دس محرم کے دن نوحہ اور ماتم کرنااور اپنے بچوں کو ساتھ لیکر میلہ دیکھنے جا نا

 

دس  محرم کے دن نوحہ اور ماتم کرنااور اپنے بچوں کو ساتھ لیکر میلہ دیکھنے جا نا
 

تحریر

  صدیق قاسمی

 کسی کے انتقال پر افسوس اور غم ہونا ایک فطری و بشری تقاضہ ہے آقا صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی اس کا اثر ہوا تھا

جب آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹے حضرت ابراہیم  کا انتقال ہوا تھا اور آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں نم هوئیں اور آپ بغیر آواز کے روئے اور دل غمگین ہوا  جیسا کہ درج ذیل حدیث میں ہے

ثبت أن رسول الله بكى على ابنه إبراهيم دون رفع الصوت ، قال  تدمع العين ويحزن القلب ولا نقول ما يسخط الرب وإنا بك يا إبراهيم لمحزونون (مجمع الزوائد)

اس واقعہ  سے معلوم ہوا کہ کسی کے انتقال پر غم کرنا اور بغیرِآواز کیے رونا بھی جائز ہے

لیکن میت کے پاس بیٹھ کر یا اس کے دفن کے بعد  رونا سینہ پیٹنا بین کرنا نوحہ کرنا، کپڑے پھاڑنا ، رخساروں کو پیٹنا اور میت کی بے جا تعریف کرنا اور اس طرح کی دوسری باتیں جائز نہیں ہیں

جیسا کہ آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَطَمَ الْخُدُودَ وَشَقَّ الْجُيُوبَ وَدَعَا بِدَعْوَى الْجَاهِلِيَّةِ(صحیح البخاری /1294)

’’وہ ہم میں سے نہیں جو رخساروں کو پیٹے ، گریباں پھاڑے اور زمانہ جاہلیت کے کلمات کہے۔‘‘

بلکہ نبی کریم  ﷺ سے ہی  ثابت ہے کہ پیارے اور کریم آقا ﷺ نے نوحہ کرنے والی اورنوحہ سننے والی پر لعنت فرمائی ہے.

الْمَيِّتُ يُعَذَّبُ فِي قَبْرِهِ بِمَا نِيحَ عَلَيْهِ( صحیح البخاری /1292

’’ نوحہ کی وجہ سے میت کو قبر میں عذاب ہوتاہے ۔‘‘

اور ایک دوسری حدیث میں بھی آپ ﷺ نے فرمایا

إِنَّ الْمَيِّتَ يُعَذَّبُ بِبُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ (صحیح البخاری /1286 مسلم /927)

’’میت کو اس کے گھروالوں کے رونے کی وجہ سے عذاب ہوتا ہے

ان احادیث کی روشنی میں ہم غور کریں کہ اس وقت نوحہ کرنے سے منع کیا گیا  جس وقت غم تازہ ہوتا ہے اور انسان بعض مرتبہ اس وقت اپنے حواس بھی کھوبیٹھتا ہے

تو صدیوں بعد کہاں جائز هوگا نوحہ کرنا اور وہ بھی صرف ایک رسم کے طور پر کہ دس محرم کے آتے ہی  سارے غم پھر سے ہرے ہوجاتے ہیں کیا یہی ہماری محبت ہے حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے کہ بس ایک دن سینہ پیٹ کر پورے سال آرام کریں اور جو تعلیمات حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہما کے ناناجان  ہم کو دے کر گئے ان پر عمل تو درکنار کبھی ان کی   تعلیمات کو جاننے کی بھی کوشش نہیں کی

کیا محبت اسی کا نام ہے کہ میدان کربلاء میں حسین اپنے گلے کٹاکر بھی نماز نا چھوڑیں اور ہم خاص ان کی شہادت والے دن نمازوں کو پس پشت ڈال کر ناچ گانوں میں مشغول ہوجائیں اور اس کو محبت حسین کا نام دیں اور حد یہاں ہوجاتی ہے کہ جو صحیح راہنمائ کرے اس کو گالیوں سے نوازیں آخر یہ سب کیا ہے کیا کبھی ہم نے اپنے دل سے سوال کیا کبھی تنہائ میں بیٹھ کر سوچا کہ واقعی کیا اس کا نام محبت ہے جو ہم کر رہےہیں

یا پھر ہم اپنے نفس کے غلام بن کر شیطان کی پیروی کر رہے ہیں اور محبت کا نام دے کر لوگوں اور خود کو دھوکہ میں ڈالے ہوۓ ہیں

اللہ کے واسطے سوچیں کہ ہم کس طرف جارہے ہیں اپنے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کو پڑھیں اور ان کو اپنی زندگیوں میں لانے کی کوشش کریں

آخر میں درخواست ہے کہ بہت سے ہمارے نوجوان اور والدین جو ماشاءاللہ صحیح العقیدہ ہیں لیکن تعزیہ دیکھنے ضرور جاتے ہیں اور جو میلہ کی شکل ہوتی ہے وہاں بھی جانے سے گریز نہیں کرتے آپکو نہیں معلوم کہ آپکا یہ عمل آپکے بچے پر کیا اثرات مرتب کرے گا

اس دور میں جبکہ ہماری نسلوں کے ایمان کو خراب کرنے کے ہزاروں سامان دشمن نے مہیا کیے ہوۓ ہیں اور دشمن انسانیت چاہتاہے کہ مستقبل میں اسلام کی آبیاری کرنے والے ان جیالوں کے ایمان کو ختم کردے اور ایسے طریقہ پر اس امت کی نسل کو ڈال دے کہ خود اسکو اپنا پتہ ناہو کہ میں کون ہوں اور جب اسکو اپنا آپ تلاش کرنے کی ضرورت آن پڑے اور یہ جستجو کرے تو اپنے آپکو تلاش کرنا اسکے لیے ناممکن ہوجاۓ ان شاءاللہ وہ دن کبھی نہیں آۓگا لیکن کہیں ایسا نا ہو کہ ہمارا عمل ہمارے بچوں کو اس صف میں کھڑا کردے جو دشمن کے ہتھکنڈوں سے ناواقف ہو بات طویل ہوری ہے آپ عاقل ہیں سمجھ رکھتے ہیں

اس لیے اپنے بچوں کو  ایسی ہر جگہ سے روکیں اور آپ خود بھی وہاں نا جائیں اور مکمل اجتناب کریں جہاں ہمارے ایمان پر ڈاکہ پڑنے کا خطرہ ہو

اس امت کو ضرورت ہے ایسے نوجوانوں کی جو دنیا کو پس پشت ڈال کر حق کی خاطر مشقت اٹھانا جانتے ہوں

اور اپنے دین اور پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم سے حقیقی محبت کرتے ہوں

اللہ ہم سب کو سنت پر چلنے کی توفیق عطا فرماکر صحیح راہ پر چلاۓ آمین

 

  

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے