تاریخ دیو بند کے سب سے بڑے ماہر فلکیات حضرت مولانا بشیر احمد خان صاحب ؒ بلند شہری ‏The greatest astronomer in the history of Deoband Hazrat Maulana Bashir Ahmad Khan Sahib is a high citizen


خلیل الرحمن قاسمی برنی بنگلور 9611021347
آپ کا اسم گرامی”بشیر احمد خان“ہے،والد محترم کا نام جناب”حافظ عبد الشکور“ صاحب بن حقداد خان ہے-آپ مادر علمی دار العلوم دیوبند کے سابق شیخ الحدیث وصدر المدرسین حضرت مولانا نصیر احمد خان صاحب قدس سرہ کے حقیقی بڑے بھائی اور سب سے اہم استاذہیں -درس نظامی کی اکثر کتا بیں آپ نے انہیں سے پڑھی ہیں- مولانا بشیرا حمد خان صاحب کی تاریخ پیدائش کا صحیح علم نہ ہو سکا،البتہ جا ئے پیدائش آپ کی موضع ”بسی“ضلع بلند شہر ہے
والد محترم چونکہ متدین اور فکر آخرت کے حامل انسان تھے اس لئے شروع ہی سے دینی تعلیم میں لگایا، آپ کی بستی کے قریب ”چندیانہ“ نامی ایک بستی ہے،وہاں کی جامع مسجد میں قرآن پاک کا حفظ مکمل کیا-آگے کی زیادہ تر تعلیم قصبہ گلاؤٹھی ضلع بلند شہر میں ہو ئی -اس وقت گلاؤٹھی کا مدرسہ ملک کے گنے چنے مدارس میں شمار ہو تا تھا-تعلیمی معیار بلند ہو نے کی وجہ سے ملک کے دور دراز گو شوں اور خطوں سے  طلبہ یہاں کھنچ کھنچ کر آتے تھے-خصوصاًقندھار اور سرحد کے علاقوں سے طلبہ کی کا فی آمد تھی-معقولات کی ٹھوس تعلیم کی وجہ سے اس مدرسے کی زیادہ شہرت تھی-کئی لائق وفائق اساتذہ یہاں درس دیتے تھے،جس کی بنیاد پر تشنگان علم ہر طرح کی قربانی دے کر یہاں آتے تھےآپ نے اسی مدرسے کے علمی ماحول میں اپنی تعلیم مکمل کی اور  ۰۴۳۱؁ھ میں آپ نے درس نظامی سے فراغت حاصل کی
محنت ویکسوئی،مطالعہ میں انہماک اور طبعی شرافت کی وجہ سے اساتذہ اور منتظمین مدرسہ کے معتمد تھے،اس لئے فارغ ہو تے ہی آپ کو ”مدرسہ منبع العلوم گلاؤٹھی“ میں مدرس مقرر کر لیا گیا-کم وبیش بائیس سال اسی مدرسہ منبع العلوم مین تدریسی خدمات انجام دیں-آپ کو جملہ کتب فنون کی تدریس میں کمال حاصل تھا،اس لئے مدار س میں پڑھا ئی جانےوالی تمام علوم وفنون کی کتابیں ،آپ کے زیر درس رہیں-بعض طلبہ صرف آپ سے اکتساب فیض کے لئے مدرسہ منبع العلوم گلاؤٹھی کا رخ کرتے تھے
حضرت شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد صاحب مدنی قدس سرہٗ کی ذات والا صفات سے آپ کو خاص عقیدت تھی،اسی طرح حضرت شیخ الاسلام قدس سرہٗ کو بھی آپ سے خاص تعلق ِخاطر تھا۔حضرت مدنی قدس سرہ ٗمولانا مرحوم کی علمی صلاحیت کے حد درجے معترف تھے، اسی لئے جب دارالعلوم کو علوم وفنون کے ماہر چند اساتذہ کی ضرورت پیش آئی اور حضرت قاری محمد طیب صاحب مہتمم دارالعلوم دیوبندنے اس سلسلے میں حضرت شیخ الاسلام قدس سرہٗ سے رابطہ کیا،تو حضرت مدنی ؒنے دیگر کئی اساتذہ کے ساتھ آپ کا نام بھی پیش کیا اور خود بھی مولانا سے دارالعلوم میں آنے کو کہا-حضرت مولاناؒ نے حضرت شیخ الاسلام قدس سرہٗ کے حکم کی تعمیل اودیگر ارباب دارالعلوم دیوبند کی فر مائش کو بطیب خا طر قبول کیا اور  ۲۶۳۱؁ھ میں دارالعلوم دیوبند میں بحیثیت مدرس آپ تشریف لائے دارالعلوم میں آنے سے پہلے تدریس کے طویل اور جا نگسل مراحل سے آپ گذر چکے تھے اور اس راہ کے نشیب وفراز اور پیچ وخم سے آپ اچھی طرح واقف تھے، اس لئے دارالعلوم دیوبند میں آنے کے بعدیہاں کے مقبول اور کامیاب مدرس شمار کئے گئے،دارالعلوم دیوبند میں اکثر بڑی کتابوں کے اسباق آپ کے ذمہ رہے،جن کتابوں کے اسباق اکثر وبیشتر آپ کے ذمہ رہے ان کی تفصیل حسب ذیل ہے،مسلم شریف،مؤطا امام مالک ؒ،نسائی شریف،سنن ابن ماجہ،شمائل ترمذی،سنن ابوداؤد،طحاوی شریف،مؤطاامام محمد ؒحدیث شریف کے علا وہ دیگر فنون کی کتابیں جو آپ کے زیر درس رہیں”ہدایہ آخرین،بیضاوی شریف،مسلم الثبوت،تصریح شرح چغمینی،بست باب،مطول،مسامرہ،تفسیرابن کثیر،رشیدیہ، اقلیدس،خلاصۃ الحساب ،سبعہ شداد،انفع الکشوف،رسالہئ فتحیہ، الفوز الکبیر، توضیح وتلویح
ان کے علاوہ بھی بعض دیگر کتابوں کے اسباق مختلف اوقات میں آپ کے ذمہ رہے،تاہم مذکو رہ اسباق اکثر وبیشتر آپ سے متعلق رہے
حضرت مولانا ؒ کامیاب مدرس ہو نے کے ساتھ بہترین منتظم اور مدبر بھی تھے، اسی لئے ارباب دارالعلوم دیوبند نے آپ کی اس صلاحیت کے پیش نظر آپ کو دارالعلووم دیوبند کا نائب مہتمم اور ناظم تعلیما ت بھی مقرر کیا-آپ نے انتہائی خوش اسلوبی اور فعالیت کے ساتھ سب کا حق اداکیا-
سب جانتے ہیں کہ انتظامی امور کے ساتھ تدریس کی ذمہ داریوں سے مکمل طور پر عہدہ بر آہونا بڑا مشکل کام ہے،لیکن حضرت مولانا کی یہ ایک بڑی خوبی رہی کہ آپ نے دونوں ذمہ داریوں کو احسن طریقہ سے انجام دیا
آپ نہایت وجیہ و شکیل تھے،چہرہ پر بلاکی کشش اور صلاح کے آثارنمایاں تھے-پر شکوہ اور پر کشش شخصیت کے حامل تھے-با رعب تھے- چہرے سے جاہ وجلال ٹپکتا تھا،اسی کے ساتھ حد درجہ حسین و جمیل بھی تھے- دیکھنے والا ایک نظر دیکھتے ہی آپ کی شخصیت سے مرعوب ہو جاتا تھا
قدرت نے آپ کو تمام علوم کی تدریس کی اعلیٰ صلاحیت سے نوازا تھا ”تفسیر، فقہ، بلاغت،منطق وفلسفہ اور نحوو صرف“ان تمام فنون کے آپ بہترین مدرس رہے،لیکن جس فن میں آپ یکتائے روزگار تھے اور جس فن میں آپ کو امامت کا درجہ حاصل تھا؛ وہ فن اور علم ”علم ہیئت“تھا،اللہ نے آپ کو اس فن سے خاص شغف عطافرمایا تھاجب آپ گلاؤٹھی میں پڑھاتے تھے تو بعض طلبہ دارالعلوم دیوبند سے فارغ ہو کر فن ہیئت اور معقولات کو پڑھنے کے لئے گلاؤٹھی آتے تھے۔ فن ہیئت کی تمام اصطلاحات،اصول وقواعد اور دقائق وباریکیاں آپ کو مستحضر تھیں-اس فن میں آپ کے جانشین حضرت مولانا نصیر احمد خان صاحب ہو ئے- ان دونوں حضرات کے بعد یہ فن دارالعلوم سے رخصت ہو گیا اور آج اس کی یتیمی کا یہ حال ہے کہ اس کے مدرس بھی خال خال نظر آتے ہیں
والد محترم حافظ عبد الشکورصاحب کی وفات کے بعد بہن بھائیوں کی تربیت وکفالت کی ذمہ داری کا فریضہ خوش اسلوبی کے ساتھ انجام دیا-آپ کی عمدہ تربیت کا نتیجہ تھا کہ آپ کے برادر اصغرمولانا نصیر احمد خان صاحب علم کے بحر بیکراں اور محدث اعظم بنے
اللہ نے علم وعمل کے ساتھ مال ودولت سے بھی نوازا تھا،چنانچہ گلاؤٹھی رہنے کے زمانے میں تقریباً دس بسیں مختلف شاہ راہوں پر چلتی تھیں،جن کی آمدنی کا بڑا حصہ اقرباء کے ساتھ اہل اللہ،طلبہئ علم دین اور دین کے دیگر کا موں میں صرف فرماتے تھے
تقوی وطہارت اور پا کیز گی ئ اخلاق ومعاملات میں اسلاف کا نمونہ تھے- حد در جہ متواضع اور احسان و مروۃ کے پیکر تھے
آپ کے درس کی خصوصیات کے تعلق سے آپ کے شاگرد رشید حضرت مولانا خورشید حسن صاحب رفیق دارالافتاء دارالعلوم دیوبند تحریر فرماتے ہیں
”حضرت کے درس کی امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ حضرت والا اولاً کتاب کی عبارت حل فرماتے پھر حدیثی لغات پر کلام فرماتے،اس کے بعد ترجمہ ومطلب کے بعد بوقت ضرورت حدیث کے راویوں پر سیر حاصل بحث فرماتے،فقہی احکام سے متعلق احادیث شریفہ میں ائمہئ اربعہ کا مسلک بیان فرمانے کے بعد جامع طرز پر آخر میں فقہ حنفی کے تر جیحی دلائل بیان فرماتے اور مسلم شریف کے مشکل ترین باب”کتاب الایمان“کی ایسی جامع تشریح وتقریر فرما تے کہ ایمان سے متعلق پیچیدہ مباحث مخاطب کے لئے آسان سے آسان ہو جا تے، اور درس مسلم شریف زیادہ تر”حضرت علامہ نووی“کی تقریر اور ”فتح الملہم شرح مسلم“پر مشتمل ہو تا
حضرت والا کے درس کی خصوصیت یہ بھی تھی کہ درسی تقریر سلیس،اور رواں دواں اردو میں ہو تی اور انداز بیان مختصر اور جامع ہو تا، نفس کتاب کی عبارت پر ہی توجہ مرکوز رہتی(دارالعلوم دیوبند کی تاریخی شخصیات ص۲۷)
علم وعمل کا یہ آفتاب زندگی کے آخری لمحات تک علم کی اشاعت اور درس وتدریس میں مشغول رہ کر ۸/جمادی الثانیہ ۶۸۳۱؁؁ھ مطابق ۴۲/ ستمبر ۶۶۹۱؁ء بروز شنبہ کوغروب ہو گیا، مزار قاسمی میں آپ مد فون ہیں آپ کی کو ئی نرینہ اولاد نہیں تھی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے