نور الدین زنگی
مفتی تقی عثمانی صاحب
کی نورالدین زنگی کے مزار پر حاضری
نور
الدین زنگی تاریخ اسلام کے ان چند فرماں رواؤں میں سے ہیں جنہوں نے اپنے عدل
وانصاف رعایا و دوستی، عزم و شجاعت اور حسن انتظام میں خلافت راشدہ کے زمانے کی یادیں
تازہ کیں ، اتابکی خاندان کے اس اولوالعزم مجاہد کی پوری زندگی صلیب برداروں کے
ساتھ میدان جہاد میں گذری۔ اور اس نے اپنی جانبازی کے ذریعے نہ جانے کتنے بار جرمنی،فرانس
اور یورپ کی دوسری طاقتوں کے چھکے چھڑائے۔
یہ
وہ زمانہ تھا جب سلجوقی حکومت زوال پذیر ہو چکی تھی، عباسی خلافت طرح طرح کے فتنوں
کی شکار تھی، اور یورپ کی صلیبی طاقتیں مسلمانوں کی اس کمزوری سے فائدہ اٹھا کر
عالم اسلام کو ہضم کرنا چاہتی تھیں ۔
اس
نازک موقع پر سب سے پہلے نورالدین کے والد عمادالدین زنگی اور ان کے بعد نورالدین
زنگی نے امت مسلمہ میں ایک نئی بیداری پیدا کی ، اور یورپی سازشوں کو ناکام بنا کر
چھوڑا ۔
نورالدین
زنگی کی فتوحات اور کارناموں کی تفصیل کے لیے ایک پوری کتاب در کارہے، یہاں ان تفصیلات
کا موقع نہیں ہے،
لیکن
علامہ ابن اثیر جزری جو بڑے پائے کے مؤرخ اور محدث ہیں، اور نورالدین زنگی کے ہم
عصر ہیں، انہوں نے اپنی تاریخ میں نورالدین زنگی کے عہد حکومت پر جو مجموعی تبصرہ
کیا ہے، وہ یہاں نقل کئے بغیر رہا نہیں جاتا،
علامہ
ابن اثیر لکھتے ہیں میں نے اسلامی عہد کے پہلے کے فرماں رواؤں سے لے کر اس وقت تک
تمام بادشاہوں کی تاریخ کا مطالعہ کیا، مگر خلفائے راشدین اور عمر بن عبدالعزیز کے
سوا نور الدین سے بہتر فرماں روا میری نظر سے نہیں گذرا۔ اس نے عدل وانصاف کی
اشاعت، جہاد، اور ظلم وجور کے استیصال ، عبادت وریاضت اور احسان و کرم کو مقصد
زندگی بنالیا تھا۔
اس
میں اس کے لیل و نہار بسر ہوتے تھے، اگر کسی پوری قوم میں بھی اس کے اور اس کے باپ
کے جیسے دو فرماں روا گذرے ہوتے تو بھی اس قوم کے فخر کے لیے کافی تھا، نہ کہ ایک
گھرانے میں خدا نے دو فرماں روا پیدا کر دیئے۔ ممالک محروسہ میں جس قدر نا جائز ٹیکس
تھے سب موقوف کر دیئے تھے۔ وہ مظلوم کے ساتھ خواہ وہ کسی درجے کا ہو، پورا انصاف
کرتا تھا، مظلوموں کی شکایتیں براہ راست سنتا تھا۔
ایک
مرتبہ ایک شخص نے کسی زمین کے بارے میں اس پر دعوی دائر کیا، عدالت کا چپراسی اسی
عین اس وقت جب کہ سلطان گوے و چوگان کھیل رہا تھا، پہنچا، سلطان فورا اس کے ہمراہ
قاضی کی عدالت میں حاضر ہو گیا۔ تحقیقات سے جائداد مدعی کے بجائے نورالدین کی ثابت
ہوئی ، اس لیے قاضی نے اس کے حق میں فیصلہ کر دیا، اس فیصلہ کے بعد نورالدین نے
متنازعہ جائداد اپنی طرف سے مدعی کو ہبہ کردی۔
اقتدار
کی کرسی پر ہزار ہا افراد آئے اور چلے گئے لیکن بہت کم ایسے گذرے ہیں جنہوں نے اس
کرسی کو اپنی آخرت کی تیاری کے لیے استعمال کیا ہو، اور اپنے کارناموں کی بنا پر
زندہ جاوید ہو گئے ہوں۔
اللہ
تعالیٰ نورالدین زنگی کی روح پر اپنی غیر محدود رحمتیں نازل فرمائے وہ ایسے ہی صاحب
اقتدار تھے۔ اُن کے مزار پر حاضری کے وقت عقیدت و محبت کے جذبات لفظ و بیان سے
ماورا تھے ۔
۲۷۸ جہان دیدہ : ص
خلاصہ
بے
شک! نورالدین زنگی 12ویں صدی کے دوران ایک ممتاز مسلم فوجی رہنما اور حکمران تھے۔
وہ آرمینیا میں 1118 میں ایک کرد خاندان میں پیدا ہوئے۔ نورالدین کے والد عماد الدین
زنگی حلب کے گورنر تھے اور اپنی فوجی مہارت اور سیاسی ذہانت کے لیے مشہور تھے۔
نورالدین
کی پرورش اسلامی عقیدے اور اس کی ثقافت سے گہری محبت کے ساتھ ہوئی۔ انہوں نے اسلامی
علوم کی جامع تعلیم حاصل کی جس میں دینیات، فقہ اور عربی ادب شامل ہیں۔ 14 سال کی
عمر میں، وہ اپنے والد کی وفات کے بعد حلب کا گورنر مقرر ہوا اور ایک عظیم فوجی
کمانڈر بننے کی طرف سفر شروع کیا۔
ایک
ہنر مند فوجی کمانڈر کے طور پر نورالدین کی شہرت دوسری صلیبی جنگ کے دوران قائم
ہوئی جب اس نے عظیم مسلم رہنما صلاح الدین کے ساتھ اتحاد کیا۔ اس نے 1154 میں صلیبیوں
سے دمشق پر دوبارہ قبضہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا اور اس نے خطے کے کئی دیگر اہم
شہروں پر کنٹرول حاصل کیا۔
نورالدین
ایک زبردست جنگجو کے طور پر شہرت کے باوجود اپنی رعایا کے ساتھ اپنی سخاوت اور مہربانی
کے لیے جانا جاتا تھا۔ وہ فنون لطیفہ کا سرپرست تھا اور اس نے اپنی سرزمین میں کئی
مساجد اور اسکول بنائے۔ اس کا دور حکومت کے لیے نسبتاً امن اور خوشحالی کا دور
تھا۔
0 تبصرے
Please do not enter any spam link in the comment box
براہ کرم کمنٹ باکس میں کوئی سپیم لنک نہ ڈالیں