دو ادنٰی جنتیوں کی جنت

 دو ادنی جنتیوں کی جنت


یہاں تک کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت سے لے کر آج تک جب بھی یہ حدیث  بیان کی جاتی ہے تو بیان کرنے والا بھی ہنستا ہے اور سننے والے بھی ہنستے ہیں۔

حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے پوچھا کہ اے پروردگار ! اہل جنت میں سب سے کم درجہ کس کا ہوگا ؟ اور سب سے ادنی آدمی جنت میں کون ہوگا ؟

جواب میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ جب سارے جنتی جنت میں چلے جائیں گے، اور جہنم والے جہنم میں چلے جائیں گے، ایک آدمی جنت میں جانے سے رہ گیا ہو گا اور جنت کے آس پاس کے علاقے میں بیٹھا ہوگا، اللہ تعالیٰ اس سے فرما ئیں گے کہ جب تم دنیا میں تھے، اس وقت تم نے بڑے بڑے بادشاہوں کا ذکر سنا ہو گا، ان بادشاہوں میں سے اپنی مرضی سے چار بادشاہوں کا انتخاب کر کے میرے سامنے بیان کرو، اور پھر ان بادشاہوں کی سلطنوں کے جتنے حصے تھے، ان میں سے جتنے حصوں کا تم نام بیان کر سکتے ہو، بیان کرو، چنانچہ وہ شخص کہے گا کہ یا اللہ ! میں نے فلاں فلاں بادشاہ کا ذکر سنا تھا ، ان کی سلطنت بڑی عظیم تھی، اس کو بڑی نعمتیں ملی ہوئی تھیں، میرا دل چاہتا ہے کہ مجھے بھی ویسی ہی سلطنت مل جائے۔ اس طرح وہ ایک ایک کر کے چار مختلف بادشاہوں کی سلطنت کا نام لے گا۔ اللہ تعالیٰ اس سے فرمائیں گے کہ تم نے ان کی سلطنتوں اور ان کے علاقوں کے نام تو بتا دیئے لیکن ان بادشاہوں کو جو لذتیں حاصل تھیں اور ان کے بارے میں تم نے سنا ہو گا کہ فلاں بادشاہ ایسے عیش و آرام میں ہے، ان لذتوں میں سے جو لذت تم حاصل کرنا چاہتے ہو ان کا ذکر کرو ،چنانچہ وہ شخص ان لذتوں کا ذکر کرے گا کہ میں نے سنا تھا کہ فلاں بادشاہ کو یہ نعمت حاصل تھی، فلاں بادشاہ کو یہ لذت حاصل تھی ، یہ لذتیں مجھے بھی مل جائیں۔

 پھر اللہ تعالیٰ اس سے سوال کریں گے کہ جن بادشاہوں کا تم نے نام لیا ہے، اور ان کی جن سلطنوں کو تم نے گنوایا ہے اور ان کی جن نعمتوں اور لذتوں کا تم نے ذکر کیا ہے اگر وہ تمہیں مل جائیں تو تم راضی ہو جاؤ گے؟ وہ بندہ عرض کرے گا کہ یا اللہ ! اس سے بڑی اور کیا نعمت ہو سکتی ہے، میں تو ضرور راضی ہو جاؤں گا۔

اللہ تعالی فرمائیں گے کہ اچھا تم نے جتنی سلطنتوں کا نام لیا اور ان کی جن نعمتوں اور لذتوں کا تم نے نام لیا اس سے دس گناہ زیادہ تمہیں عطاکرتا ہوں ۔

اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ سے فرما یاکہ جنت کا سب سے کم تر آدمی جس کو سب سے ادنی درجہ کی جنت ملے گی وہ یہ شخص ہوگا۔

 موسیٰ علیہ السلام فرمایاکہ یا اللہ ! جب اونی آدمی کا یہ حال ہے تو جو آپ کے پسندیدہ بندے ہوں گے جن کو اعلی ترین درجات عطا کئے گئے ہوں گے، ان کا کیا حال ہو گا ؟

جواب میں اللہ تعالیٰ فرمایاکہ اے موسیٰ ! جو میرے پسندیدہ بندے ہوں گے ان کے اکرام کی چیزیں تو میں نے اپنے ہاتھ سے بنا کر ان کو خزانوں میں مہر لگا کر محفوظ کر کے رکھ دی ہیں اور ان میں وہ چیزیں ہیں کہ. مَالَمْ تَرَعَينَ وَلَمْ يَسمع أذن وَلَمْ يَخطُرْ عَلى قَلْب اَحَدٍ مِنَ الْخَلْقِ یعنی وہ نعمتیں ایسی ہیں کہ آج تک کسی آنکھ نے نہیں دیکھا اور آج تک کسی کان نے ان کا تذکرہ نہیں سنا، اور آج تک کسی انسان کے دل پر ان کا خیال بھی نہیں گزرا، ایسی نعمتیں میں نے تیار کر کے رکھی ہوئی ہیں۔

ایک اور حدیث میں خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کا حال بیان فرمایا کہ سب سے آخر میں جو شخص جنت میں داخل ہو گا وہ ایسا شخص ہوگا جو اپنے اعمال کی پاداش میں جہم میں ڈال دیا جائے گا، کیوں کہ اگر آدمی مومن ہی کیوں نہ ہو، لیکن اگر اعمال خراب کئے ہیں تو پہلے اس کو ان اعمال کی سزا بھگتنی پڑے گی ، اس لیے اس کو پہلے جہنم میں ڈال دیا جائے گا، اب وہ شخص جہنم میں جھلس رہا ہو گا تو اس وقت وہ اللہ تعالیٰ سے کہے گا کہ یا اللہ ! اس جہنم کی تپش اور اس کی گرمی نے تو مجھے جھلسا دیا ہے، آپ کی بڑی مہربانی ہوگی کہ آپ مجھے تھوڑی دیر کے لیے جہنم سے نکال کر اوپر کنارے پر بٹھا دیں، تا کہ میں تھوڑی دیر کے لیے جلنے سے بچ جاؤں۔

 اللہ تعالیٰ اس سے فرمائیں گے کہ اگر ہم تمہیں وہاں بٹھا دیں گے تو تم کہو گے کہ مجھے اور آگے پہنچا دو،وہ بندہ کہے گا کہ یا اللہ ! میں وعدہ کرتا ہوں کہ بس ایک مرتبہ یہاں سے نکال کر او پر بٹھا دیں، پھر آگے جانے کے لیے نہیں کہوں گا، اللہ تعالیٰ فرما ئیں گے کہ اچھا ہم تمہاری بات مان لیتے ہیں، چنانچہ اس کو جہنم سے نکال کراو پر بٹھا دیا جائے گا، جب وہاں تھوڑی دیر تک بیٹھے گا اور کچھ اس کے ہوش و حواس ٹھکانے پر آئیں گے تو تھوڑی دیر کے بعد

 

کہے گا کہ یا اللہ ! آپ نے مجھے یہاں بٹھادیا اور جہنم سے نکال تو دیا لیکن ابھی جہنم کی لپٹ یہاں تک آرہی ہے، تھوڑی دیر کے لیے اور دُور کر دیں کہ یہ لپٹ بھی نہ آئے۔

 اللہ تعالیٰ فرما ئیں گے کہ تم نے ابھی وعدہ کیا تھا کہ آگے جانے کے لیے نہیں کہوں گا، اب تو وعدہ خلافی کر رہا ہے؟ وہ کہے گا کہ یا اللہ ! مجھے تھوڑا اور آگے بڑھا دیں تو پھر میں کچھ نہیں کہوں گا اور کچھ نہیں مانگوں گا۔

چنانچہ اللہ تعالیٰ اس کو تھوڑ اسا اور دور کر دیں گے ، اور اب اس کو اس جگہ سے جنت نظر آنے لگے گی ، پھر تھوڑی دیر کے بعد کہے گا کہ یا اللہ ! آپ نے مجھے جہنم سے تو نکال دیا اور اب مجھے یہ جنت نظر آ رہی ہے، آپ تھوڑی اجازت دیدی کہ میں اس جنت کا تھوڑا سا نظارہ کرلوں ، اور اس کے دروازے کے پاس جا کر دیکھ آؤں کہ یہ جنت کیسی ہے، اللہ تعالیٰ فرمائیں گے تو پھر وعدہ خلافی کر رہا ہے، وہ شخص کہے گا کہ یا اللہ ! جب آپ نے اپنے کرم سے یہاں تک پہنچا دیا تو ایک جھلک مجھے جنت کی بھی دکھا دیں،

 اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ جب تمہیں ایک نظر جنت کی دکھاؤں گا تو کہے گا کہ مجھے ذرا اندر بھی داخل کر دیں۔

وہ شخص کہے گا نہیں یا اللہ ! مجھے صرف جنت کی ایک جھلک دکھلا دیں، اس کے بعد پھر کچھ نہیں کہوں گا۔

چنانچہ اللہ تعالیٰ اس کو جنت کی ایک جھلک دکھا دیں گے،لیکن جنت کی ایک جھلک دیکھنے کے بعد وہ اللہ تعالیٰ سے کہے گا یا اللہ! آپ ارحم الراحمین ہیں، جب آپ نے مجھے جنت کے دروازے تک پہنچا دیا تو اب اے اللہ! اپنے فضل سے مجھے اندر بھی داخل فرمادیں اللہ تعالیٰ کہیں گے کہ دیکھ ہم تو تجھ سے پہلے ہی کہ رہے تھے کہ تو وعدہ خلافی کرے گا، لیکن چل، جب ہم نے تجھے اپنی رحمت سے یہاں تک پہنچا دیا تو اب ہم تجھے اس میں داخل بھی کر دیتے ہیں، اور جنت میں تجھے اتنا بڑا رقبہ دیتے ہیں جتنا پوری زمین کا رقبہ ہے، وہ شخص کہے گا یا اللہ ! آپ ارحم الراحمین ہیں اور میرے ساتھ مذاق کرتے ہیں؟ میں کہاں اور جنت کا اتنا بڑا رقبہ کہاں؟ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ میں مذاق نہیں کرتا ہوں ، تمہیں واقعی جنت کا اتنا بڑا رقبہ عطا کیا جاتا ہے۔

حدیث شریف میں آتا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حدیث ہنستے ہوئے بیان فرمائی، اور پھر جن صحابی نے یہ حدیث سنی تھی ، انہوں نے یہ حدیث اپنے شاگردوں کےسامنے ہنستے ہوئے بیان فرمائی، پھر انہوں نے اپنے شاگردوں کو ہنستے ہوئے بیان فرمائی،

یہاں تک کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت سے لے کر آج تک جب بھی یہ حدیث

بیان کی جاتی ہے تو بیان کرنے والا بھی ہنستا ہے اور سننے والے بھی ہنستے ہیں۔

 اسی وجہ سے یہ حدیث مسلسل بالضحک“ کہلاتی ہے۔ 

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے