا ہوں تو پھر
تمہیں کس بات کی فکر ہے؟ مجھے پادری صاحب کی اس بات پر غصہ آگیا، میں نے جیب سے پستول نکالا اور اُن پر اس طرح فائر کر دیا کہ
وہ زخمی ہو جا ئیں ،مگر زندہ رہیں، کہتے ہیں کہ یہ واردات کر کے میں باہر نکلا تو
میرے اندر کی بے چینی میں اور اضافہ ہو گیا، قدرتی طور پر مجھے اس واقعے کے بعد
فرار ہونا تھا، لیکن میں نے اپنی بے چینی کا تذکرہ اپنے مسلمان ڈرائیور سے کیا،
ڈرائیور نے ایک مرحلے پر کہا کہ میں آپ کو ایک ایسی جگہ لے جاتا ہوں جہاں شاید آپ
کی بے چینی میں کمی آجائے۔
میں
نے رضامند ی ظاہر کی تو وہ مجھے ایک ایسے حلقے میں لے گیا جہاں بہت سے لوگ بیٹھے
ہوئے لا الہ الا اللہ کا ذکر کر رہے تھے،میں جب اس حلقے میں پہنچا تو میرے جسم کا
رواں رواں کھڑا تھا، مجھ پر ایک نا قابل ِبیان کیفیت طاری ہوئی ، ذکر کرنے والوں کی آواز لا اله الا اللہ میری رگ وپے میں سرایت
کر گئی، اور مجھ پر اس ذکر نے کچھ ایسا طلسماتی اثر کیا کہ میرا سارا وجود
لرز اُٹھا اور مجھے محسوس ہوا کہ میں سر سے لے کر پاؤں تک بدل چکا ہوں، میں جلدی
سے باہر نکلا اور اپنی مسلمان استانی کے پاس پہنچا، انہیں سارا واقعہ سنایا، اس پر
وہ اٹھیں اور تھوڑی دیر میں وہ پھٹا ہوا پر چہ اٹھالائیں جو میرے دادا نے میرے لیے
چھوڑا تھا، اور میں نے اسے پھاڑ دیا تھا، میری استانی
نے ٹکڑوں کو جوڑ کر مجھے وہ پر چہ دکھایا جس پر لکھا تھا:
اشهد ان لا اله الا
الله واشهد ان محمداً عبده ورسوله
میری
استانی نے کہا کہ تمہارے دادا کی وصیت پر عمل کرنے کا وقت آگیا ہے، اب تم اس کلمے
پر ایمان لا کر مسلمان ہو جاؤ ،میری زندگی میں پہلے ہی انقلاب آچکا تھا اور اس
کلمےکی حقانیت میرے دل میں اتر گئی تھی ، میں نے بلا
تاخیر اسلام قبول کر لیا۔
اسلام
قبول کرنے کے بعد میں اپنے عیسائی والد کے پاس پہنچا اور انہیں بتایا کہ میں مسلمان
ہو چکا ہوں ، میرے والد غصے سے آگ بگولہ ہو گئے ، انہوں نے مجھے گھر سے نکال دیا،
میری بی ایم ڈبلیو واپس لے لی اور اپنی ساری دولت سے مجھے محروم کر دیا۔
مگر اسلام میرے دل
میں گھر کر چکا تھا، میں چند دن کچھ مسلمان درویشوں کے پاس رہا اور میرے دل
میں یہ بات سما گئی کہ ذکر ہی سب کچھ ہے، کچھ عرصے کے بعد میں نے شہر سے باہر ایک
جھونپڑی بنالی اور وہاں دن رات "لا الہ الا اللہ" کے ذکر میں مشغول ہو گیا۔
مجھے یوں محسوس ہوتا تھا کہ اس ذکر نے میرے
گناہوں کی زندگی کو دھودیا ہے اور میرا ہر کام اس ذکر کی بدولت بنتا ہے، میں اُس
وقت نماز روزے اور دوسرے احکام ِاسلام سے بھی ناواقف تھا اور صرف ذکر پر قناعت
ہوئے تھا، بھوک و پیاس دور کرنے کے لیے تھوڑا سا کام
کرتا، پھر اپنے جھونپڑے میں آکر ذکر میں مشغول ہو جاتا۔
جب اسی حالت میں کچھ عرصہ گذر گیا تو ایک روز میں نے خواب میں ایک بزرگ کو دیکھا، انہوں نے فرمایا
کہ میں (شیخ ) عبدالقادر جیلانی ہوں اور جو طریقہ تم نے اختیار کیا ہے وہ صحیح نہیں،
اسلام کا تقاضایہ نہیں کہ انسان دنیا کو چھوڑ کر جنگل میں جابیٹھے اور صرف ذکر
کرتا رہے۔
اسلام
میں ذکر کے علاوہ فرض عبادتیں بھی ہیں جن میں نماز سر فہرست ہے اور اسلام ہی کا یہ
حکم بھی ہے کہ انسان سنت کے مطابق انسانوں کے ساتھ زندگی گزارے، اس لیے اب جنگل چھوڑ کر شہر واپس جاؤ ، اسلام کی صحیح تعلیم
حاصل کر کے اس کے مطابق زندگی بسر کرو۔
اس خواب کے بعد میں دوبارہ شہر میں آیا، اپنی
مسلمان استانی سے دین کی تعلیمات حاصل کیں، اس دوران میرے والد کا غصہ بھی ٹھنڈا
ہو چکا تھا، میں اُن کا بیٹا تھا اور مجھے گم کر کے وہ پریشان تھے، جب میں دوبارہ
شہر میں آیا تو انہوں نے مجھ سے پھر بیٹے جیسا سلوک شروع کر دیا اور جو سہولتیں
مجھ سے چھینی تھیں وہ بڑی حد تک مجھے واپس دیدیں ۔
میری والدہ آسٹریلیا میں رہتی تھیں، وہ بھی
انڈونیشا آ کر میری گمشدگی پر پریشان تھیں، میری واپسی کے بعد وہ مجھے ملنے آئیں اور مجھے اسلام سے دورکرنے کی کوشش کی مگر میں نے اُن سے
صاف کہہ دیا کہ اسلام چھوڑ نا میرے لیے نا قابل تصور ہے، اس دوران ایک اور
عجیب واقعہ پیش آیا جس نے میرے زندگی پر مزید گہرے اثرات مرتب کئے، میرے والد کے ایک
مسلمان دوست فوج میں جنرل تھے ، وہ مجھے بڑی محبت کرتے تھے اور میں دیکھتا تھا کہ
وہ مسجدوں کی تعمیر ہسپتالوں کے قیام اور دوسرے خیراتی کاموں میں بڑا حصہ لیا کرتے
تھے ، اُن کا انتقال ہو گیا تو میں اُن کے جنازے میں شریک ہوا، جب انہیں قبر میں
اتارنے کا وقت آیا تو اُن سے اپنے قلبی لگاؤ کی وجہ سے میں نے ہی انہیں قبر میں
اتارا، قبر پر مٹی ڈال دی گئی مگر جب میں واپس جانے لگا اور وقت دیکھنے کے لیے گھڑی
دیکھنی چاہی تو کلائی سے گھڑی غائب تھی ۔
یہ گھڑی بہت قیمتی تھی اور مجھے یقین ہو گیا کہ یہ قبر میں رہ گئی
ہے، اس وقت میں نے کسی سے کچھ ذکر نہ کیا لیکن
رات کے وقت مرحوم کے رشتہ داروں سے اس واقعہ کا ذکر آ گیا، گھڑی چوں کہ بہت قیمتی
تھی اس لیے ان رشتہ داروں نے پیشکش کی کہ صبح قبر کھود کر گھڑی نکال لی جائے ، کچھ
تردد کے بعد میں بھی راضی ہو گیا، چنانچہ صبح کو قبر کھودی گئی تو وہاں ایک ایسا
بھیانک منظر نظر آیا جو آج بھی میری نگاہوں سے نہیں ہٹتا، جن جنرل صاحب کو ہم دفن
کر کے آئے تھے وہ قبر میں نیم اکڑوں حالت میں بیٹھے تھے ، اُن کا منہ خوفناک انداز میں کھلا ہوا تھا، اُن کی کہنیوں سے خون
بہہ رہا تھا، سینے اور ہاتھ پاؤں پر نیلے نیلے نشان تھے ، ہم نے گذشتہ دن چار بجے
شام کے قریب انہیں دفن کیا تھا اور یہ اگلے دن صبح آٹھ نو بجے کا وقت تھا ، یعنی
تدفین کو سولہ سترہ گھنٹے سے زیادہ بھی نہیں گزرے تھے، اتنی سی دیر میں ان کی لاش
کا یہ حشر دیکھ کر ہم سب پر ایسی دہشت طاری ہوئی کہ
آج بھی وہ ہیبت ناک منظر نگاہوں سے نہیں ہٹتا ۔
میں نے اس واقعے کا ذکر اپنی استانی سے کیا اور
ان سے پوچھا کہ یہ جنرل تو خیراتی کاموں میں بہت حصہ لیا کرتے تھے، اس کے باوجود
ان کے ساتھ ایسا معاملہ کیوں ہوا؟ میری استانی نے کہا کہ کوئی شخص کسی دوسرے کے
اندرونی حالات سے باخبر نہیں ہوسکتا ،اور اگر خیراتی
کاموں میں اخلاص نہ ہو، بلکہ وہ شہرت اور نام و نمود کے لیے کئے جائیں تو اللہ
تعالیٰ کے یہاں ان کی کوئی قیمت نہیں۔
اس
واقعے کے بعد مجھے ہر وقت اپنی قبر یادر ہنے لگی، میں نے اور زیادہ اہتمام کے ساتھ
اپنے حالات درست کرنے کی فکر شروع کر دی اور بالاخر میں نے یہ فیصلہ کیا کہ میں
اپنے غیر مسلم والد کے ساتھ رہنے کے بجائے اپنا کوئی اور ذریعہ معاش تلاش کروں ۔
چنانچہ میں آسٹریلیا چلا آیا، شروع کا زمانہ میں
نے بڑی غربت میں گزارا اور سڑکوں پر چھوٹے چھوٹے کام کر کے پیٹ پالا ( جس وقت رضوان صاحب یہ واقعہ سنا رہے تھے اُن کے ساتھ ایک
اور انڈونیشی مسلمان بیٹھے تھے ان کی طرف اشارہ کر کے رضوان صاحب نے کہا ”ان سے
پوچھئے یہ میرے اس وقت کے دوست ہیں اُن صاحب نے تصدیق کی اور بتایا کہ واقعۃً یہ
اس وقت بڑی غربت کی حالت میں آسٹریلیا میں رہ رہے تھے ) لیکن میں نے اپنی
پچھلی زندگی سے دو سبق حاصل کئے تھے، ایک یہ کہ اللہ
سے مضبوط تعلق قائم رکھا جائے اور اس کے احکام پر عمل کیا جائے ، دوسرے جو کام کیا
جائے ، اخلاص اور محبت کے ساتھ کیا جائے۔ انہی دو اصولوں پر کار بند رہتے
ہوئے میں ہر بات اللہ تعالیٰ سے مانگتا، کثرت سے نماز ادا کرتا، اپنی قبر ہر وقت میرے
سامنے رہتی یہاں تک کہ میرے لیے رزق کے دروازےکھلتے چلے گئے اور الحمد للہ آج میں
متعدد فیکٹریوں کا مالک ہوں ۔
رضوان صاحب نے یہ طویل داستان ختم کی تو حاضرین
میں سے ان حضرات نے جو انہیں مدت سے جانتے تھے یہ بتایا کہ اس سے پہلے انہیں بھی
ان کے اس پورے واقعے کا علم نہیں تھا اور آج پہلی بار انہوں نے یہ واقعات تفصیل کے
ساتھ سنائے ہیں، واضح رہے کہ رضوان صاحب انڈونیشیا کے
موجودہ صدر کے سسرال رشتہ دار ہیں، انہوں نے ان سے اپنا صحیح رشتہ بھی بتایا
تھا جواب مجھے یاد نہیں رہا) اور اس بنا پر صدر انڈونیشیا سے ان کے بے تکلفانہ
تعلقات ہیں۔
اُن کی داستان میں بعض پہلو عجیب ضرور ہیں، لیکن مجھے ان کی شخصیت میں
غلط بیانی یا مبالغہ آمیزی کا کوئی امکان نظر نہیں آیا۔
حضرت مفتی عثمانی صاحب دنیا میرے آگے
0 تبصرے
Please do not enter any spam link in the comment box
براہ کرم کمنٹ باکس میں کوئی سپیم لنک نہ ڈالیں