امام مسجد اور اسکی بددعاء Imam of the mosque and the effect of his bad prayers

دنیا کا سب سےعجیب ترین معاملہ مسجد کا امام اور اس کی بد دعا کا اثر مسجد کا امام ھونا بھی عجیب منصب ہے۔ کوئی بھی شخص امام پر اعتراض کر سکتا ہے اور کوئی بھی ڈانٹ ڈپٹ کا حق رکھتا ہے امام کیسا بھی عالی مرتبہ اور عظیم کردار کا مالک کیوں نہ ہو ،مقتدیوں کی جلی کٹی باتوں سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ کو دیکھئے جلیل القدر صحابی ہیں پہلے پہلے اسلام لانے والوں میں سے ہیں اور عشرہ مبشرہ میں سے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنہیں اپنا ماموں فرمارہے ہیں۔ ان کے حق میں قرآن کی آیتیں نازل ہورہی ہیں ،واحد ایسے صحابی ہیں جن کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے والد اور والدہ کو جمع کرتے ہوئے فرمایا۔ تجھ پہ میرے ماں اور باپ قربان جن کے دل میں کسی مسلمان کے لئے بغض وحسد نہ تھا ، مستجاب الدعوات تھے ،حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی معیت میں تمام تر غزوات میں شریک ہوتے ہیں ،راہِ خدا کے پہلے تیر انداز تھے ،خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کو سالارِ لشکر مقرر فرما کر خرار کی جانب روانہ فرماتے ہیں۔ آپ کے ہاتھ پر بہت سی فتوحا ت ہوئیں۔ لیکن۔۔۔۔۔ جب امارتِ کوفہ کے دوران *مصلائے امامت* پہ کھڑے ہوتے ہیں تو کوفہ وا لوں کے اعتراضات کا محور بن جاتے ہیں ، کوفہ والے حضرت عمرِ فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کو شکایات بھجواتے ہیں اور ان میں ایک شکایت یہ بھی ہوتی ہے کہ: "سعد بن ابی وقاص نماز ٹھیک نہیں پڑھاتے" وہ شخص جس نےنماز اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھی، اس شخص کی نماز پر دیہاتیوں کا اعتراض بالکل آج کل جیسے حالات کا منظر پیش کر رہا ہے۔ آج کے ائمہ نے نماز اگرچہ براہ راست نبی سے نہیں سیکھی مگر نبی ﷺ کے اقوال وارشا دات سے ضرور سیکھی ہے۔ جن لوگوں کو دینیات کی بالکل خبر نہیں ھوتی انکی نظر بھی امام کے پائینچوں اور سجدے میں اٹھتی انگلیوں پر رہتی ہے۔ جولوگ دوچار مسائل کسی کتاب میں پڑھ لیتے ھیں خاص طورپردین کے نام نہاد ٹھیکیدار حضرات؟ لیکن ان مسائل کی تفاصیل اور اسلاف۔اکابر علماء کی آراء سے یکسرغافل وناوقف اور کورے ہوتےہیں ، ان کی زبانیں بھی اہلِ علم اورائمہ کرام پر تبصرہ وپھبتیاں کرتے نہیں رکتیں۔ بہرحال جب حضرت سعد بن ابی وقاص کی شکایت خلیفہ دوم امیرالمؤمنین حضرت عمرِ فاروق رضی اللہ عنہ تک پہنچ تی ہیں ، تو عمرِ فاروق رضی اللہ عنہ تحقیقِ احوال کے لئیے کوفہ وا لوں کی طرف محمدبن مسلمہ اورعبد اللہ بن ارقم کو بھیجتے ہیں،جوایک ایک مسجد میں جا کر حضرت سعد بن ابی وقاص کے بارے میں پوچھتے ہیں،حیرت کی بات ہے کہ شکایات کوفہ سے چل کر مدینہ پہنچیں، لیکن محمد بن مسلمہ اور عبد اللہ بن ارقم رضی اللہ عنھما جس سے بھی سوال کرتے ہیں تو جواب میں حضرت سعد بن ابی وقاص کی تعریف ھی سننے کو ملتی ہے۔ ایک ایک مسجد میں جا کر پو چھاتحقیق وتفتیش کی، لیکن کسی کی طرف سے کوئی اعتراض موصول نہیں ہوا۔ البتہ جب پوچھتے پوچھتےسلسلہ بنوعبس کی مسجد تک پہنچاتو صرف ایک شخص "اسامہ بن قتادۃ" نامی اٹھ کر حضرت سعد بن ابی وقاص کی شکایت کرتا ہے کہ آپ کی نماز ٹھیک نہیں؟ یہ جہاد کے سلسلے میں کوتاہی کرتے ہیں فیصلے میں عدل وانصاف سے کام نہیں لیتے۔ اعتراض کچھ بھی تھا؟ لیکن یہاں انتہائی قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ "شکایات کوفہ سے مدینہ بھیجی گئیں لیکن کوفہ کی کسی مسجد میں ایک شخص کے علاوہ کوئی اعتراض کرنے والا نہیں ملتا۔ یہ حقیقت تاریخ کا حصہ اورلا ئقِ اعتماد کتب میں موجود ہے کہ جانچ پڑتال کے دوران صرف ایک ہی ایسا آدمی ملا جسے حضرت سعد بن ابی وقاص پر اعتراض تھا،؟ لیکن شکایات مدینہ بھجوائی گئیں۔ اور یہ تاثردیا گیا کہ اگرحضرت سعد کو معزول نہ کیا گیاتو فتنہ وفساد کا اندیشہ ہے،اور پھر عمرِ فاروق رضی اللہ عنہ نےحضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کومعزول کر بھی دیا۔ اس حقیقت کے پیشِ نظریہ کہناہرگز بے جانہ ہوگا کہ بعض اوقات صرف ایک دو افراد یا مقتدیوں کو امام سے شکایت ھوتی ھے ، لیکن ان کا پروپیگنڈہ اتنا شدید ہوتا ہے کہ وہ دوسروں کو یہ باورکرا نے میں کامیاب ہوجاتےہیں کہ "یہ شخص اس منصب کے لائق نہیں،اگر اس کو اس منصب پر باقی رکھاجائے توفتنہ وفساد کا اندیشہ ہے۔۔۔۔" اوریوں پروپیگنڈہ کرنے والاجیت جاتاہے اورامام ہارجاتا ہے۔ میں اس مقام پر پروپیگنڈہ کرنے والوں کودل کے کانوں سے متو جہ ھونے کی دعوت دوں گا۔ اس میں شک نہیں کہ مجھ جیسے ائمہ مساجد لائقِ تعریف نہیں۔ لیکن میرے بھائیو!کبھی آپکی مسجد کا امام بے قصور بھی ہوتاہے، اور آپ کے اعتراضات بے جا بھی ہوتے ہیں۔ ایسی حالت میں اپنی "انا" کی تسکین کے بجائےاللہ کی پکڑ سے ڈریں،اور ذہن میں رکھیں کہ: جب حضرت سعد بن ابی وقاص نے رضی اللہ عنہ نے معترض کی ناحق باتیں سنیں تو اپنے ہاتھ اللہ جل جلالہ کے دربار میں اٹھا کریہ دعا کی: *اللَّهُمَّ إِنْ كَانَ عَبْدُكَ هَذَا كَاذِبًا، قَامَ رِيَاءً وَسُمْعَةً، فَأَطِلْ عُمْرَهُ، وَأَطِلْ فَقْرَهُ، وَعَرِّضْهُ بِالْفِتَنِ* اے اللہ! اگرتیرایہ بندہ جھو ٹاہے اورنام ونمودکی خو اہش میں اٹھاہے تواسکی عمرکولمبا کر،اس کی محتاجی میں اضافہ کراوراسے فتنوں میں مبتلاکر۔۔۔*وقت گزر گیا۔۔۔ حضرت سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ معزول بھی ھو گئے۔۔۔ پروپیگنڈہ جیت گیا؟ لیکن سعد بن ابی وقاص کی دعاء اللہ جل جلالہ کے ہاں محفوظ ہوگئی؟ اورپھرلوگوں نے دیکھا کہ*وہ شخص انتہائی بڑھاپے کوپہنچا، اسکی بھنویں آنکھوں پرگرچکی تھیں،راستے میں کھڑے ہوکر بھیک مانگتااورجب کوئی عورت سامنے سے گزرتی تواس کیساتھ چھیڑخانی کرتا۔* لوگ کہتےاے بوڑھےتمہیں عورتوں کو چھیڑتے ہوئے حیاء نہیں آتی؟ جواب میں کہتا میں کیا کروں؟ مجھ بڈھے کو سعد بن ابی وقاص کی بد دعاء لگ گئی ہے۔* آج کے دورکا کوئی امام حضرت سعدبن ابی وقاص جیساتو نہیں ،لیکن کسی بھی مسلمان پر ناحق اعتراضات کرتے وقت اللہ تعالیٰ کی پکڑ کو بھول جانا انتہائی بد نصیبی کی علامت ہے۔ ہم اپنے پروپیگنڈہ میں جیت سکتے ہیں۔ لیکن اللہ جل جلالہ کے ہاں فیصلے حقائق کی بنیاد پر ہوتے ہیں ان فیصلوں سے بے خوف نہیں ہونا چاہیے۔ اللہ کریم ہمیں مسجدوں کے نظام میں بہتری لانے کی توفیق بخشےاورالمعترض کالاعمی لاحقہ سے محفوظ فرمائے۔ مسجد کے امام وخطیب اور انتظامیہ میں سے ہرایک کو اپنی ذمہ داری سمجھنےاوراسے حتی المقدوردیانت داری کیساتھ نبھا نے کی توفیق عطا فرمائے۔ ربنا هب لنا من ازواجنا وذرياتنا قرة اعين وجعلنا للمتقين اماما کی دولت سے مالاما ل فر مائے

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے