‎ ‎قربانی میں وکالت سے متعلق بنیادی احکام ‏Basic rules regarding advocacy in sacrifice



✍🏻۔۔۔ مفتی مبین الرحمٰن صاحب مدظلہ
فاضل جامعہ دار العلوم کراچی
اِصلاحِ اَغلاط: عوام میں رائج غلطیوں کی اِصلاح
 قربانی میں وکالت سے متعلق بنیادی احکام
1️⃣ جس شخص کو قربانی کا جانور خریدنے کے لیے وکیل بنایا جائے تو اس کو جانور سے متعلق ضروری اوصاف بتلادیے جائیں، اسی طرح قیمت کی حد بھی بیان کردی جائے تاکہ ایک تو جانور خریدنے میں شریعت کے مطلوبہ اوصاف وشرائط کی رعایت ہوسکے، دوم یہ کہ بعد میں موکل اور وکیل کا باہمی کسی بھی قسم کا تنازع نہ بنے۔
2️⃣ جانور کی خریداری کا وکیل اگر اس وکالت کی اجرت لینا چاہے اور موکل اور وکیل باہمی رضامندی سے  کوئی اجرت طے کرلیں تو یہ بالکل جائز ہے۔ البتہ اجرت طے کیے بغیر وکیل کے لیے جائز نہیں کہ وہ موکل کی اجازت کے بغیر کوئی اجرت یا رقم اپنے لیے رکھ لے۔

📿 *قربانی کرنے کی وکالت اور نیابت:*
کسی دوسرے شخص کو قربانی کرنے کا وکیل اور نائب بنانا درست ہے کہ وہ وکیل قربانی کے ایام میں موکل کی طرف سے قربانی کرلے یعنی قربانی کا جانور ذبح کرلے، البتہ اس حوالے سے درج ذیل امور کی رعایت رکھنا اہم اور مفید ہے:
1⃣ جس شخص یا ادارے کو قربانی کرنے کا وکیل یا نائب بنایا جائے تو اس کے بارے میں یہ اطمینان کرلیا جائے کہ وہ معتبر اور قابلِ اعتماد ہو کہ وہ واقعتًا شریعت کے احکام کی روشنی میں قربانی کرے گا۔ اس لیے جو ادارہ یا شخص قابلِ اعتماد نہ ہو تو اس کو ہرگز قربانی کرنے کا وکیل نہ بنایا جائے۔ آجکل آن لائن یا وقف قربانی کے نام پر جو سلسلہ چل نکلا ہے اس میں بھی خوب احتیاط سے کام لینے کی ضرورت ہے۔
2️⃣ جس شخص یا ادارے کو قربانی کرنے کا وکیل یا نائب بنایا جائے تو اس کے ساتھ قربانی کے تمام مراحل سے متعلق معاملات وضاحت کے ساتھ طے کرلینے چاہییں اور کسی بھی پہلو میں ابہام باقی نہ رکھا جائے تاکہ بعد میں کسی بھی قسم کا تنازع پیش نہ آئے۔
☀ فتاویٰ ہندیہ:
وَمِنْهَا: أَنَّهُ تَجْرِي فيها النِّيَابَةُ فَيَجُوزُ لِلْإِنْسَانِ أَنْ يُضَحِّيَ بِنَفْسِهِ أو بِغَيْرِهِ بِإِذْنِهِ؛ لِأَنَّهَا قُرْبَةٌ تَتَعَلَّقُ بِالْمَالِ فَتَجْرِي فيها النِّيَابَةُ، سَوَاءٌ كان الْمَأْذُونُ مُسْلِمًا أو كِتَابِيًّا. (كِتَابُ الْأُضْحِيَّةِ)

📿 *اجتماعی قربانی سے متعلق چند بنیادی باتیں:*
1⃣ آجکل بہت سے حضرات اپنی سہولت کی غرض سے اجتماعی قربانی میں حصہ لیتے ہیں تو شرعی اعتبار سے اس میں حصہ لینا درست ہے، البتہ اس میں بھی اس بات کا لحاظ رکھا جائے کہ اجتماعی قربانی کرنے والی انتظامیہ قابلِ اعتماد ہو جو کہ شریعت کے مطابق قربانی کے تمام امور سرانجام دیتی ہو۔
2️⃣ اجتماعی قربانی کی انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ ہر جانور میں شرکاء کی تعیین کرنے کا بھرپور  اہتمام کرے تاکہ تمام افراد کے لیے جانور متعین ہوجائیں اور بعد میں کسی بھی قسم کے تنازع کی نوبت نہ آئے۔
3⃣ اجتماعی قربانی کی انتظامیہ کو چاہیے کہ جس شریک کا حصہ جس جانور میں متعین ہوجائے تو اس کو اسی جانور کے حصے کا گوشت دیا جائے۔
4️⃣ قربانی کے شرکاء کو شریک کرتے وقت جو قیمت لی جائے اس میں قربانی کے تمام مراحل کے مناسب اخراجات شامل کرنا درست ہے، البتہ اس کی صراحت کردی جائے تاکہ بعد میں کسی قسم کا تنازع نہ بنے۔
5️⃣ اجتماعی قربانی کی انتظامیہ چوں کہ وکیل ہوتی ہے اس لیے قربانی کے تمام مراحل کے اخراجات میں سے جو رقم بچ جائے تو وہ موکل حضرات کو واپس کرنی ضروری ہے، البتہ اگر ان کی طرف سے وہ رقم خاص مصرف یا عمومی مصارف میں صرف کرنے کی اجازت ہو یا وہ انتظامیہ ہی کو ہدیہ کرنا چاہیں تو اسی کے مطابق عمل کرلیا جائے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے جامعہ دار العلوم کراچی کا فتویٰ:2090/8، مؤرخہ: 9/ 11/ 1440ھ۔

📿 *کسی دوسرے  ملک، شہر یا گاؤں میں قربانی کرنے کا حکم:*
اگر کوئی شخص اپنی قربانی کسی اور گاؤں، شہر یا ملک میں کرنا چاہے تو یہ بھی جائز ہے البتہ اس کے لیے ضروری ہے کہ جس دن اس کی قربانی کا جانور ذبح ہورہا ہو اس دن دونوں جگہوں میں قربانی کے تین دنوں میں سے کوئی دن ہو، اگر قربانی کرنے والے شخص کے ہاں قربانی کا دن نہ ہو اور جہاں قربانی کی جارہی ہے وہاں قربانی کا دن ہو تو ایسی صورت میں یہ قربانی درست نہیں ہوگی۔ 
▪اس کی مزید تفصیل یہ ہے کہ اگر ایک شخص نے کسی دوسرے شہر یا ملک میں کسی کواپنی قربانی کرنے کا وکیل بنایا کہ قربانی کے ایام میں میری طرف سے قربانی کرلیں، تو اگر وکیل کے ہاں قربانی کے ایام شروع ہوچکے ہوں لیکن موکل کے ہاں قربانی کے ایام کا آغاز نہ ہوا ہو تو ایسی صورت میں موکل کی جانب سے قربانی درست نہیں ہوگی۔ اس کی دوسری صورت یہ ہے کہ موکل کے ہاں قربانی کے ایام ختم ہوچکے ہوں اور وکیل کے ہاں باقی ہوں تو ایسی صورت میں موکل کی قربانی درست ہونے میں حضرات اہلِ علم کی دو آرا ہیں، وسعت اور گنجائش کا تقاضا یہ ہے کہ ایسی صورت میں اگر کسی وکیل نے موکل کی طرف سے قربانی کرلی تو قربانی ادا ہوجائے گی۔
حاصل یہ کہ احتیاط پر مبنی صورت یہی ہے کہ عید کے ایسے دن قربانی کا جانور ذبح کیا جائے جس میں دونوں جگہ قربانی کے تین دنوں میں سے کوئی دن ہو۔ (فتاویٰ عثمانی، فتویٰ جامعہ دار العلوم کراچی  نمبر: 1/1023)





ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے