Hazrat Molana Mohammad Iftikharul Hasan Kandhlavi Reh Part 1 حضرت مولانا محمد افتخارالحسن کاندھلوی

بقیتہ ا  لسلف

حضرت مولانا محمد افتخارالحسن کاندھلوی



چندنقوش وتأثرات

ازقلم: محمد ارتضاء الحسن رضی کاندھلوی

مقیم دوحہ،قطر

حضرت مولانا افتخار الحسن کاندھلویؒکی شخصیت علمی، دینی اور اصلاحی حلقوں میں محتاج تعارف نہیں ہے، آپ کی حیات مبارکہ، مخلصانہ، مجاہدانہ اور سرفروشانہ کارناموں سے بھری ہوئی ہے، تقریباً آٹھ دہائیوں تک ان کاستارہئ بلند اقبال بر صغیر کے دینی افق پرجگماتا رہا اور وہ اپنی علمی اور روحانی شخصیت سے ایک عالم کو سیراب کرتے رہے، اللہ رب العزت نے آپ کی عمر میں برکت عطافرمائی، چنانچہ وفات کے وقت عمر مبارک سو سال،چارماہ اور سولہ دن تھی۔

آپ کو حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ، حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ، حضرت مولانا محمد الیاس کاندھلوی ؒ، شاہ عبدالقادر رائے پوریؒ، حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ، حضرت مولاناشاہ اسعد اللہؒ رامپوری اور ان جیسے دیگر اساطین امت کی نہ صرف زیارت کا موقع ملا، بلکہ ان میں سے اکثر کو قریب سے دیکھنے،سمجھنے، برتنے اور بھر پور علمی اور روحانی استفادے کی سعادت نصیب ہوئی، جس کی وجہ سے ان اکابر کے روحانی اثرات آپ کی شخصیت میں نمایاں تھے،یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی اکابر کاجیتا جاگتا نمونہ دیکھنا چاہتا تو آپ کی زیارت کرکے اپنی آنکھوں کو ٹھنڈا کرلیتا اور یہ کہنے پر مجبور ہوتا ”بسیارخوباں دیدہ ام‘لیکن تو چیزے دیگری“۔

بلند شخصیت، بے غرض جدوجہد، بے داغ زندگی اور مکارم اخلاق نے آپ کی ذات کو کھرا سونا اور سچا موتی بنادیا تھا، بقول ربیعہ بن مقروم الضبی کے؛

ھجان الحی کالذہب المصفیٰ

صبح          یۃ    دیمۃ   یجنیہ   جان

زیر نظر مضمون میں راقم السطور کے پیش نظر آپ کے سوانحی حالات کو بیان کرنا یا جملہ کمالات کا احاطہ کرنا نہیں ہے، اس موضوع پرباذن اللہ عم محترم نامور مؤرخ مولانانورالحسن راشد کاندھلوی مدظلہ فرزند و جانشین حضرت رحمۃ اللہ علیہ قلم اٹھائیں گے، اور وہی اس کے حقدار ہیں،میرامقصد تو اپنے ذاتی مشاہدات، تأثرات اور احساسات کو پیش کرنا ہے؛

میں نے اپنے آشیانے کیلئے

جو چبھے دل میں وہی تنکے لئے

اصلاحی تعلق اور کسبِ فیض

آپ نے اولاََ حضرت مولانا محمد الیاس کاندھلوی ؒ سے اصلاحی تعلق قائم فرمایا، پھر ان کی وفات کے بعد حضرت مولانا محمدزکریا کاندھلوی ؒ کے مشورے سے حضرت شاہ عبدالقادر رائے پوریؒ کے ”آستانہئ معرفت“ سے وابستہ ہوئے۔ اور چونکہ آپ کا باطن وہبی اور کسبی خوبیوں کے امتزاج کی وجہ سے طریقت کی حرارت اور حلاوت کو قبول کرنے کیلئے تیار تھا، اس لئے آپ نے سالوں کی راہ مہینوں میں، مہینوں کی ہفتوں میں اور ہفتوں کی دنوں میں طے کی اور اپنے شیخ کے اعتماد اور استناد سے بہت جلد سرفراز ہوکر چاروں سلسلوں میں ان کے خلیفہ ومجاز قرار پائے؛

دیتے ہیں بادہ ظرف، قدح خوار دیکھ کر

بعد ازاں آپ نے اس نسبت کی ایسی لاج رکھی اور اس طرح اس کا حق ادا کیا کہ جس کی نظیر تاریخ میں کم ملتی ہے۔ آپ نے اپنی صلاحیتوں سے جو کچھ علمی، دینی اصلاحی،فکری اور انقلابی کارہائے نمایاں انجام دئیے، ہر انصاف پسند مؤرخ انہیں آب زر سے لکھنے پر مجبور ہوگا،اور دردِدل، راست بازی، اولوالعزمی، خودداری، خود شناسی، سحرانگیزی، محنت و جانفشانی، جرأت وبے باکی، ظاہر وباطن کی یکسانیت اور اعلیٰ کردار کے جو لازوال نمونے پیش کئے ہیں، رہتی دنیا تک ان کو یاد رکھا جائے گا؛

وہ ادائے دلبری ہو کہ نوائے عاشقانہ

جو دلوں کو فتح کرلے وہی فاتح زمانہ

علمی مقام

اللہ رب العزت نے آپ کو جو علمی مقام عطا فرمایا تھا وہ اہل علم پر مخفی نہیں ہے۔ تقویٰ اور کردار کی پاکیز گی نے آپ کے علم میں چار چاند لگادئے تھے، اور بلا شبہ آپ ”واتقوااللہ ویعلمکم اللہ“ کا حسین پیکر تھے، حدیث، تفسیر، فقہ اور تاریخ پرگہری نظر تھی، احادیث مبارکہ کے طویل ترین متون قرآنی آیات کی طرح ازبر تھے اور ان کی شرح و توضیح میں اقوال ائمہ حیران کن حدتک مستحضر، تفسیر میں مطالعہ کی وسعت کا اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت رائے پوری قدس سرہ نے زیر مطالعہ کتب تفسیر کی بابت استفسارفرمایا تو آپ نے فنِ تفسیر کی تقریباً پندرہ امہات الکتب کا تذکرہ کیا، آپ کے درسِ قرآن کی عمر نصف صدی سے زائد ہے، اس عرصے میں آپ نے پانچ مرتبہ پورے قرآن کی تفسیر کی جن میں سے آخری دور۲۳/ سال میں مکمل کیا،جبکہ روزانہ فجر کے بعدکم از کم ایک گھنٹہ درس دینے کا معمول تھا۔

فقہ وفتاوی میں بھی آپ امتیازی مقام رکھتے تھے، فقہی کلیات اور جزئیات پر غیر معمولی دسترس حاصل تھی، متقدمین فقہاء کی کتابوں پرگہری نظرہونے کے باوصف حضرت فقیہ الامت مفتی محمود حسن گنگوہی ؒ کے ”فتاوی محمودیہ“ پر غیر معمولی اعتماد فرماتے تھے، ایک مرتبہ ناچیز سے فرمایا کہ:”فتاوی محمودیہ کو میں ظاہر الروایہ کا درجہ دیتا ہوں“۔ چنانچہ اگر راقم السطور نے کبھی کسی مسئلہ میں اختلاف رائے کیا اور بطور حوالہ ”فتاوی محمودیہ“ کا نام پیش کردیاتو آپ نے بصد بشاشت اس کو قبول کرلیا اور خوشی کا اظہار فرمایا۔

آپ کا علم برائے علم نہیں تھا، بلکہ برائے عمل ودعوت عمل تھا، خود بھی ”معلومات“ کو”معمولات“ بنانے کی عادی تھے اور دوسروں کو بھی اس کی دعوت دیتے تھے، آپ نے اپنے علم کے ایک ایک جزء کو معتقدین اور متوسلین تک پہونچانے میں کسی بخل سے کام لیا اور نہ ہی ”کلموا الناس علی قدرعقولہم“ جیسے اصولوں کو آڑے آنے دیا، اپنے علمی سمندر سے ایسے ایسے موتی عام فہم اور سادہ انداز میں حاضرین کے سامنے پیش فرماتے، جن کی حیثیت خالص علمی ہوتی، بلکہ بعض مرتبہ وہ مضامین عام علماء کی دسترس سے بھی باہر ہوتے، غالباً یہی وہ عادت مبارکہ ہے جسکی وجہ سے ان کے علم میں غیرمعمولی برکت ہوئی اور بہت سے علماء‘ علم کے اس بحر ذخار کو دیکھ کر ششدر رہ گئے۔

حدیث کی ایک عالی سند

منجملہ اسانید حدیث کے آپ کے پاس ایک بہت عالی سند تھی جس کے مطابق آپ کے اورحضرت شاہ عبدالعزیزؒ کے درمیان صرف دو واسطے تھے؛  ۱- شاہ علاؤالدین پھلتی، ؒ ۲- شاہ فضل رحمان گنج مرادآبادی۔ حیات مبارکہ کے اخیر سالوں میں جب علماء عرب کو آپ کی اس خصوصیت کا علم ہوا توسعودی عرب اور قطر وغیرہ کے متعدد علماء عرب نے مختلف کتب حدیث کی آن لائن قرأت کرکے اجازت حدیث حاصل کی، اس طرح اللہ رب العزت نے آپ کے فیض کو عالمِ عرب تک پہونچادیا۔

جاری ہے

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے