قاری شفیق الرحمن صاحب بلند شہری
استاذ تجوید و قرأت دارالعلوم دیوبند
میرے مشفق و مربی اورانتہائ محسن استاذ گرامی قدر حضرت مولاناقاری سید محمد عثمان صاحب منصورپوری نور اللہ مرقدہٗ امیر الہند وصدرالجمعیۃ علماء ہند،قائم مقام مہتمم و استاذ حدیث دارالعلوم دیوبند،ہم سے جداہوکر جوار رحمت الٰہی میں تشریف لے گئے،استاذ گرامی ایسے نازک وقت میں ہم سے جدا ہوئے ہیں جب کہ آج ان کی دارالعلوم دیوبند اورپوری امت مسلمہ کو پہلے سے زیادہ ضرورت تھی۔حضرت قاری صاحب مرحوم انہتائی سادہ،متواضع اورمنکسرالمزاج مگر نہایت باوقار،مخلص،دیانتدار،خوش اخلاق،خوش گفتار،خوب سیرت اورخوبصورت،اعلیٰ درجہ کے منتظم اوردیگر بے شمار خصوصیات کے حامل تھے۔وہ اکابر کی پاکیزہ روایات کے امین اور اسلاف عظام اور صالحین کی یادگار تھے -خوش اخلاق اتنے تھے کہ جو ایک مرتبہ آپ سے مل لیتا وہ ہمیشہ کے لئے آپ کا ہو کر رہ جاتا تھا۔آپ اپنے چھوٹوں کے ساتھ انتہائی شفقت اورمحبت کا معاملہ فرماتے،سفر میں ہوں یا حضر میں ہمیشہ آپ کا معاملہ یکساں رہتا تھا۔سفر میں بطور خاص اپنے ہمراہیوں کا خاص خیال فرماتے تھے،جو اپنے لیے پسند کرتے وہی دوسرے ساتھیوں کے لئے پسند فرماتے۔اگر سفر طویل ہے اورآرام کی ضرورت ہے تو آدھے وقت آپ آرام فرماتے اورآدھے راستے اپنے ساتھی کو آرام کے لئے حکماً فرماتے،بلکہ کارکے سفر میں گاڑی روک کر اترجاتے اورفرماتے اب آپ جاؤ اورپیچھے والی سیٹ پر آرام کرو،اسی طرح درمیان سفر میں چائے اورخوردونوش میں بھی دوسروں کا اپنے سے پہلے خیال فرماتے۔
میں جب 1991 ء میں دارالعلوم میں مدرس ہوکر آیا تو حضرت قاری صاحب کے ساتھ متعدد اسفار میں جانا ہوا ہمیشہ اسی شفقت اورمہربانی اورخوردنوازی کا مظاہرہ آپ کی طرف سے ہوا اورعمر کے آخرتک یہی معاملہ ہرایک کے ساتھ آپ کا رہا۔ان تمام خوبیوں کے ساتھ آپ بہت کامیاب اورنہایت ذی استعداد،عمدہ اوربے مثال مدرس اورمعلم بھی تھے،عمر کے نہائی حصہ میں درس حدیث میں خاص شغف رہا،دیگر اسباق کے علاوہ دورہئ حدیث شریف میں طحاوی شریف کا درس آپ سے متعلق تھا،اس سے پہلے ہر علم و فن کی کتابیں آپ سے متعلق رہیں اورہر کتاب کا حق ادا کرتے ہوئے مکمل کامیابی کے ساتھ وقت سے پہلے آپ کی کتابیں مکمل ہوجاتی تھیں۔درس میں آپ کی تقریر ہمیشہ مسلسل اورمربوط رہتی،زبان بہت شستہ اورآسان استعمال فرماتے۔طویل تقریر سے ہمیشہ احتراز فرماتے،البتہ ضروری مباحث ہر کتاب میں موضوع درس رہتے،کسی بھی بحث کو کبھی تشنہ نہیں چھوڑتے تھے۔
1982 اور1983ء کی بات ہے،بندہ نے آپ سے مقامات حریری ،اس کے بعد البلاغۃ الواضحہ -نور الانوار اس کے بعد عقیدۃ الطحاوی پنجم عربی کے ساتھ پڑھی ہیں،آپ ہمیشہ گھنٹے سے پہلے درس گاہ کے باہر کھڑے ہوئے موجود ہوتے،گھنٹہ شروع ہوتے ہی آپ کا درس شروع ہوجاتا،آپ مکمل گھنٹہ پڑھاتے اورگھنٹے کی آواز سن کر سبق ختم فرماتے،ایک منٹ بھی ضائع نہیں کرتے تھے۔سبق میں کبھی غیر ضروری بات نہیں فرماتے،درس میں انداز تقریر ایسا دل کش اوردل نشیں ہوتا کہ گھنٹا منٹوں میں ختم ہوجاتا،آپ کی گفتگو درس میں ہوتی یا کسی نجی مجلس میں ہمیشہ اس طرح ہوتی گویا کہ آپ کے دہن مبارک سے پھول جھڑرہے ہوں
جلسوں میں آپ کی تقریر
یہی حال آپ کی جلسوں کی تقریر کا بھی ہوتا،تمام تقریرمسکراتے ہوئے مکمل فرماتے عمومی تقاریر قرآن پاک کی آیات اوراحادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر مشتمل ہوتی تھیں،اِدھر اُدھر کی باتیں اورقصے کہانیوں سے ہمیشہ آپ گریز فرماتے،اگر خواص کا مجمع ہے تو انہیں کے مناسب خطاب فرماتے،قرآن پاک کی کسی آیت یا کسی حدیث سے گفتگوکا آغاز فرماتے اورپھر آیت کہاں مجمل ہے کہاں مفصل ہے بیان فرماتے۔نیند فرماتے کہ دیکھئے!قرآن پاک اوراس کے مضامین کتنے آسان ہیں، انہیں کے ذریعہ اہل علم کو تقاریر کرنی چاہیے ،یہ زیادہ مؤثر ہوتی ہیں،اسی طرح احادیث کے بھی مختلف گوشوں پر بحث فرماتے۔بسااوقات کسی ایک حدیث کو اپنی تقریر کا محوربناتے اوراس کی مختلف انداز سے تشریح کرتے،اس کے ضمن میں اہل علم و فن کے اقوال و آراء نقل فرماتے،غرض ہر طرح سے آپ کی عوامی اورخصوصی تقاریر قرآن وحدیث اوران سے متعلقہ مضامین پر مشتمل ہوتی تھیں ۔
تقریر میں انداز گفتگوہمیشہ انتہائی سنجیدہ اورپر وقار ہوتا،عام مقررین کی طرح جوش وخروش آپ کی تقریر میں عموماً نہیں ہوتاتھا،البتہ اگر ایمانیات و عقائد کا مسئلہ ہوتا تو پھر آپ کی آواز اورلہجہ کا مدوجزر قابل دید و شنید ہوتا،آپ اس وقت ایک مردمجاہد اورمیدان کا رزار کے سپاہی بلکہ امیر المجاہدین کا کردار اداکرتے نظرآتے تھے۔تاہم اس جوش و خروش میں بھی کبھی گفتگوکے اعلیٰ معیار سے نیچے نہیں آتے تھے۔
قرأت کانفرنس کفلیتہ گجرات میں آپ کا شاندار خطاب جب کسی خاص موضوع پر یا خاص مجمع میں آپ کو مستقل کسی عنوان کے تحت تقریر کرنی ہوتی تو اس کی پہلے سے خوب تیاری فرماتے کتابوں سے مراجعت فرماتے۔حوالے لکھتے نوٹس تیارفرماتے اگر ضرورت ہوتی موضوع سے متعلق دلچسپی رکھنے والے حضرات سے مشورہ فرماتے اورپھر مکمل تیاری کے ساتھ خطاب فرماتے چند سال پہلے کی بات ہے۔جامعۃ القراء ات کفلیتہ گجرات میں اس عظیم فن ِ قرأت کی خدمات کے موضوع پر ایک عظیم الشان کانفرنس منعقد ہوئی۔قاری محمد اسماعیل صاحب بسملہ اس کانفرنس کے داعی تھے۔علماء اورقراء کی بڑی تعداد موجود تھی،خصوصا علم قرأت سے تعلق رکھنے والی شخصیات کی اتنی بڑی تعداد کہیں جمع نہیں ہوتی جو ا س کانفرنس میں موجود تھی ۔حضرت الاستاذ مولاناقاری محمد عثمان صاحب علیہ الرحمہ بھی مدعو تھے اورمغرب کے بعد والی نشست میں حضرت کو خطاب کرنا تھا،چنانچہ حضرت قاری صاحب تشریف لائے اورتقریباً ایک گھنٹہ آپ کا اس فن شریف پر نہایت عمدہ اورزریں خطاب ہوا۔حاضرین و سامعین عش عش کرنے لگے۔حیرت زدہ تھے کہ آپ کا یہ شغف نہیں ہے، پھر بھی اتنی عمدہ اورلاجواب تقریر فرمائی۔میں خود بھی اس تقریر میں موجود تھا اس تقریر میں آپ نے علم تجوید،علم قرأت اس کی تعریف غرض و غایت قرأت متواترہ اورشاذہ اوران سب کا حکم اسی طرح قراء اتِ سبعہ اورعشرہ کا فرق اوران کے نزول کی کیفیت اوراحوال اورپھر اس فن میں اپنی سند اوراس کو درساً درساً پڑھنا وغیرہ وغیرہ۔ان سب موضوعات پر سیر حاصل بحث فرمائ ۔جو علماء اس فن سے ناواقف تھے، یا اس کی طرف سے بے اعتنائ برتنے والے تھے ان کی آنکھیں کھول دیں۔غرض یہ ہے کہ ہر تقریر اورخطاب ہمیشہ مکمل تیاری کے ساتھ ہوتا تھا۔اللہ تعالیٰ حضرت کو اپنی شان عالی کے مطابق جزائے خیر عطافرمائے۔آمینفن تجوید و قرأت سے خاص شغف اوراس فن میں آپ کے استاذ گرامی جیسا کہ اوپر کی سطور سے معلوم ہوچکا ہے کہ فن قرأت سے بھی آپ کو خصوصی دلچسپی تھی بلکہ اس فن میں بھی آپ کو مہارت تامہ حاصل تھی۔اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ نے اس فن کو من اولہ الیٰ آخرہ باقاعدہ درسیات کے ساتھ کئی سالوں تک اپنے محبوب استاذ گرامی حضرت مولاناقاری المقری حفظ الرحمن صاحب پرتابگڑھی علیہ الرحمہ سابق شیخ القراء دارالعلوم دیوبند سے پڑھاتا۔دارالعلوم دیوبند میں اس زمانے کے رجسٹروں میں آپ کی حاضری درج ہے۔حضرت قاری عثمان صاحب کو اپنے استاذ گرامی حضرت قاری حفظ الرحمن صاحب مرحوم سے انتہائی تعلق تھا،ادھر استاذ صاحب کو بھی اپنے شاگرد سے گہرا تعلق اوران پر بڑا اعتماد تھا۔حضرت قاری حفظ الرحمن صاحب نے جن شاگردوں کو خاص اس فن کے لیے تیار کیاتھا ان میں حضرت قاری عثمان صاحب کا نام بھی حضرت قاری صاحب شمار کراتے تھے- استاذ گرامی حضرت قاری المقری حفظ الرحمن صاحب نوراللہ مرقدہٗ استاذ الاساتذہ حضرت قاری حفظ الرحمن صاحب علیہ الرحمہ فن قراء ات کے ساتھ مختلف عربی لہجوں کے بھی ماہر تھے اورآواز بھی اللہ تعالیٰ نے نہایت صاف و شیریں خوبصورت،بلندوبالاعطافرمائی تھی،اس عظیم فن کے لئے جن چیزوں کی ضرورت تھی وہ سب اللہ تعالیٰ نے وافر درجہ میں قاری صاحب کو عطافرمائی تھیں؛ چنانچہ آپ کی ادائیگی حروف اورلب و لہجہ غضب کا تھا،اسی طرح پورا فن آپ کو ازبر تھا ،زبانی یاد تھا،کبھی کتاب دیکھنے کی آپ کو ضرورت پیش نہیں آتی تھی،خود فرماتے تھے کہ میرے پاس جو بھی ہے وہ سب استاذ محترم کا یاد کرایاہواہے۔قاری حفظ الرحمن صاحب نے مکمل فن قراءت ملک القراءحضرت مولاناعلامہ المقری عبدالرحمن صاحب مکی علیہ الرحمہ سے پڑھاتھا۔تقریباً پانچ سال استاذمحتر م کی خدمت میں رہ کر آپ نے پڑھااورخدمت بھی کی۔ خدمت کے التزام کا یہ عالم تھا کہ پورے سال میں صرف ایک مرتبہ چند دنوں کی چھٹی ملتی تھی ،اوراس کی صورت یہ تھی کہ حضرت قاری عبدالرحمن صاحب سال میں ایک مرتبہ سرہند شریف تشریف لے جاتے تھے۔قاری حفظ الرحمن صاحب کی دیوٹی یہ تھی کہ استاذ صاحب کو لکھنؤ سے ٹرین پر سوار کراتے اورواپسی میں پھر لکھنؤ اسٹیشن پر موجود رہتے۔غالبا ایک ہفتہ اس سفر میں لگ جاتا بس انہیں ایام کی چھٹی پورے سال میں ملتی،اس التزام کے ساتھ قاری حفظ الرحمن صاحب نے اپنے استاذ صاحب سے پڑھا تھا،اور اسی التزام اور پاپندی کے ساتھ حضرت قاری عثمان صاحب قدس سرہ نے بھی اپنے استاذ محترم قاری حفظ الرحمن صاحب سے پڑھا تھا -اسی لئے درسی کتب میں جب بھی قرأت سے متعلق کوئی مسئلہ آتاتوقاری عثمان صاحب اس کو انتہائی بشاشت اور کمال دل چسپی کے ساتھ جھوم جھوم کر تفصیل سے بیان فرماتے تھے۔ ختم نبوت کے سلسلہ میں آپ کے ساتھ اسفار تحفظ ختم نبوت کے موضوع پر آپ نے دہلی اوراس کے اطراف میں بہت سے پروگرام منعقد کیے- اوردہلی ہی کیا جہاں سے بھی اس فتنہ کے بارے میں کوئی اطلاع ملتی کہ وہاں قادیانیوں نے سراٹھایاہے اورلوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں،تو بس آپ بے چین اورفکر مند ہوجاتے۔اس کے لیے پروگرام مرتب کرتے ،مشورہ کرتے،وہاں کے علماء کو جوڑتے ان کے سامنے مسئلہ کی اہمیت و نزاکت کو بیان کرتے۔وہاں جلسے کرتے،کتابچے مرتب کرکے اردو ہندی وغیرہ میں تقسیم کرتے اورایک ایسا ماحول تیار کرتے کہ قادیانیوں کے وہاں سے پیراکھڑجاتے اوروہ اپنے پروگرام میں ناکام ہوجاتے۔ایسا بہت سی جگہ ہوا اورقادیانی اپنے دجل و فریب میں ناکام ہوئے۔اس سلسلہ میں بندہ کو بھی بہت سی مرتبہ حضرت قاری صاحب کے ہمراہ جاناہوا۔اکثر جمعرات کی شام کو آپ ساتھ لے جاتے جمعہ کی نماز میں مختلف مقامات پر پروگرام ہوتے اورشام کی ٹرن سے دیوبند واپس آتے،کبھی کیئ کئی روز کے اسفار بھی ہوتے،بندہ جن مقامات پر حضرت کے ہمراہ سفر میں رہا ان میں سے چند اس وقت ذہن میں ہیں۔مثلاً علی گڈھ،خورجہ، بلند شہر،دہلی اوراطراف دہلی (متعددمرتبہ)جے پور،نول گڑھ،لوسل اورراجستھان کے بہت سے مقامات جو اس وقت ذہن میں نہیں ہیں۔ قادنیوں کے مرکز سادھن کا سفر ایک مرتبہ حضرت قاری صاحب کے حکم سے آگرہ اورضلع متھراکے وہ مقامات جہاں قادیانیوں کے مراکز اوراڈے تھے ان جگہوں کے سفر ہوئے اورتقریباًدس روز میں ہم لوگ سفر سے واپس دیوبند لوٹے اس سفر میں محترم جناب مولاناشاہ عالم صاحب استاذ تحفظ ختم نبوت بھی شامل تھے،اس زمانہ میں موبائل وغیرہ کی سہولت دستیاب نہیں تھی،اس لئے حضرت قاری صاحب دیوبند میں رہ کر اس سفر میں ہم لوگوں کی کامیابی کے لئے بہت انہماک سے دعاء فرماتےرہے- اسی سفر میں گاؤں سادھن ضلع متھراجہاں قادیانیوں کا مرکز تھا وہاں بھی جاناہوااوران کے مرکز میں بھی بیٹھ کر قادیانی مبلغ اوراس کے چپلوں سے نرم وگرم گفتگوبھی ہوئی جو گھنٹوں چلی اوراس میں وہ لاجواب ہوئے،وہاں ایک صاحب جو مبلغ بنے ہوئے تھے وہ خود کو قاسمی کہتے تھے ان کے دجل و فریب کا بھی پردہ چاک ہوا،وہ جھوٹ بول کر وہاں لوگوں کو گمراہ کررہے تھے۔بندہ کو بھی مدرسی کے ابتدائی دورمیں (یہ زمانہ 1995ء اوراس کے قریب کا زمانہ ہے)مسئلہ ختم نبوت اوراس کے متعلق جملہ موضوعات سے کافی دلچسپی تھی اوریہ سب حضرت الاستاذ قاری صاحب کی وجہ سے تھا۔اسی لئے اگر کہیں سے کوئی پروگرام کی اطلاع آتی تو حضرت والادیگر حضرات کے ساتھ بندہ کو بھی شامل فرمادیتے تھے۔دارالعلوم دیوبند میں مجلس تحفظ ختم نبوت کا قیام 1982ء میں جب دارالعلوم دیوبند میں عالمی اجلاس تحفظ ختم نبوت کا انعقاد عمل میں آیاتو حضرت قاری صاحب ہی اس کے امیر اورمنتظم اعلیٰ تھے اسی موقع پر کل ہند مجلس تحفظ کا قیام عمل میں آیا اورآپ اس کے ناظم اعلیٰ منتخب ہوئے اورعمر کے آخر تک اس پر فائز رہے-آپ کی نگرانی میں اس ادارہ نے ملک اوربیرون ملک اس خبیث فتنہ کی سرکوبی کے لئے ایسی عظیم الشان خدمات انجام دیں جو دارالعلوم دیوبند کی تاریخ کا ایک زریں اورحسین باب ہے،یہ تمام تر خدمات آپ کے ایمانی جذبے اورانتھک محنت اورتحفظ ختم نبوت کے سلسلہ میں انتہائی احساسات اورجذبات کا نتیجہ ہیں۔آپ نے مسئلہ ختم نبوت اورآبروئے تاج ختم نبوت کو اپنی زندگی بھر کا اروڑھنا بجھونا بنالیا تھا،آپ اس کے لئے انتھک محنتیں کرتے اوراس کو اپنی ابدی سعادت کا ذریعہ سمجھتے تھے،اللہ تعالیٰ ان خدمات کے بدلہ میں آپ کو اپنے قرب کا خاص مقام عطافرمائے۔آمین۔حضرت قاری صاحب کا وطن منصور پور ضلع مظفر نگر ہے۔12اگست 1944ءکو آپ سادات کے ایک معزز گھرانے میں پیداہوئے،والد گرامی کا نام نامی اسم گرامی نواب سید محمد عیسیٰ ہے جو ایک رئیس اورزمیندار آدمی تھے۔انتہائی نیک،متقی اورنہایت پابند شریعت تھے،اولاد کو علم و عمل سے آراستہ کرنے کے لئے منصورپورچھوڑکر دیوبند میں رہائش اختیار کی۔1965ء میں دیوبند ہی میں وفات ہوئی مزار قاسمی میں مدفون ہیں،آپ نے ابتدائی تعلیم وطن منصورپور میں حاصل کی،حفظ قرآن پاک والد محترم سے کیا پھر درجہ فارسی سے دورہئ حدیث شریف تک دارالعلوم دیوبند میں تعلیم حاصل کی،ہمیشہ امتیازی نمبرات سے کامیاب ہوتے رہے 1965ء میں دورہئ حدیث شریف میں اول پوزیشن حاصل کی۔1966ء میں دیگر فنون کی تکمیل کی،قرأت استاذ القراء مولاناالمقری حفظ الرحمن صاحب پرتابگڑھی سے اورعربی اد میں وحید دھر یکتائے زمانہ حضرت مولاناوحید الزماں کیرانوی سے کمال حاصل کیا۔حضرت مولاناسید اسعد صاحب مدنی علیہ الرحمہ سے بیعت و سلوک میں اجازت حاصل کی،تعلیم سے فراغت کے بعد پانچ سال جامعہ قاسمیہ گیابہار اورگیارہ سال جامعہ اسلامیہ جامع مسجد امروہہ میں تدریسی خدمات انجام دیں،مختلف علوم وفنون کی کتابیں زیردرس رہیں۔1979ء میں ملک و ملت بچاؤ تحریک کے پہلے دورمیں ایک جتھے کی قیادت کرتے ہوئے گرفتاری دی اوردس دن دہلی کی تہاڑ جیل میں رہے۔1982ء میں دارالعلوم دیوبند تشریف لائے۔(بحوالہ نقوش حیات مفتی خلیل الرحمن برنی ص:204و205) 1982ء سے تادم آخر دارالعلوم دیوبند سے وابستہ رہے اس درمیان انتہائی گراں قدر خدمات انجام دیں۔تدریسی اورانتظامی ذمہ داریاں نبھائیں اورخوب نبھائیں۔آپ ایک زمانہ تک دارالاقامہ کے بھی ناظم اعلیٰ رہے نیابت اہتمام کے امور کو بھی بحسن و خوبی انجام دیا اورآخرمیں معاون مہتمم بنائے گئے جس کی ذمہ داریوں کو باوجود بیماریوں اورعلالت کے نہایت مستعدی اورپابندی اوقات کے ساتھ بحسن و خوبی انجام دیا،رمضان کے آخرمیں بخاروغیر ہ کی بیماریوں میں مبتلاہوئے گوڑگاؤں کے میدانتا ہسپتال میں چند دن رہ کر 8/شوال 1442ھ بروز جمعہ مطابق 21/مئی 2021ء دوپہر سوابجے کلمہئ طیبہ پڑھتے ہوئے اپنے مالک حقیقی کے حضور پہنچ گئے۔اناللہ وانا الیہ راجعون۔اللہ تعالیٰ کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے اوراپنے قرب کا خاص مقام عطافرمائے آمین۔نماز جنازہ گیارہ بجے شب احاطہ ئ مولسری میں ادا کی گئی۔حضرت اقدس مولاناسید ارشدمدنی صاحب مدظلہ العالی صدر المدرسین دارالعلوم دیوبند و صدرجمعیۃ علماء ہند نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی عوام و خواص کا بڑا مجمع نماز جنازہ میں شریک ہوا۔مزار قاسمی میں حضرت مولاناسید اسعد صاحب مدنی علیہ الرحمہ کے قریب آرام فرماہیں ۔ان للہ مااعطیٰ ولہ مااخذ وکل شئی عندہ باجل مسمی۔مدتوں رویا کریں گے جام و پیمانہ مجھےجان کر من جملہ خاصان مےخانہ مجھے
جب کسی خاص موضوع پر یا خاص مجمع میں آپ کو مستقل کسی عنوان کے تحت تقریر کرنی ہوتی تو اس کی پہلے سے خوب تیاری فرماتے کتابوں سے مراجعت فرماتے۔حوالے لکھتے نوٹس تیارفرماتے اگر ضرورت ہوتی موضوع سے متعلق دلچسپی رکھنے والے حضرات سے مشورہ فرماتے اورپھر مکمل تیاری کے ساتھ خطاب فرماتے چند سال پہلے کی بات ہے۔جامعۃ القراء ات کفلیتہ گجرات میں اس عظیم فن ِ قرأت کی خدمات کے موضوع پر ایک عظیم الشان کانفرنس منعقد ہوئی۔قاری محمد اسماعیل صاحب بسملہ اس کانفرنس کے داعی تھے۔علماء اورقراء کی بڑی تعداد موجود تھی،خصوصا علم قرأت سے تعلق رکھنے والی شخصیات کی اتنی بڑی تعداد کہیں جمع نہیں ہوتی جو ا س کانفرنس میں موجود تھی ۔حضرت الاستاذ مولاناقاری محمد عثمان صاحب علیہ الرحمہ بھی مدعو تھے اورمغرب کے بعد والی نشست میں حضرت کو خطاب کرنا تھا،چنانچہ حضرت قاری صاحب تشریف لائے اورتقریباً ایک گھنٹہ آپ کا اس فن شریف پر نہایت عمدہ اورزریں خطاب ہوا۔حاضرین و سامعین عش عش کرنے لگے۔حیرت زدہ تھے کہ آپ کا یہ شغف نہیں ہے، پھر بھی اتنی عمدہ اورلاجواب تقریر فرمائی۔میں خود بھی اس تقریر میں موجود تھا اس تقریر میں آپ نے علم تجوید،علم قرأت اس کی تعریف غرض و غایت قرأت متواترہ اورشاذہ اوران سب کا حکم اسی طرح قراء اتِ سبعہ اورعشرہ کا فرق اوران کے نزول کی کیفیت اوراحوال اورپھر اس فن میں اپنی سند اوراس کو درساً درساً پڑھنا وغیرہ وغیرہ۔ان سب موضوعات پر سیر حاصل بحث فرمائ ۔جو علماء اس فن سے ناواقف تھے، یا اس کی طرف سے بے اعتنائ برتنے والے تھے ان کی آنکھیں کھول دیں۔غرض یہ ہے کہ ہر تقریر اورخطاب ہمیشہ مکمل تیاری کے ساتھ ہوتا تھا۔اللہ تعالیٰ حضرت کو اپنی شان عالی کے مطابق جزائے خیر عطافرمائے۔آمین
فن تجوید و قرأت سے خاص شغف اوراس فن میں آپ کے استاذ گرامی
جیسا کہ اوپر کی سطور سے معلوم ہوچکا ہے کہ فن قرأت سے بھی آپ کو خصوصی دلچسپی تھی بلکہ اس فن میں بھی آپ کو مہارت تامہ حاصل تھی۔اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ نے اس فن کو من اولہ الیٰ آخرہ باقاعدہ درسیات کے ساتھ کئی سالوں تک اپنے محبوب استاذ گرامی حضرت مولاناقاری المقری حفظ الرحمن صاحب پرتابگڑھی علیہ الرحمہ سابق شیخ القراء دارالعلوم دیوبند سے پڑھاتا۔دارالعلوم دیوبند میں اس زمانے کے رجسٹروں میں آپ کی حاضری درج ہے۔حضرت قاری عثمان صاحب کو اپنے استاذ گرامی حضرت قاری حفظ الرحمن صاحب مرحوم سے انتہائی تعلق تھا،ادھر استاذ صاحب کو بھی اپنے شاگرد سے گہرا تعلق اوران پر بڑا اعتماد تھا۔حضرت قاری حفظ الرحمن صاحب نے جن شاگردوں کو خاص اس فن کے لیے تیار کیاتھا ان میں حضرت قاری عثمان صاحب کا نام بھی حضرت قاری صاحب شمار کراتے تھے-
استاذ گرامی حضرت قاری المقری حفظ الرحمن صاحب نوراللہ مرقدہٗ
استاذ الاساتذہ حضرت
قاری حفظ الرحمن صاحب علیہ الرحمہ فن قراء ات کے ساتھ مختلف عربی لہجوں کے بھی ماہر تھے اورآواز بھی اللہ تعالیٰ نے نہایت صاف و شیریں خوبصورت،بلندوبالاعطافرمائی تھی،اس عظیم فن کے لئے جن چیزوں کی ضرورت تھی وہ سب اللہ تعالیٰ نے وافر درجہ میں قاری صاحب کو عطافرمائی تھیں؛ چنانچہ آپ کی ادائیگی حروف اورلب و لہجہ غضب کا تھا،اسی طرح پورا فن آپ کو ازبر تھا ،زبانی یاد تھا،کبھی کتاب دیکھنے کی آپ کو ضرورت پیش نہیں آتی تھی،خود فرماتے تھے کہ میرے پاس جو بھی ہے وہ سب استاذ محترم کا یاد کرایاہواہے۔قاری حفظ الرحمن صاحب نے مکمل فن قراءت ملک القراءحضرت مولاناعلامہ المقری عبدالرحمن صاحب مکی علیہ الرحمہ سے پڑھاتھا۔تقریباً پانچ سال استاذمحتر م کی خدمت میں رہ کر آپ نے پڑھااورخدمت بھی کی۔ خدمت کے التزام کا یہ عالم تھا کہ پورے سال میں صرف ایک مرتبہ چند دنوں کی چھٹی ملتی تھی ،اوراس کی صورت یہ تھی کہ حضرت قاری عبدالرحمن صاحب سال میں ایک مرتبہ سرہند شریف تشریف لے جاتے تھے۔قاری حفظ الرحمن صاحب کی دیوٹی یہ تھی کہ استاذ صاحب کو لکھنؤ سے ٹرین پر سوار کراتے اورواپسی میں پھر لکھنؤ اسٹیشن پر موجود رہتے۔غالبا ایک ہفتہ اس سفر میں لگ جاتا بس انہیں ایام کی چھٹی پورے سال میں ملتی،اس التزام کے ساتھ قاری حفظ الرحمن صاحب نے اپنے استاذ صاحب سے پڑھا تھا،اور اسی التزام اور پاپندی کے ساتھ حضرت قاری عثمان صاحب قدس سرہ نے بھی اپنے استاذ محترم قاری حفظ الرحمن صاحب سے پڑھا تھا -اسی لئے درسی کتب میں جب بھی قرأت سے متعلق کوئی مسئلہ آتاتوقاری عثمان صاحب اس کو انتہائی بشاشت اور کمال دل چسپی کے ساتھ جھوم جھوم کر تفصیل سے بیان فرماتے تھے۔
ختم نبوت کے سلسلہ میں آپ کے ساتھ اسفار
تحفظ ختم نبوت کے موضوع پر آپ نے دہلی اوراس کے اطراف میں بہت سے پروگرام منعقد کیے- اوردہلی ہی کیا جہاں سے بھی اس فتنہ کے بارے میں کوئی اطلاع ملتی کہ وہاں قادیانیوں نے سراٹھایاہے اورلوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں،تو بس آپ بے چین اورفکر مند ہوجاتے۔اس کے لیے پروگرام مرتب کرتے ،مشورہ کرتے،وہاں کے علماء کو جوڑتے ان کے سامنے مسئلہ کی اہمیت و نزاکت کو بیان کرتے۔وہاں جلسے کرتے،کتابچے مرتب کرکے اردو ہندی وغیرہ میں تقسیم کرتے اورایک ایسا ماحول تیار کرتے کہ قادیانیوں کے وہاں سے پیراکھڑجاتے اوروہ اپنے پروگرام میں ناکام ہوجاتے۔ایسا بہت سی جگہ ہوا اورقادیانی اپنے دجل و فریب میں ناکام ہوئے۔اس سلسلہ میں بندہ کو بھی بہت سی مرتبہ حضرت قاری صاحب کے ہمراہ جاناہوا۔اکثر جمعرات کی شام کو آپ ساتھ لے جاتے جمعہ کی نماز میں مختلف مقامات پر پروگرام ہوتے اورشام کی ٹرن سے دیوبند واپس آتے،کبھی کیئ کئی روز کے اسفار بھی ہوتے،بندہ جن مقامات پر حضرت کے ہمراہ سفر میں رہا ان میں سے چند اس وقت ذہن میں ہیں۔مثلاً علی گڈھ،خورجہ، بلند شہر،دہلی اوراطراف دہلی (متعددمرتبہ)جے پور،نول گڑھ،لوسل اورراجستھان کے بہت سے مقامات جو اس وقت ذہن میں نہیں ہیں۔
قادنیوں کے مرکز سادھن کا سفر
ایک مرتبہ حضرت قاری صاحب کے حکم سے آگرہ اورضلع متھراکے وہ مقامات جہاں قادیانیوں کے مراکز اوراڈے تھے ان جگہوں کے سفر ہوئے اورتقریباًدس روز میں ہم لوگ سفر سے واپس دیوبند لوٹے اس سفر میں محترم جناب مولاناشاہ عالم صاحب استاذ تحفظ ختم نبوت بھی شامل تھے،اس زمانہ میں موبائل وغیرہ کی سہولت دستیاب نہیں تھی،اس لئے حضرت قاری صاحب دیوبند میں رہ کر اس سفر میں ہم لوگوں کی کامیابی کے لئے بہت انہماک سے دعاء فرماتےرہے-
اسی سفر میں گاؤں سادھن ضلع متھراجہاں قادیانیوں کا مرکز تھا وہاں بھی جاناہوااوران کے مرکز میں بھی بیٹھ کر قادیانی مبلغ اوراس کے چپلوں سے نرم وگرم گفتگوبھی ہوئی جو گھنٹوں چلی اوراس میں وہ لاجواب ہوئے،وہاں ایک صاحب جو مبلغ بنے ہوئے تھے وہ خود کو قاسمی کہتے تھے ان کے دجل و فریب کا بھی پردہ چاک ہوا،وہ جھوٹ بول کر وہاں لوگوں کو گمراہ کررہے تھے۔بندہ کو بھی مدرسی کے ابتدائی دورمیں (یہ زمانہ 1995ء اوراس کے قریب کا زمانہ ہے)مسئلہ ختم نبوت اوراس کے متعلق جملہ موضوعات سے کافی دلچسپی تھی اوریہ سب حضرت الاستاذ قاری صاحب کی وجہ سے تھا۔اسی لئے اگر کہیں سے کوئی پروگرام کی اطلاع آتی تو حضرت والادیگر حضرات کے ساتھ بندہ کو بھی شامل فرمادیتے تھے۔
دارالعلوم دیوبند میں مجلس تحفظ ختم نبوت کا قیام
1982ء میں جب دارالعلوم دیوبند میں عالمی اجلاس تحفظ ختم نبوت کا انعقاد عمل میں آیاتو حضرت قاری صاحب ہی اس کے امیر اورمنتظم اعلیٰ تھے اسی موقع پر کل ہند مجلس تحفظ کا قیام عمل میں آیا اورآپ اس کے ناظم اعلیٰ منتخب ہوئے اورعمر کے آخر تک اس پر فائز رہے-آپ کی نگرانی میں اس ادارہ نے ملک اوربیرون ملک اس خبیث فتنہ کی سرکوبی کے لئے ایسی عظیم الشان خدمات انجام دیں جو دارالعلوم دیوبند کی تاریخ کا ایک زریں اورحسین باب ہے،یہ تمام تر خدمات آپ کے ایمانی جذبے اورانتھک محنت اورتحفظ ختم نبوت کے سلسلہ میں انتہائی احساسات اورجذبات کا نتیجہ ہیں۔آپ نے مسئلہ ختم نبوت اورآبروئے تاج ختم نبوت کو اپنی زندگی بھر کا اروڑھنا بجھونا بنالیا تھا،آپ اس کے لئے انتھک محنتیں کرتے اوراس کو اپنی ابدی سعادت کا ذریعہ سمجھتے تھے،اللہ تعالیٰ ان خدمات کے بدلہ میں آپ کو اپنے قرب کا خاص مقام عطافرمائے۔آمین۔
حضرت قاری صاحب کا وطن منصور پور ضلع مظفر نگر ہے۔12اگست 1944ءکو آپ سادات کے ایک معزز گھرانے میں پیداہوئے،والد گرامی کا نام نامی اسم گرامی نواب سید محمد عیسیٰ ہے جو ایک رئیس اورزمیندار آدمی تھے۔انتہائی نیک،متقی اورنہایت پابند شریعت تھے،اولاد کو علم و عمل سے آراستہ کرنے کے لئے منصورپورچھوڑکر دیوبند میں رہائش اختیار کی۔1965ء میں دیوبند ہی میں وفات ہوئی مزار قاسمی میں مدفون ہیں،آپ نے ابتدائی تعلیم وطن منصورپور میں حاصل کی،حفظ قرآن پاک والد محترم سے کیا پھر درجہ فارسی سے دورہئ حدیث شریف تک دارالعلوم دیوبند میں تعلیم حاصل کی،ہمیشہ امتیازی نمبرات سے کامیاب ہوتے رہے 1965ء میں دورہئ حدیث شریف میں اول پوزیشن حاصل کی۔1966ء میں دیگر فنون کی تکمیل کی،قرأت استاذ القراء مولاناالمقری حفظ الرحمن صاحب پرتابگڑھی سے اورعربی اد میں وحید دھر یکتائے زمانہ حضرت مولاناوحید الزماں کیرانوی سے کمال حاصل کیا۔حضرت مولاناسید اسعد صاحب مدنی علیہ الرحمہ سے بیعت و سلوک میں اجازت حاصل کی،تعلیم سے فراغت کے بعد پانچ سال جامعہ قاسمیہ گیابہار اورگیارہ سال جامعہ اسلامیہ جامع مسجد امروہہ میں تدریسی خدمات انجام دیں،مختلف علوم وفنون کی کتابیں زیردرس رہیں۔1979ء میں ملک و ملت بچاؤ تحریک کے پہلے دورمیں ایک جتھے کی قیادت کرتے ہوئے گرفتاری دی اوردس دن دہلی کی تہاڑ جیل میں رہے۔1982ء میں دارالعلوم دیوبند تشریف لائے۔(بحوالہ نقوش حیات مفتی خلیل الرحمن برنی ص:204و205)
1982ء سے تادم آخر دارالعلوم دیوبند سے وابستہ رہے اس درمیان انتہائی گراں قدر خدمات انجام دیں۔تدریسی اورانتظامی ذمہ داریاں نبھائیں اورخوب نبھائیں۔آپ ایک زمانہ تک دارالاقامہ کے بھی ناظم اعلیٰ رہے نیابت اہتمام کے امور کو بھی بحسن و خوبی انجام دیا اورآخرمیں معاون مہتمم بنائے گئے جس کی ذمہ داریوں کو باوجود بیماریوں اورعلالت کے نہایت مستعدی اورپابندی اوقات کے ساتھ بحسن و خوبی انجام دیا،رمضان کے آخرمیں بخاروغیر ہ کی بیماریوں میں مبتلاہوئے گوڑگاؤں کے میدانتا ہسپتال میں چند دن رہ کر 8/شوال 1442ھ بروز جمعہ مطابق 21/مئی 2021ء دوپہر سوابجے کلمہئ طیبہ پڑھتے ہوئے اپنے مالک حقیقی کے حضور پہنچ گئے۔اناللہ وانا الیہ راجعون۔اللہ تعالیٰ کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے اوراپنے قرب کا خاص مقام عطافرمائے آمین۔نماز جنازہ گیارہ بجے شب احاطہ ئ مولسری میں ادا کی گئی۔حضرت اقدس مولاناسید ارشدمدنی صاحب مدظلہ العالی صدر المدرسین دارالعلوم دیوبند و صدرجمعیۃ علماء ہند نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی عوام و خواص کا بڑا مجمع نماز جنازہ میں شریک ہوا۔مزار قاسمی میں حضرت مولاناسید اسعد صاحب مدنی علیہ الرحمہ کے قریب آرام فرماہیں ۔ان للہ مااعطیٰ ولہ مااخذ وکل شئی عندہ باجل مسمی۔
جان کر من جملہ خاصان مےخانہ مجھے
مدتوں رویا کریں گے جام و پیمانہ مجھے
0 تبصرے
Please do not enter any spam link in the comment box
براہ کرم کمنٹ باکس میں کوئی سپیم لنک نہ ڈالیں