مایہ ناز استاذ اورادیب کامل حضرت مولانانورعالم خلیل الامینی استاذدارالعلوم دیوبند ‏Prominent teacher and perfect writer Hazrat Maulana Noor Alam Khalil Al-Amini Professor of ‎Arabic ‎Language, ‏Deoband‏


مفتی خلیل الرحمن قاسمی برنی صدر ادارہ علمی مرکز و
امام و خطیب مسجد الفاروق ولیمس ٹاؤن بنگلور9611021347
    
آج مؤرخہ 20/رمضان المبارک 1442ھ- کی سحرمیں جیسے ہی فون کھولاتو اس اندوہناک خبر سے سامناہوا کہ ایشیاء کی عظیم دینی درسگاہ مادرعلمی دارالعلوم دیوبند کے مایہ ناز استاذ اورادیب کامل حضرت مولانانورعالم صاحب خلیل الامینی رحلت فرماگئے ہیں۔بڑاصدمہ ہوااوربے اختیار کلمات ِ استرجاع زبان پر جاری ہوگئے۔
رب کریم حضرت والا رحمہ اللہ کی مغفرت فرمائے۔جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطافرمائے اورجملہ پسماندگان و لواحقین کو صبر جمیل عطافرمائے۔
حقیقت یہ ہے کہ اس موقع پر ہم سب وابستگان دیوبند ہی تعزیت کے مستحق ہیں۔دل نہایت رنجیدہ اورآنکھیں اشکبار ہیں۔ایسے لوگ صدیوں میں پیداہوتے ہیں،آپ کا اس طرح چلے جانادنیائے علم و ادب اورمادرعلمی دارالعلوم دیوبند کا ناقابل تلافی نقصان ہے۔
یہ سچ ہے کہ دنیائے علم و فن اوردین و دانش کی راہوں میں جن قابل قدر شخصیات نے اپنے خون ِ جگر سے چمنستان علم کی آب یاری و آب پاشی کی ہے اوررہتی دنیا تک کے لئے اپنی زندگی کے قیمتی وسنہری نقوش صفحاتِ دہر پر رقم کیے ہیں ان میں ایک واضح نام حضرت الاستاذ رحمہ اللہ کا بھی رہے گا۔حقاً۔آپ ایک بابصیرت صاحب قلم اورصاحب تراجم اورمیدان علم و ادب اور فکر و فن کے کامل شہسوار تھے۔
آپ دارالعلوم دیوبند کے ایک مضبوط ترجمان،فکر دیوبند کے معتمد شارح اوربے مثال استاذ تھے۔مادرعلمی میں آپ کی استاذانہ شان و صلاحیت مسلم تھی اورہر ایک آپ کی علمی و ادبی صلاحیتوں کا معترف تھا۔آپ میرے استاذ الاساتذہ تھے۔مجھے آپ کے سامنے زانوئے تلمذ طے کرنا کا موقع نہ مل سکامگر میرے کئی استاذ آپ کے شاگرد تھے، اس لیے میری نگاہ میں آپ کی عقیدت و احترام کی جلوہ سامانیوں نے ہمیشہ ٹھکانہ بنائے رکھا۔آپ بہت ہی باوقار،صاف کردار،روشن زندگی اورستھرے ذوق کے حامل انسان تھے۔آپ کی پوری زندگی نستعلیقیت اوراعلیٰ ذوق کی آئینہ دار تھی۔
آپ کا درس انتہائی نرالا ،البیلا،حسین و دلکش ہوتا تھا،عربی زبان و ادب کی دقیق اورپیچیدہ گتھیاں آپ کے یہاں بہت آسانی سے سلجھ جاتی تھیں۔آپ نے محنت سے پڑھاتھا اس لئے پڑھانے میں بھی بہت محنتی تھے۔آپ کی تمام تر دلچسپیوں کا سامان علم و حکمت،دانش و آگہی اورادب و صحافت کی دنیا تھی۔آپ کی کتاب ”حرف شیریں،وہ کوہ کن کن کی بات،اورپس مرگ زندہ“سے میں نے بہت کچھ سیکھا۔کئی کئی بار میں نے ان کتابوں کا بالاستیعاب مطالعہ کیا ہے، جچے تلے الفاظ، خوب صورت  تعبیرات ،سحر انگیز اسلوب ،استعارات. تمثیلات اور محاورات کا بر موقع انتخاب اسی کے ساتھ آداب ترقیم کا مکمل لحاظ یہ اور اس کے علاوہ دیگر محاسن سے آپ کی تمام تحریریں آراستہ نظر آئیں گی _
آپ کی تصنیف کردہ ”پس مرگ زندہ“تقریباً نوسو صفحات پر مشتمل کتاب ہے۔اس کتاب کے بارے میں یہ کہنابجا ہوگا کہ یہ زبان و ادب کے گل بوٹوں سے لہلہاتا ہواایک خوبصورت چمن ہے،جس میں عصرحاضر کے اڑتیس علماء کے تذکرے ہیں،جن میں علماء،صلحاء،مدبرین و مفکرین،اساتذہ اوردعاۃ و قائدین ہر طرح کے علماء و فضلاء شامل ہیں۔
ترجمہ نگاری میں آپ کے قلم کی خصوصیت یہ ہے کہ آپ صاحب تذکرہ سے متعلق ضروری معلومات فراہم کرنے پر پوری توجہ دیتے ہیں اورہربات تحقیق کے ساتھ مفصل تحریر فرماتے ہیں۔آپ کی کتابوں میں معنوی محاسن کے ساتھ ظاہری آرائش و ذیبائش کا بھی خوب خیال رکھاجاتاہے۔دینی کتابوں کے سلسلے میں آپ کی یہ ادا یقیناایک قابل تقلید عمل ہے۔
حضرت مولانارحمہ اللہ کی پیدائش بہار کے ضلع مظفرپور کے ایک گاؤں ہرپور بیشی میں 18/دسمبر 1952ء کو ہوئی۔آپ کی ابتدائی تعلیم مدرسہ امدادیہ دربھنگہ (بہار)میں ہوئی بعدازاں دارالعلوم مؤ میں داخلہ لیا اوریہاں متوسطات تک کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لئے دارالعلوم دیوبند کا رخ کیا اوریہاں کے چشمہئ صافی سے ایک طویل عرصہ تک تشنگی بجھانے کے بعد ایک خاص وجہ کی بنیاد پر فراغت مدرسہ امینیہ دہلی سے حاصل کی۔جہاں بلند پایہ صاحب قلم حضرت مولاناسید محمد میاں صاحب سے خصوصی شرف تلمذ حاصل ہوا۔ان کے مربیان میں حضرت مولاناوحید الزماں صاحب کیرانوی قدس سرہٗ اورحضرت مولاناسید محمد میاں قدس سرہٗ خاص طورپر قابل ذکر ہیں۔
دس سال دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤمیں ادب عربی کے کامیاب استاذرہے،اس کے بعد اسی میدان ِادب عربی کی خدمات کے لئے دارالعلوم دیوبند بلالیاگیا۔جہاں تاوفات آپ اس عظیم اورآفاقی زبان کی بہت باوقار طریقے سے خدمت انجام دیتے رہے۔
ایک طویل عرصہ سے آپ دارالعلوم کے عربی ترجمان ”الداعی“کے مدیر تھے۔اسی کے ساتھ متعددعربی و اردوکتابوں کے کامیاب اورمقبول مصنف تھے۔
آپ کی عربی کتابوں میں ”(۱)الصحابۃ ومکانتھم فی الاسلام(۲)مجتمعاتنا المعاصرۃ والطریق الی الاسلام(۳)المسلمون فی الھند(۴)الدعوۃ الاسلامیۃ بین الامس والیوم(۵)مفتاح العربیۃ:جزء ان(۶)العالم الھندی الفرید الشیخ المقری محمد طیب رحمہ اللہ(۷)فلسطین فی انتظارصلاح الدین(۸)تعلمواالعربیۃ فانھا دینکم(۹)متی تکون الکتابات مؤثرۃ)(۰۱)فی موکب الخالدین(۱۱)من وحی الخاطر(جاھزان للطبع) پایہ کی کتابیں ہیں۔اوراردو کتابوں میں:وہ کوہ کون کی بات،حرف ِ شیریں،خط رقعہ کیوں اورکیسے سیکھیں،موجودہ صلیبی اورصہیونی جنگ،فلسطین کسی صلاح الدین کے انتظار میں،کیا اسلام پسپا ہورہاہے،پس مرگ زندہ،بہت مقبول اورمتداول کتابیں ہیں۔
اس کے علاوہ ہندوستان کے کئی اکابر کی کتابوں کے عربی زبان میں ترجمے کیے وہ بھی سب مطبوع و متداول ہیں۔
پوری زندگی علم و ادب کی خدمت میں گذاری اوربالآخر20رمضان المبارک 1442ھ کی مبارک شب میں زبان نبوت کے یہ مخلص ترجمان اپنے مالک حقیقی سے جا ملے،
زمانہ بڑے شوق سے سن رہاتھا
تمہیں سوگئے داستاں کہتے کہتے
مفتی خلیل الرحمن قاسمی برنی 3/مئ 2021

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے