حضرت مولانا محمد افتخارالحسن کاندھلوی
چندنقوش وتأثرات
ازقلم: مفتی محمد ارتضاء الحسن صاحب رضی کاندھلوی
مقیم دوحہ،قطر
تیسری قسط
سلیقہ شعاری، نفاست اور خدمت لینے میں تکلف
لباس
میں سادگی کے باوجود آپ جامہ زیب تھے،خاص طور پر عیدین یا کسی اہم موقع پر جب تیار
ہوتے اور مخصوص طرز کا عمامہ باندھ لیتے تو کشش اور وقار دوبالا ہو جاتا، ہر وقت
صاف ستھرے رہتے تھے،روزانہ غسل کامعمول تھا، بلکہ گرمیوں میں اکثر ظہر اور عصر کی
نماز میں غسل کر کے مسجد تشریف لاتے تھے،آپ کی قیام گاہ ہمیشہ صاف ستھری اور ہر چیز
اپنی جگہ سلیقے سے رکھی ہوئی ہوتی، کبھی یاد نہیں کہ آپ بستر پر نہ ہو ں اور لحاف یا
اوڑھنے کی چادر تہ کی ہوئی نہ ہو یا بستر پر سلوٹیں ہوں،اکثر اپنے کام خود ہی کرتے
تھے اور مزاج میں فطری تواضع کی وجہ سے کسی سے خدمت لینا بالکل پسند نہیں تھا،جسکی
وجہ سے بعض مرتبہ بڑی پریشانی اور تکلیف اٹھانی پڑتی، اگر مجبوراً خدمت لینی پڑتی
تو بقدر ضرورت اور ناگواری کے ساتھ لیتے، اگر سفر درپیش ہوتا تو مکمل تیاری خود ہی
کرتے، اٹیچی اتنے سلیقے سے مرتب کرتے کہ دیکھنے والا حیران رہ جائے، اور اس میں
کپڑوں کے علاوہ چند چیزیں بہت اہتمام سے رکھتے مثلا مسواک،چھوٹی قینچی، کنگھی،چھوٹے
سائز کا چاقو،سرمہ دانی وغیرہ اور فرماتے کہ”یہ چیزیں مسنون ہیں،کام آئیں یا نہ آئیں
سنت کا ثواب تو ملے گا“۔
اکثر
قیام گاہ میں تنہا رہتے تھے، بیمار ہوں یا صحت مند،سفر میں ہوں یا حضر میں، ہوٹل
کے کمرے میں ہوں یا ہسپتال کے، کسی کو رات میں انکے پاس ٹھہرنے کی اجازت نہیں تھی، بغیر کسی خادم کے تہجد میں اس پابندی کے ساتھ
اٹھناکہ جس سے تخلف متصور نہ ہویہ آپکا طرہ ئ امتیاز تھا،کیونکہ عام طورپردیکھا گیا
ہے کہ مشائخ کو تہجد وغیرہ میں اٹھانے اور ضروریات میں مدد کرنے کے لئے ایک یا دو
خادم ضرور ہوتے ہیں اور بعض مرتبہ تو خدام کی پوری جماعت ہوتی ہے، بارہا ایسا ہوا
کہ پیرانہ سالی کے ان ایام میں جب کہ آپ بغیر سہارے کے مسجد تک نہیں جا سکتے
تھے،رات میں جب تہجد کے لئے اٹھے اور وضو کا ارادہ کیا تو پتہ چلا کہ پانی نہیں
ہے،اب اگر تھوڑی دیر انتظار کر لیتے تو فجر کی نماز میں کوئی نہ کوئی ضرور
آجاتااور پانی کا انتظام ہو جاتا مگر تہجد فوت ہو جائے یہ کسی قیمت گوارہ نہ تھا،
چنانچہ رات کے اندھیرے میں پانی کا برتن لے کر پہلے مسجد گئے، وہاں پانی نہیں ملا
تو جامع مسجدگئے، اس کا دروازہ بندملا تو محلہ کے ایک مندر سے پانی لائے اور جب تک
وضو کرکے مصلے پر اپنے رب کے سامنے کھڑے نہیں ہوگئے اس بے قرار کو قرار نہ آیا،،
غالباََ اسی موقع کے لئے کہا گیا ہے ”الاستقامۃ فوق الف کرامۃ“کہ استقامت ہزار
کرامتوں سے بڑھ کر ہے ”و فی ذالک فلیتنافس المتنافسون“۔
ملنساری اور ظریف المزاجی
کردار
کے اعتبار سے شخصیت کے غیر معمولی سنجیدہ ہونے کے با وصف آپ خشک مزاج یا
”عبوساََقمطریرا“نہیں تھے،بلکہ مزاج میں ظرافت تھی، حاضرین سے مزاح بھی فرماتے،
مگر بعض مرتبہ اسمیں بڑی معنویت اور گہرائی ہوتی،”مشتے نمونہ از خروارے“کے طور پر
چند جملے سپرد قرطاس ہیں:
۱- ایک مرتبہ ایک صاحب اصرار کرنے لگے کہ میرے بچے کے سرپرہاتھ
رکھ دیجئے!فرمایا کہ”اس سے کیا ہوگا؟ میں پورے دن اپنے سر پر کھجاتا رہتا ہوں مجھے
تو کوئی فائدہ محسوس نہیں ہوتا“۔
۲- ایک دیہاتی نے سوال کیا کہ: اجی! آپ مظاہر علوم میں کتنے
سال پڑھے؟ آپ نے فرمایا ”پڑھے وڑھے تو کچھ نہیں، البتہ وہاں پانچ سال پڑے رہے“۔
۳- ایک صاحب نے سوال کیا کہ آپ کی فراغت کس سن کی ہے؟ فرمایا”فراغت“
تو آج تک نہیں ہوئی،البتہ ۳۶۳۱ھ میں اپنا بوریا بستر لیکر گھر آ گئے تھے“۔
۴- ایک صاحب نے عرض کیا کہ میں بہت پریشان ہوں ایک عامل نے بتایا
ہے کہ تمہارے دل پر جادو کیا گیا ہے، فرمایا کہ”یہ دل کی بات‘ دل سے نکال دو“۔
ناچیز پر شفقت
راقم
السطور نے والد صاحب ؒکے حکم پر افتاء کے سال آپ سے بیعت ہو کر اصلاحی تعلق قائم
کر لیا تھا،مگر چوں کہ آپکے برادر کلاں حضرت مولانا محمد احتشام الحسن کاندھلوی
قدس سرہ میرے حقیقی دادا تھے، غالباََ اسی نسبت کی وجہ سے آپ کا میرے ساتھ ایسا
مشفقانہ تعلق تھا،جس میں تشجیع ہی تشجیع تھی زجر و تنبیہ کا کوئی خانہ نہیں
تھا،حسن ظن ہی حسن ظن تھا، سوء ظن کا کوئی تصور نہیں تھا، کبھی مجھے”تم“کہہ کر
خطاب نہیں کیا،بلکہ ہمیشہ ”آپ“کہہ کر مخاطب ہوئے،کبھی مجرد نام نہیں لیا، بلکہ ہمیشہ
”بھائی رضی“کہا، یاد نہیں کہ مجھے کبھی ڈانٹا ہو یا ناراض ہوئے ہوں،ناچیز کی بڑی سے
بڑی کوتاہی کو اس طرح در گذر کر دیتے جیسے کوئی بات ہی نہ ہوئی ہو۔
فماراقنی
من لا قنی بعدبعدہ ولا شاقنی من ساقنی لو صالہ
ولا
لا ح لی مذ ند ندٌ لف ضلہ ولا
ذوخ لال حاز مثل خلالہ (حریری)
یادوں کے جھروکے سے
بغیر کسی تبصرے کے چند واقعات کے نقل پر اکتفا
کرتا ہوں، جن سے ناچیز کے تئیں آپ کی شفقت،عنایت اور مروت کا اندازہ ہو سکے گا:
جب
میں نے مشکوٰۃ شریف کے سال دارالعلوم دیوبند میں داخلہ لیا تو چند ہی دنوں بعد آپ
کی حضرت فقیہ الامت مفتی محمودحسن گنگوہیؒ سے ملاقات کے لئے دیوبند آمد ہوئی،میں
نے چھتہ مسجد میں ملاقات کی،آپ میرا ہاتھ پکڑ کر مفتی صاحب کے حجرے میں لے گئے،ان
سے ملوایا،تعارف کرایا اور مفتی صاحب سے فرمایا کہ”اصلاح وتربیت کے لئے میں ان کو
آپ کے حوالے کر رہا ہوں،ان پر خصوصی توجہ فرمائیں!“ اور مولانا ابراہیم افریقی
صاحب جو کچھ فاصلے پر کھڑے تھے، ان سے فرمایا کہ”یہ میرا پوتا ہے اسکو کبھی اندر
آنے سے نہ روکا جائے“اس بات کی اہمیت اوراس خصوصیت کی قدروقیمت کو وہی شخص پہچان
سکتاہے جس نے حضرت فقیہ الامتؒ کی شان مرجعیت کا مشاہدہ کیاہے، مگر افسوس صد افسوس
کہ چند ہی ایام کے بعد مفتی صاحب کا افریقہ کا سفر ہوا، جو سفر آخرت کا پیش خیمہ
ثابت ہوا،اور پھر آپ کی ہندوستان واپسی نہ ہو سکی۔
- ایک مرتبہ لکھنؤ،
کانپور اور ہر دوئی وغیرہ کا سفر ہوا جس میں منجملہ رفقاء سفر کے ناچیز بھی تھا،
اس سفر کے دوران مجھے جہاں موقع ملتا میزبان حضرات سے رات میں یہ طے کر لیتا کہ
فجر کی اذان سے پہلے مجھے حضرت کے لئے ایک پیالی چائے چاہیے، چنانچہ وہ بہت خوشی
اور سعادت مندی کے ساتھ اس کا انتظام کر دیتے۔ اذان فجر سے قبل ناچیز جب چائے لے
کر کمرے میں داخل ہوتا تو آپ ذکرو دعا اور تہجد کے معمولات سے فارغ ہو کر اذان فجر
کے انتظار میں تسبیح لئے بیٹھے ہوتے اور اس وقت آپ کے چہرے پر انوارات کی ایسی
تابانی ہوتی کہ مجھ جیسا کو رائے معرفت بھی اس کو محسوس کئے بغیر نہ رہتا، تہجد کے
وقت چائے کی پیالی دیکھ کر آپ بہت خوش ہوتے اور اس مبارک اور مستجاب گھڑی میں خوب
دعاؤں سے نوازتے۔
- ایک دن عصر کی نماز
کے بعد مسجد سے قیامگاہ تشریف لے جارہے تھے، آپ کے پیچھے متوسلین کی اچھی خاصی
تعدادتھی،احقربھیڑمیں پیچھے کی طرف تھا،ایک صاحب نے آپ سے مسئلہ معلوم کیاکہ
”اگرحج بدل کرانے والا اجازت دیدے تو کیا حج بدل کرنے والاحج تمتع کرسکتاہے،“آپ نے
منع فرمادیا (جیساکہ معلم الحجاج وغیرہ میں مذکورہے) وہ صاحب پیچھے کی طرف آئے تو
احقرنے ان سے کہدیاکہ:کرسکتاہے۔ انہوں نے آگے بڑھ کرآپ کو میراجواب بتادیا، آپ نے
فرمایا”بلاؤ بھائی رضی کو!“۔ مجھے ان صاحب کی اس حرکت پر شدید غصہ آیااور اپنی بے
وقوفی پر افسوس،اور یقین ہوگیاکہ آج ضرورسرزنش ہوگی،مگرمجھے سخت حیرت ہوئی کہ آپ
اس گستاخانہ بے اصولی پرقطعاََ نا راض نہ ہوئے، بلکہ مجھ سے حوالہ معلوم کیا،میں
نے احسن الفتاوٰی کے حوالے سے مفتی رشیداحمدصاحب لدھیانویؒ کی بیان کردہ گنجائش
کاتذکرہ کیا، توآپ نے ان صاحب کوبلوایااورمذکورہ صورت میں حج تمتع کی اجازت دے دی۔
- ناچیز نے تین یا چار
سال آپ کو تراویح میں قرآنِ کریم سنایا،ایک مرتبہ جب کہ مجھے دہلی میں رمضان
گزارنا تھا، آپ نے باصرار تراویح کے لئے کاندھلہ بلوایا، معتکَف میں جہاں علماء
اور صلحاء کی ایک تعداد ہوتی، بیان کے بعد ناچیز ہی سے دعا کرواتے۔
- ایک مرتبہ مدرسہ
گنبدان پانی پت کی ماہانہ مجلس کے موقع پر تہجد میں مجھے بلوایا،شدید سردی کا
زمانہ تھا اور اس وقت آپ کے سامنے ابلے ہوئے انڈے اور گرم گرم چائے رکھی ہوئی تھی،آپ
نے ان دونوں چیزوں سے ضیافت کی اور فرمایا کہ”آپ کو فجر کے بعد ذکر اور صحبت کی
اہمیت پر پندرہ منٹ بیان کرنا ہے،“میں نے احتیاطا استفسار کیا کہ اگر بیس منٹ ہو
جائیں تو اس میں کوئی حرج تو نہیں فرمایا کہ”پچیس میں حرج ہے“۔
-
آپ کے دعوتی واصلاحی اسفار پنجاب میں سرہند تک ہوتے تھے،
ایک مرتبہ ناچیز نے عرض کیا کہ میرا کبھی سرہند جانا نہیں ہوا،ایک مرتبہ آپ کے
ساتھ جانے کی خواہش ہے آپ نے میری فرمائش کو قبول کرلیا اور پانی پت کی ماہانہ
مجلس سے فارغ ہو کر وہیں سے سرہند کے سفر کا نظام بنایا،اور اسکو انتہائی خفیہ
رکھا تاکہ زیادہ بھیڑ نہ ہو،مگر اسکے باوجود جب راستے میں ایک جگہ رک کر قافلہ کی
تمام گاڑیوں کو جمع کیا گیا تو پندرہ سے متجاوز تھیں؛
صحبتیں
اگلی مصور ہمیں یاد آئیں گی
کوئی
دلچسپ مرقع نہ دکھانا ہر گز
سفرِ آخرت
۲/جون ۹۱۰۲ء مطابق ۷۲/ رمضان المبارک ۰۴۴۱ھ بروز اتوار شام
پانچ بجکر پچیس منٹ پر علم ومعرفت کا یہ چراغ ہمیشہ کے لئے گل ہو گیا،بر صغیر کے دینی
افق پرپون صدی تک چمکنے والا یہ ستارہ ہمیشہ کے لئے غروب ہو گیا، آخری دیدار کے
لئے معتقدین اور متوسلین کا سیلاب امنڈ پڑا، ہر ایک وارفتہ قدموں سے بھاگا چلا
آرہا تھا اور زبان حال سے کہہ رہا تھا:
آتا
ہے ایک پارہ ئدل ہر فغاں کے ساتھ
تارِ نفس کمند شکار
اثر ہے آج
اے
عافیت کنارہ کر!اے انتظام چل!
سیلاب
گریہ درپئے دیوار ودر ہے آج
کاندھا
دینے والوں کے ہجوم کی وجہ سے ہر انتظام اور ہر تدبیر ناکافی ہو رہی تھی،بالآخر اس
”میر کارواں“ کولاکھوں سوگواروں نے با
چشمِ پر نم وبا دل ِپر غم خاندانی قبرستان واقع مدرسہ سلیمانیہ،عید گاہ، کاندھلہ میں
اسلاف کے پہلو میں سپرد خاک کر دیا۔
مثل
ایوان سحر،مرقد فروزاں ہو ترا
نور
سے معمور یہ خاکی شبستاں ہو ترا
”ان العین لتدمع،وان القلب لیخشع،ولا نقول الا ما یرضی ربنا
وانا بفراقک یا جدنا لمحزونون“۔
ناچیز
نے ان اوراق میں جو کچھ نقوش و تأثرات پیش کئے ہیں؛ بلا شبہ آپکے کمالات کے تئیں
ان کی حیثیت ایک ’اشارہ‘ کی ہے’احاطہ‘ کی نہیں؛
ورق
تمام ہوا اور مدح باقی ہے
سفینہ
چاہئے اس بحر بیکراں کے لئے
محمد ارتضاء الحسن
رضی کاندھلوی
مرکز ابو ہریرہ،عین
خالد،دوحہ،قطر
20اگست 2019ء بوقت
شب دو بجکر بیس منٹ
0 تبصرے
Please do not enter any spam link in the comment box
براہ کرم کمنٹ باکس میں کوئی سپیم لنک نہ ڈالیں