مدرسہ جامعہ اسلامیہ رحمانیہ ٹانڈہ بادلی ضلع رامپور
2007 سے 2018 تک حساب کتاب میں کی گئی مالی خردبرد
ایک
مرتبہ پھر حاضر ہیں اہلِ بستی کی خدمت میں ہاں وہی بستی جسکے ایک قدیم دینی ادارے
مدرسہ رحمانیہ کی ایک سو چودہ 114 سالہ تاریخ میں پہلا اور شاید آخری اس قدر
گھناؤنا کام ہوا جسکو بیان کرتے ہوئے ہمیں خود شرم آتی ہے،مگر مجبورہیں اور یہ
مجبوری ہماری ذاتی مفاد کی وجہ سے یا کسی خوف یا دنیا داری کی وجہ سے نہیں بلکہ میری
پیاری بستی کے وقار اور اس بستی میں بسنے والے ہزاروں بچوں کے مستقبل کومحفوظ کرنے
کی وجہ سے ہے ،
آپ
کہیں گے کہ آخر ہواکیاہے ،تومیری بستی کے ہمددروسنو جیسا کہ آپ کو معلوم ہے مدرسہ رحمانیہ میں شوریٰ
کی ناک کےنیچے ایک عظیم مالی خرد برد کی
گئی تھی (اور ابھی بھی جاری ہے مگر اس کی بات ہم نہیں کر رہے)ہم 2007 سے 2018 تک
کے حساب میں کی گئی خرد برد کی بات کر رہے
ہیں جسکو
شوریٰ کی طرف سے بنائی گئی پانچ رکنی کمیٹی کے ممبر اور حساب کے ذمہ دار
جناب حافظ محمد شفیق صاحب نے تمام ثبوت اور حوالوں کے ساتھ کئی سال پہلے کمیٹی کے باقی افراد اور شوریٰ
کے اراکین کو سپرد کر دیا تھا ، لیکن شوریٰ نے اس ابھی تک کوئی بھی قابل ستائش
اقدام نہیں کیا ،شوریٰ نے ایسا کیوں کیا کیوں کوئی کارروائی کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی، اسکی کیا وجوہات ہیں، یہ
تو وہ خود ہی بتا سکتے ہیں، یا پھر وہ خود اس مالی غبن میں شریک ہیں اللہ بہتر
جانتاہے، اس معاملہ کو ہم نے رمضان المبارک سے پہلے تمام اراکین شوریٰ،
معزز علماء اور بستی کے ذمہ داران کے سامنے فرداً
فرداً رکھا، لیکن بظا ہر کسی نے بھی
قوم کی اس عظیم امانت کے ساتھ خیانت کو روکنے کی
کوشش نہیں کی۔
البتہ مولوی جلیس اور ممبرانِ شوریٰ نے اپنے آپ کو بچانے کے لیے
حافظ محمد شفیق صاحب کو غنڈہ گردی کے ساتھ
مدرسے آنے سے ضرور روک دیا، چونکہ اسی درمیان رمضان المبارک کا مہینہ آگیاتھا،جسمیں
عوام مدارس کو عطیات کی شکل میں اپنے تعاون سے نوازتی ہے، اگر اسی ماہ میں یہ حساب
کتاب کا معاملہ سامنے لایا جاتا تو خطرہ تھا کہ مدرسہ کی آمدنی پر اثر ہوتا،اور اس
کا خمیازہ ظاہرسی بات ہے کہ اساتذہ کو اپنی
تنخواہوں کے رکنے کی شکل میں بھگتنا پڑتا، ویسے بھی موجودہ وقت میں جہاں تعمیری
کام تیزی سے چل رہاہے وہیں اساتذہ کی تنخواہیں ندارد ہیں جو کہ کسی بھی دینی ادارہ
کیلئے بڑے افسوس کی بات ہے،بہر حال رمضان کے بعدمقامی الیکشن تھا
،جس سے سماج کے اہم ترقیاتی منصوبے متعلق ہوتے ہیں، اسلئے کچھ
دن کے لئے ہم نے اس معاملہ کو سرد بستہ میں ڈال دیا تھا۔
اب چونکہ یہ تمام
سرگرمیاں ختم ہو چکی ہیں ،تو ہم اس معاملہ کو ایک بار پھر عوامی عدالت میں پیش
کرنا چاہتے ہیں اور یہ پیش اتمام حجت کیلئے ہے ۔
جیسا
کہ اس سے پہلے بھی کئی تحریروں میں یہ بات سامنے تفصیل سے آچکی ہے کہ مدرسہ رحمانیہ
کے حساب کتاب سے متعلق ایک کمیٹی مرحوم محمودالظفر رحمانی کی نگرانی میں بنائی گئ
تھی ، جسمیں پانچ ممبران شریک تھے، جنکی ذمہ داری تھی کہ 2007 سے 2018 تک کا حساب
کتاب چیک کیا جاۓ ،چنانچہ حافظ محمد شفیق صاحب نے دن رات کی محنت کے بعد وہ حساب
کتاب تیار کیا جسمیں لاکھوں روپیوں کا غبن اور مالی معاملات سے متعلق کاغذات غائب
ملے، یہ رپورٹ اس کمیٹی کے اراکین کو دے دی گئی مگر شوریٰ کے مفاد پرست لوگ اور
خصوصاً اس کمیٹی کو بنانے والے لوگوں نے موجودہ مہتمم سےاپنے سیاسی یا سماجی
مفادات کے بدلے اتفاق کیا،اور بجائے اس رپورٹ پر عمل کرنے اور خائنین سے حساب
کتاب لینے کے حافظ محمد شفیق صاحب کو ہی
مدرسے آنے سے روکنے کے لیے ہتھکنڈے اپنانے شروع کردئے،اورپھر ایک دن چند ممبران کے ساتھ مل کر حافظ صاحب کو مدرسے
آنے سے روک دیا گیا ۔
جس
کے بعد اس مسئلہ کو لیکر کئی بار ٹانڈہ کے
ذمہ دار علماءسے بستی کی نامی تنظیموں اور اصحاب راۓ سے میٹنگز اور ملاقاتیں بھی کی
گئیں، لیکن نتیجہ صفرہی رہا۔
مگر
ہم یہ بھی جانتے ہیں بستی کے تمام عاقل اور دین کا جذبہ رکھنے والے افراداس ادارے
سے قلبی تعلق رکھتے ہیں،اور انکو یہ احساس بھی ہے کہ اس ادارے سے ہماری موجودہ اور آنے نسلوں کا مستقبل وابسطہ ہے ،اور اسی امید
پر ایک بار پھر بستی کے سامنے اس مسئلہ کو
پیش کر رہے ہیں ،اور آپ تمام حضرات سے درخواست کرتے ہیں کہ آپ حضرات اس معاملہ کو
ترجیحی بنیادوں پر دیکھیں۔
بیشک مقامی الیکشن
ہماری سماجی ترقیات کا مظہر ہوتے ہیں اور
اسمیں آپ حضرات نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، اسی طرح یہ قومی ادارے بھی ہماری نسلوں کے تعلیمی اخلاقی اور تربیتی ترقیات کا ذریعہ ہوتے ہیں ،جنکو بچانا
ہم سب کی ذمہ داری ہے۔
موجودہ
حالات میں شوریٰ کی طرف سے کوئی قابل قدر فیصلہ نا لینے پر حضرت مہتمم صاحب کی
فرعونیت کا یہ عالم یہ ہے،
کہ اساتذہ سے کہہ رہے ہیں،
میرا
کوئی کیابگاڑےگا میں خاندانی اور دولت مند شخص ہوں،
جن لوگوں نے مدرسہ
رحمانیہ کا حساب بنایا وہ بھی میرا کچھ نا بگاڑ سکے ،
بیشک
آپ درست کہ رہے ہیں کہ اب تک ہم آپکا کچھ
بھی نہ بگاڑ سکے،
مگریہ
نابگاڑنا آپکے ڈر سے نہیں بلکہ مدرسہ رحمانیہ اور دوسرے تمام مدارس کی وجہ سےتھا کہ کہیں
مدارس اور علماء کی پگڑیاں نہ اچھلنے لگ جائیں، اور والدین اپنے بچوں کو حافظ
اورعالم بنانے سے گریز نا کرنے لگیں۔
ہمیں
اس بات کا بھی احساس ہے کہ مدارس اور علماء ہمارے سروں کے تاج ہیں، اگر
ان پر آنچ آئیگی تو سماج پر اسکے اثرات مرتب ہوں گے، آپکو یا آپکا ساتھ دینے والے
بدعنوان ممبرانِ شوریٰ کو (جنہوں نے رحمانیہ کو اپنی گندی سیاست کو ترقی دینے کے
استعمال کیا) کیا فرق پڑیگا کیونکہ انکے
لئے مدرسہ رحمانیہ ایک مفادات حاصل کرنے والی علامت سے زیادہ کچھ نہیں ۔
ہم
اب بالکل صاف الفاظ میں بتانا چاہتے ہیں کہ مدرسہ
رحمانیہ کو کسی ایک فردیا چند
بدعنوان افراد کی جاگیر نہیں بننے دیں گے،کہ
اس ادارے کو جیسےچاہے لوٹ کر آپس میں
تقسیم کرلیں یا جیسے چاہے اپنے ناپاک مقاصد کیلئے استعمال کریں۔
اس
ادارے نے ایک صدی سے زیادہ سے پوری بستی کے بچوں کا دینی مستقبل سدھارا ہے اور انکے عقیدے
کی حفاظت کی ہے،اسلئے سوال ہی نہیں پیدا ہوتاکہ ہم اس ادارے کو اس طرح سے برباد
ہوتے ہوئےدیکھیں۔
ہم
نے اس سے پہلے جو کوششیں بستی کے معزز
علماء اورافراد سے مل کر کیں وہ سب آپ کے
سامنے آچکی ہیں،اور مدرسہ رحمانیہ کو بچانے کی جو کوشش ہم نے دوبارہ آپ کے سامنے
شروع کی ہے ،یہ بھی آپ کے سامنے ہے،
اورآئندہ بھی ہماری ہر ممکن کوشش رہے گی
کہ ہم بستی کے اس قدیم دینی ورثہ کو خائن اورچند مفاد پرست لوگوں کے ناجائز تسلط
سے بچالیں۔
پھر
آپ کے ذہن نشین کردیں کہ ہم کسی بھی طرح کی کوئی بھی کارروائی کرنے سے اس لئے بھی
بچنا چاہتے ہیں کہ باقی مدارس کا حال بھی ہمیں معلوم ہے اور ہم نہیں چاہتے کہ
ہمارے ان دینی اداروں کے اندر کا کڑوا سچ دنیا کے سامنے آئے اورہم بحیثیت مسلم قوم
شرمندہ ہوں، ہاں مگر جب پانی سرسےاونچاہوجائے ۔
ہمیں
معلوم ہواہے کہ مولوی جلیس صاحب مہتمم
مدرسہ رحمانیہ کچھ ممبران کے ساتھ مل کر
بغیر حساب دئے استعفیٰ دیکر بچنا چاہتے ہیں،ہم
مطلع کر رہے ہیں کہ اب اس خوش فہمی کوذہن سے نکال دیں کہ استعفیٰ دیکر جان چھوٹ
جائے گی،
اگر
مہتمم مدرسہ رحمانیہ مولوی جلیس صاحب بغیرحساب دئے یا نیا حساب بنا کر شوریٰ کو بیوقوف بنا کر کچھ
ممبران کی مدد سے استعفی ٰ دے بھی دیتے ہیں تو پھر وہ ممبران بھی اس قضیے کے لپیٹ
میں آئیں گے جو اس وقت بدعنوانی کا حساب دینے میں مولوی جلیس صاحب کا کسی بھی طرح
سے بچاؤکرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔
بالکل
واضح ہے کہ حساب کتاب کےبغیر ، اور ادارےکو مالی خرد برد کی بھرپائی کئے بنا انکو
کہیں نہیں جانے دیا جائے گا، اسکے لئے
قانونی دائرہ میں رہتے ہوئے کسی بھی اسٹیج پر جاناپڑے ہم جائیں گے، اہل بستی ہمارے
ساتھ ہونگے تو آخرت میں ان شاءاللہ اجرِعظیم کے مستحق ٹہریں گے، ورنا اکیلے ہی ہم اس بستی کے بچوں کا مستقبل
محفوظ کرنے کے لئے اللہ کے بھروسے نکل کھڑے ہونگے،اور اسکو صرف زبانی جمع خرچ نہ سمجھیں ،ان شاءاللہ ضرورت
پڑنے پر ہم وہ کچھ کریں گے جس سے بچنے کیلئے ہم نے اتنا وقت صبرکیامگر قومی اور ملی
مفاد کی خاطر ہم اس صبر کے بندھ کو توڑنے میں ہی بھلائی سمجھیں گے۔
ہم
کل بھی مدرسہ کے حق میں مخلص تھے اور آج بھی الحمدللہ مخلص ہیں اور کل بھی رہیں گے
،ان شاءاللہ ،اور ہم آخری حد تک علماء اور مدرسے کے وقار کو برقرار رکھنے کی کوشش
کریں گے۔
لیکن اگر ہم نے کوئی کارووائی کی تو کل کو کوئی بھی یہ
گلہ نا کرے کہ ہم نے دوسرے مدارس کا خیال نہیں کیا، کیونکہ ہم تمام علماء اور ذمہ
داران مدارس سے پہلے ہی اس مسئلہ کو حل کرنے کی درخواست کر چکے ہیں۔
اگر
کوئی یہ سمجھتا ہے کہ مدرسہ رحمانیہ کے موجودہ معاملہ سے حافظ شفیق صاحب اور انکے
بیٹوں کا ذاتی مفاد وابستہ ہے تو یہ اسکی غلط فہمی ہے۔
آخرمیں
رب ِکریم سے دعاء ہے کہ اس دینی ادارے کو اپنے فضل و کرم سے بچالے اور خائن شخص کی
خیانت قوم کے سامنے لاکر اس ادارے کے خیرخوہوں کی لاج رکھ لے۔
تم سے پہلے وہ جو اک شخص یہاں تخت نشیں تھا
اس کو بھی اپنے خدا ہونے پہ اتنا ہی یقیں تھا
محمد خلیق رحمانی ابن جناب حافظ محمد شفیق صاحب
نوٹ ماضی
میں لکھی گئی مدرسے کے مالی غبن کے متعلق جتنی بھی تفصیل ہے وہ سب اس ویب سائٹ پر
آپکو مل جائےگی اور آئندہ بھی تمام ثبوت اور حساب ضرورت پڑنے پر اسی ویب سائٹ پر
اپلوڈ کردیا جائے گا
https://www.allcopyrightfree.com/
0 تبصرے
Please do not enter any spam link in the comment box
براہ کرم کمنٹ باکس میں کوئی سپیم لنک نہ ڈالیں