بقیتہ ا لسلف
حضرت مولانا محمد افتخارالحسن کاندھلوی
چندنقوش وتأثرات
ازقلم: مفتی محمد ارتضاء الحسن صاحب رضی کاندھلوی
مقیم دوحہ،قطر
دوسری قسط
علمی استحضار:
آپ کی علمی زندگی میں جہاں وسعت علمی نمایاں
تھی وہیں آپ کا استحضارحیرت انگیز تھا، نمونہ کے طور پر چند واقعات پیش خدمت ہیں:
۱- ایک
مرتبہ ایک جلسے میں تقریر سے فارغ ہوئے تو دیہاتی حضرات معمول کے مطابق مختلف قسم
کی بوتلوں میں پانی دم کرانے کے لئے لے آئے، انہی بوتلوں میں آپ کی بیدار نگاہوں
نے شراب کی بوتل کو پہچان لیا جو یقینا فی الحال صاف ستھری اور بالکل پاک تھی، مگر
اس پر دم کرنے سے انکار کردیا، اس کے استعمال پر نکیر فرمائی اور ناچیز کی طرف
متوجہ ہوکر حضرت ابوہریرہ ؓ کی ”النہی عن الدباء والحنتم والنقیر“
والی روایت سے ایسا لطیف استدلال فرمایا کہ بندہ محظوظ ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔
۲- ایک
صاحب نے مظفر نگر کی ایک مسجد کا واقعہ نقل کیا کہ وہاں امام صاحب نے فجر کی نماز
لحاف اوڑھ کر پڑھائی، آپ نے برجستہ اس طرز عمل پر نکیر فرمائی اور حضرت ابوسعید
خدری ؓ کی ”النہی عن
اشتمال الصماء“ والی روایت سے استدلال
کیا، گرچہ یہاں اختلاف رائے کی گنجائش ہے، مگرآپ کا منٹ کے ہزارویں حصے میں
سمندرحدیث کے اندر غوطہ لگاکر متعلقہ حدیث کوپیش کرنا علم حدیث سے غیرمعمولی ربط کی
دلیل ہے؛
حدیث مصطفی سے ربط تھا قلب مصفیٰ کو
زباں میں کوثرو تسنیم کی شامل حلاوت تھی
۳- ایک
مرتبہ امام مسجد اقصیٰ ہندوستان کے دورے پر تشریف لائے اور انہوں نے مظفرنگر کے
قصبہ منصورپور میں ایک بڑے مجمع کو ظہر کی نماز پڑھائی اور مسافر ہونے کے باوجود
اتمام کیا (یعنی چار رکعت نماز پڑھائی)اورچونکہ وہ شافعی المسلک تھے اور ان کے
مسلک میں مسافر کیلئے اتمام جائز ہے،اس لئے نمازیوں میں اہل علم کو کوئی اشکال نہیں ہوا، لیکن جب آپ کو اس واقعہ کا
علم ہوا تو فرمایا کہ مقیم مقتدیوں کی ظہر کی نماز نہیں ہوئی، کیونکہ امام صاحب
حنفی مسلک کی روسے آخری دورکعت میں متنفل تھے اور صلاۃ المفترض خلف المتنفل احناف
کے نزدیک جائز نہیں ہے، اس واقعہ سے آپ کی فقہی گہرائی کا اندازہ ہوتا ہے۔ یہ اور
اس طرح کے بے شمار واقعات آپ کی تبحر علمی پر شاہد عدل ہیں؛
کیا لوگ تھے جو راہ
وفا سے گزر گئے
جی چاہتاہے نقشِ قدم چومتے چلیں
تواضع، مروت اور احترام علماء:
قدرت نے آپ کے مزاج میں غیر معمولی تواضع
اور انکساری ودیعت رکھی تھی، شان وشوکت اور کروفر سے دور رہتے تھے، سفروحضر میں
اگر آپ کے اکرام یا استقبال کا کوئی خاص اہتمام کیاجاتا تو طبعی طور پر ناگواری
ہوتی اور سخت ناراضگی کا اظہار فرماتے، یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ بناؤٹی تواضع
تو ہر ایک آسانی سے اختیار کرلیتا ہے، مگرآپ کے یہاں حقیقت ہی حقیقت تھی، تصنع کا
نام ونشان نہیں تھا؛ کیفیت ہی کیفیت تھی رسمیت کا تصور نہیں تھا؛اور للہیت ہی للہیت
تھی دکھلاوے کا کوئی خانہ نہیں تھا۔
شہرت،ناموری اور”اونچی اڑان“ کی خواہش سے
کوسوں دوررہتے تھے،ٓپ نے عملی زندگی کے آغازمیں اپنی دینی جدوجہد کا جو ایک دائرہ
کھینچاتھا،پوری زندگی اس دائرے سے باہرنہیں نکلے، بڑے بڑے شہروں اورملکوں کے
اسفارجو کہ موجودہ دورمیں مقبولیت کا معیاربن چکے ہیں،احباب اور اہل تعلق کے ہزار
اصرار کے باوجود ان کیلئے رضامند نہیں ہوئے،بالخصوص مولاناابراہیم پانڈورنے افریقہ
کی بارہادعوت دی اور اصرارکیا،مگرہرمرتبہ آپکی یہی سرشت مانع رہی،اس کے باوجود
اللہ رب العزت نے آپ کے چشمہئ فیض سے ایک عالم کوسیراب کیا۔
آپ کے دولت کدہ پر ہر طرح کے لوگ آتے تھے،
اشراف دین بھی اور اشراف دنیا بھی اور آپ ”انزلواالناس منازلہم“ کے نبوی اصول پر
سختی سے عمل پیرا رہتے تھے،البتہ اگر کسی بزرگ یا عالم دین کی آمد ہوتی تو تواضع
اور جذبہئ ضیافت واکرام دوبالا ہوجاتا اور آنے والا ایسا تأثر لیکر جاتا جو زندگی
بھر تازہ رہتا۔
راقم السطور کے نزدیک آپ کی ایک بڑی خصوصیت
”علمی تواضع“تھی، علمی مباحث کو کبھی ”ناک کا مسئلہ“ نہیں بناتے تھے، اگرکسی کی
رائے دلیل کے اعتبار سے قوی معلوم ہوتی تو قبول کرنے میں تردد نہ فرماتے،اقران اور
معاصرین سے تقابل کبھی حاشیہ ئ خیال میں بھی نہ آتا،بلکہ ان کے اعزاز واکرام میں
فخر محسوس کرتے اور خود سراپا تواضع بن جاتے، اس سلسلہ کے دو واقعات کے نقل پر
اکتفاء کرتا ہوں، جن کا میں عینی شاہد ہوں:
۱- ایک
مرتبہ جامعہ مظاہر علوم کی شوری میں شرکت کیلئے سہارنپور تشریف لے گئے، دوران قیام
ناچیز سے فرمایا کہ”مولانا یونس صاحب سے ملاقات کرنی ہے“،چنانچہ میں آپ کو مخدومی
حضرت شیخ الحدیث مولانا محمدیونس صاحب ؒ کے حجرے میں لے گیا،شیخ نے اکراماََ ان کیلئے
گدا بچھوایا اور گاؤ تکیے لگوائے،مگر آپ نیاز مندانہ انداز میں قدرے تکلف کے ساتھ
بیٹھے، ان دو جبال علم کی ملاقات کے دوران ناچیز جو ہر بات کو بڑی اہمیت کے ساتھ
نوٹ کر رہا تھا، اس وقت ورطہئ حیرت میں پڑ گیا جب شیخ ؒ نے کچھ ناصحانہ کلمات کہے،
جن میں بطور خاص اخلاص پر زور دیا تو آپ نے گردن جھکا کر اس انداز سے ان نصائح کو
سنا جیسے کوئی شاگرد یا عام مرید ہو، اور آخر میں متواضعانہ انداز میں فرمایا:”میں
پوری کوشش کروں گا، آپ دعا فرمائیں!“حالانکہ آپ مقام ومرتبہ کے اعتبار سے کم نہیں
تھے، بلکہ عمر میں تو شیخ سے کافی بڑے تھے، ناچیز اپنی کم مائیگی کی وجہ سے یہ فیصلہ
کرنے سے قاصر رہا کہ اس واقعہ میں حضرت شیخ ؒکی مخصوص روحانی کیفیت کوسرمایہئ دل و
جاں بناؤں یا آپ کی اس عالمانہ تواضع کو سرمہئ چشم،جس میں آپ اپنے اقران کی صف میں
بالکل ممتاز نظر آتے ہیں۔
۲-
ایک مرتبہ ایک اہم علمی مشورے کے لئے حضرت
الاستاذ مفتی سعید احمد صاحب پالنپوری مدظلہ سے ملنے دیوبند تشریف لے گئے، وہاں سے
مظفر نگر جانا تھا،جہاں کئی روز قیام پہلے سے طے تھا، اس موقع پر ڈرائیور کے علاوہ
آپ کا رفیق سفر تنہا ناچیز تھا، مفتی صاحب کی مجلس چونکہ بالائی منزل پر تھی جہاں
آپ کا چڑھنا دشوار تھا، اسلئے مفتی صاحب نے نیچے زنانے حصے کے ایک گوشے میں بیٹھنے
کا انتظام کیا،دوران ملاقات مفتی صاحب نے مدرسہ گنبدان پانی پت کی ماہانہ مجلس کے
بعض معمولات پر اپنے صاف گوئی کے مخصوص انداز میں چند ایسے تحفظات کا اظہار کیا،
جن کی بنیاد کسی صاحب کی بیان کردہ غلط معلومات پر تھی، اس عجیب وغریب صورت حال میں
ناچیزنے آپکی طرف دیکھا توچہرے پر ان غلط الزامات کی وجہ سے کبیدگی کے آثار نمایاں
تھے، مگر آپ مفتی صاحب کی مروت اور احترام میں بالکل خاموش رہے،یہ تک نہیں کہا کہ
”یہ باتیں خلاف واقعہ ہیں“یہ منظر دیکھ کر ناچیز نے اپنی ذمہ داری کا احساس کیا
اور ان بے بنیاد الزامات کی تردید کی،اور گنبدان کے معمولات کی از اول تا آخر
وضاحت کی،حضرت الاستاذ یہ تفصیل سن کر نہ صرف مطمئن ہو گئے، بلکہ غلط اطلاعات پر
شدید افسوس کا اظہار فرمایا،میری گفتگو کے دوران آپ کے چہرے پر ایک مسکراہٹ تھی،جو
چند لمحے پہلے کی کبید گی کو دور کرکے اپنی جگہ بنا رہی تھی۔
ان دونوں موقعوں پر آپ نے تواضع کے جو
نمونے پیش کئے وہ اپنی نظیر آپ تھے، ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ارشاد نبوی ”من تواضع
للہ رفعہ اللہ“کا مفہوم اپنی تمام تر گہرائی کے ساتھ ان کے دل میں اتر چکاتھا اور
وہ اس حقیقت کو کما حقہ سمجھ چکے تھے کہ تواضع ذلت کا نام نہیں ہے، بلکہ اس میں
رفعت ہی رفعت ہے، ایسی رفعت جو عزت وذلت کے مالک کی عطا کردہ اصلی ہے انسانوں کی
خود ساختہ(مصنوعی)نہیں ہے،ذوق دہلوی مرحوم کایہ شعر آپکی شخصیت کاآئینہ دارہے؛
تواضع کاطریقہ صاحبو!پوچھو صراحی سے
کہ جاری فیض بھی ہے اور جھکی جاتی ہے گردن
بھی
انداز بیان اور اسلوبِ خطابت
تقریر ہویا درس قرآن، وعظ و نصیحت ہو یا
مجلسی گفتگو، آپ کا انداز تکلم سادہ اور عام فہم ہو نے کے ساتھ ساتھ انتہائی پر
اثر، دل نشیں اور دلوں کو فتح کرنے والا تھا اور اس میں ایسی مقناطیسی کشش تھی جو
سامعین کو اپنی طرف متوجہ رکھتی تھی، جب خطاب فرماتے تو پورا مجمع گوش برآواز
رہتا،حالانکہ عام مقررین کی طرح نہ انداز لچھے دار تھا اور نہ ہی زینت گفتار کے
لئے بے مقصد لفاظی کی عادت، مگر اس کے باوجود قادرالکلام ایسے جیسے پہاڑوں سے
آبشار گر رہا ہو؛
نہ بادہ، نہ صراحی، نہ دورِپیمانہ
فقط نگاہ سے رنگیں ہے بزم جاناناں
آپ ”نرم دم گفتگوگرم دم جستجو“تھے انداز
بہت ٹھنڈا اور میٹھا تھا،لیکن اگر دین اسلام پر کوئی آزمائش آ جاتی خواہ وہ نسبندی
کی شکل میں ہو یا توہین قرآن کی،قادیانیت کے سر اٹھانے کی شکل میں ہو یاآپ ﷺ کی
شان میں گستاخی کی تو آپ کی تقریروں میں ایک جوش پیدا ہوجاتا، لہجہ میں ایک قسم کی
کرختگی آجاتی اور ایسی تقریریں فرماتے کہ بڑا سے بڑا مجمع آپکی للکار پر سہم جاتا
اور ایک اشارے پر ہر قسم کی قربانی دینے کے لئے تیار ہو جاتا؛
تری الناس ما سرنا یسیرون خلفنا
وان نحن اوم أنا الی الناس وقفوا (فرزدق)
انہوں نے پوری زندگی باطل کے آگے سر نہیں جھکایا،خود اعتمادی ان کا سب سے
بڑا ہتھیار تھی، اور تعجب خیز حد تک ان کو اپنے دست و پا پربھروسہ تھا،حق گوئی اور
بے باکی میں اپنی مثال آپ تھے؛
آئین جواں مرداں: حق گوئی و بے باکی
اللہ کے بندوں کو آتی نہیں رو باہی
آپ کے عوامی واصلاحی بیانات میں علمی رنگ
انتہائی گہرا اور چوکھا ہوتا،کبھی کبھی تو ایسا لگتا کہ بخاری شریف کا درس ہو رہا
ہے،بعض مرتبہ سند پر بھی گفتگو کرتے اور سند کے لطائف بیان فرماتے اسکے باوجود
پورے بیان میں کوئی بات ایسی نہ ہوتی جسکو سامعین کے لئے ناقابل فہم قرار دیا جا
سکے۔
مجلس کا انداز:آپکی مجلسوں میں جو
رونق،بانکپن،خوش رنگی، ثمر خیزی اور برکت نمایاں تھی وہ اس کم علم وشعور کو کہیں
اور دیکھنے کو نہیں ملی، جس سے ملاقات کرتے خوش دلی سے ملتے، مذاق بھی کرتے،دل لگی
بھی فرماتے، ضرورت کے وقت لہجے میں سختی بھی آجاتی،غصہ بھی ہوجاتے اور حسب مراتب
سخت سست بھی کہہ دیتے،اسکے باوجود کسی کے دل میں ناگواری اور آپ کے تئیں عقیدت و
محبت میں کوئی فرق نہ آتا،جسکی وجہ آپکے خلوص اور خداداد مقبولیت کا حسین امتزاج
تھا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ آنے والوں میں ایک
بڑی تعداد ان لوگوں کی ہوتی جن کا مقصد دعا اور تعویذ ہوتااور یہ لوگ آپ کے ا صل
فن اوراصل جوہر سے استفادہ کرتے کم نظر آتے، آپ نا گواری کے باوجود خدمت خلق کے
جذبے سے ہر ایک کی ضرورت پوری کرنے میں مشغول رہتے،مگر جہاں کسی نے تصوف یا سلوک
کا کوئی مسئلہ پوچھ لیا یا کوئی علمی بحث چھیڑ دی یا کسی اللہ والے کا تذکرہ کر دیا
تو فوراً چہرے پر بشاشت آجاتی اور ایسامعلوم ہوتا جیسے کسی نے دل کا ساز چھیڑ دیا
ہے اور پھر علم ومعرفت کا ایسا نغمہ بجتا کہ اہل ذوق تمنا کرتے کہ یہ مجلس کبھی ختم
نہ ہو؛
زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا
تمہی سو گئے داستاں کہتے کہتے
ملی اور اصلاحی خدمات:
آپ کی زندگی ایک ”جہد مسلسل“سے عبارت تھی،پوری
دنیا میں کہیں بھی اگر مسلمانوں پر کوئی آزمائش آ جاتی توبے چین ہو جاتے۔ پھر کبھی
فجر کی نماز میں قنوت نازلہ پڑھی جاتی اور کبھی روزانہ کا معمول بنا کر امام جزری
ؒ کی ”الحصن الحصین“کا ختم ہوتا، اسی طرح
بدعات، رسومات اور منکرات کی تردید اور باطل فرقوں کی بیخ کنی کے موقع پر
آپ ”شمشیر براں“بن جاتے، زیادہ تر آپ کی اصلاحی جد وجہد کا مرکز مغربی یو پی اور
ہریانہ و پنجاب کے علاقے ہوتے جہاں آپ نے بڑی تعداد میں مدارس اور مکاتب قائم
فرمائے،ہریانہ اور پنجاب کی بعض ایسی تاریخی مساجد جو غیر مسلموں کے قبضے میں تھیں،بلکہ
شراب کے اڈوں میں تبدیل ہو چکی تھیں، ان کو بازیاب کرا کے آباد کیا۔ سردی، گرمی،برسات
اور راستوں کی ناہمواری کے باوجود بلا مبالغہ آپ نے ان علاقوں کے ہزاروں سفر کئے۔
جس علاقے کو توجہ کا مرکز بنایا وہاں شب وروز کی کوششوں سے صالح انقلاب برپا کر دیا،
بلا شبہ آج ان علاقوں کے دینی ماحول میں آپ کی قربانیوں کے غیر معمولی اثرات ہیں۔
آپ کی ساحرانہ شخصیت سے تر بیت پا کر سینکڑوں
لوگ کندن ہو کر نکلے اور سینکڑوں حلاوت ایمانی سے لذت آشنا ہوئے،کتنے ہی اہل ارادت
ایسے تھے جن کی حیثیت بیعت کے وقت ”خام مال“ سے زیادہ نہیں تھی،لیکن آپ کی زود اثر
صحبت اور تربیت نے ان کو کار آمداورگراں قدر مصنوعات میں تبدیل کر دیا، آپ کے
وابستگان نے آپ سے اتباع سنت کاجذبہ اورحالات کی موافقت و مخالفت دونوں صورتوں میں
ذوق عمل سے سرشار رہنا سیکھا۔
یہ حلقہئ ارادت جن کی اصلاح وتربیت کے لئے
آپ نے خون جگر کا نذرانہ پیش کیا تھا اور
جنہوں نے آپ سے والہانہ محبت کی تھی، آج اپنے محبوب قائد اورمربی کے وصال پر رنجیدہ،
افسردہ اور اشکبار ہیں اور زبان حال سے کہ رہے ہیں؛
ویراں ہے مے کدہ،خم وساغر اداس ہیں
تم کیا گئے کہ روٹھ گئے دن بہار کے
محبوبیت اور
مقبولیت
اللہ تعالی نے آپکی شخصیت میں جاذبیت و دیعت
رکھی تھی جو ایک مرتبہ زیارت کر لیتا وہ گرویدہ ہو جاتا، جہاں پہنچ جاتے ساری فضاء
آپ کی روحانی خوشبو سے عطر بیز اور مشکبار ہو جاتی، اہل ارادت آپ پر اس طرح جاں
نثار تھے جیسے شمع پر پروانے، جہاں سے گزر جاتے چاہنے والوں کی ایک بھیڑ لگ جاتی۔
راقم السطور نے بارہا مشاہدہ کیا کہ سفر کے دوران کسی چوراہے وغیرہ پر ٹریفک کی وجہ سے اگر گاڑی رک
جاتی تو تھوڑی ہی دیر میں چاروں طرف سے لوگ جمع ہو جاتے اور سلام ومصافحہ کی سعادت
حاصل کرنے کی کوشش کرتے، کسی کے پھل کی دکان ہے تو وہ پھل پیش کر رہا ہے، کسی کی
چائے کی دکان ہے تو وہ آپ کو اور رفقاء کو چائے پلانے کی کوشش کر رہا ہے، چند ہی
لمحوں میں ”ہجومِ عاشقاں“کے یہ مناظر آپ کے اسفار کے دوران عام سی بات تھی؛
ہجوم کیوں ہے زیادہ شراب خانے میں
فقط یہ بات کہ پیر مغاں ہے ”مرد خلیق“
ایک مرتبہ کاندھلہ کے قریب تبلیغی اجتماع
تھا، دعا کے بعد واپسی کے لئے جب آپ گاڑی میں بیٹھے تو زیارت اورمصافحہ کے لئے
مجمع بے قابو ہو گیا، راقم السطور آپ کے پیچھے والی گاڑی میں سوار تھا، تھوڑی دیر
میں جب گاڑیوں کی رفتار قدرے تیز ہوئی تو ناچیز نے ایک عجیب وغریب منظر کا مشاہدہ
کیا، جب لوگوں نے دیکھا کہ اب زیارت و مصافحہ ممکن نہیں تو وہ تیزی سے دوڑتے اور
آپ کی گاڑی کو ہاتھ لگاکر اس کو چوم لیتے گویا کہ زبان حال سے کہتے ”ایسا کہاں سے
لائیں کہ تجھ سا کہیں جسے“۔سادہ لوح دیہاتیوں کی اس حرکت پر تبصرہ نگار منفی یا
مثبت جو بھی تبصرہ کریں، مگر ناچیز کے نزدیک اس میں ”فیوضع لہ القبول فی الارض“ کی
ضرور کرشمہ سازی تھی۔
0 تبصرے
Please do not enter any spam link in the comment box
براہ کرم کمنٹ باکس میں کوئی سپیم لنک نہ ڈالیں