عظیم المرتبت قائد اورمحدث جلیل امیرالہندحضرت مولاناقاری محمد عثمان صاحب ‏Great Leader and Muhaddith Jalil Amir-ul-Hind Hazrat Maulana Qari Muhammad Usman Sahib

عظیم المرتبت قائد اورمحدث جلیل
 امیرالہندحضرت مولاناقاری محمد عثمان صاحب منصورپوریؒ،استاذ دارالعلوم دیوبند وصدر جمعیۃ علماء ہند
         (قسط اول) 
مفتی خلیل الرحمن قاسمی برنی بنگلور 
9611021347
عظیم المرتبت،عظیم الشان،محدث جلیل،عالم بے بدل،ہزاروں علماء کے استاذ محترم حضرت مولاناقاری محمد عثمان صاحب منصورپوری بھی آج بتاریخ ۸/شوال المکرم 1442ھ مطابق21مئ2021 عین نماز جمعہ کے وقت دوپہرسوابجے اپنے مالک حقیقی سے جاملے۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔ان للہ مااخذ ولہ اعطیٰ وکل شئی عندہ باجل مسمی
استاذمحترم کئی دنوں سے بیمار تھے۔کئی دفعہ پریشان کن خبریں بھی آتی رہیں مگر ان کی تردید بھی ہوتی گئی۔اس بار بھی امید تھی کہ تردید ہوجا ئے گی مگر افسوس کہ حادثہ جو مقدر تھا وجود میں آہی گیا۔
یقین جانیے !آپ کی رحلت کی خبر مجھ سمیت ہزاروں وابستگان دیوبند اورآپ کے تمام شاگردوں پر صاعقہ ئ آسمانی بن کر گری ہے۔سب رنجیدہ اورملول ہیں۔ہر ایک کو دکھ ہے۔درد ہے۔غم ہے لیکن قدرت الہٰی کے سامنے سب بے بس وعاجز ہیں۔موت دنیا کی سب سے بڑی سچائی ہے اورسب جانتے ہیں کہ یہ ایک اٹل حقیقت ہے۔وہ وقت مقررہ پر آتی ہے۔جب وہ آتی ہے تو ایک منٹ کی بھی تاخیر و تقدیم ناممکن ہے۔محفوظ سے محفوظ قلعوں میں بھی موت اپنے شکار کو اچک لیتی ہے۔اسے کوئی نہیں روک سکتا۔
موت ہر ایک کو آتی ہے اورہر ایک کے لئے مقدرہے لیکن موت موت میں فرق ہوتاہے۔بہت سے حضرات کی موت ان کے لئے حیات ِجاوداں کا پیغام لاتی ہے۔وہ اپنے کارناموں کی بدولت زندہ رہتے ہیں،ان کی موت سے ایک عہد کا خاتمہ اورایک نئے باب کا آغاز ہوتاہے۔وہ اپنے پیچھے ایسے انمٹ وتابندہ نقوش چھوڑجاتے ہیں جن کے ذریعہ ہزاروں لوگوں کو راہِ صواب ملتی ہے اوروہ منزل مقصود تک پہنچنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔یہی وہ لوگ ہیں جن کی زندگی کے ہر لمحے کو تاریخ اپنے سینے میں جگہ دیتی ہے۔
لاریب!    استاذ محترم قاری صاحب قدس سرہٗ ایسے ہی قدسی صفات اوربندگانِ مقبولین میں سے تھے جن کے آثارو نقوش کی ضیاباری میں قیامت تک آنے والی نسلیں روشنی حاصل کرتی رہیں گی۔
ہم نے شعور کی آنکھیں دارالعلوم دیوبند کے احاطہ میں کھولیں۔تقریباًپانچ سال کا تھا میں؛جب خدانے اس عظیم،مقدس اورپاکیزہ ادارہ کی آغوش کے سپرد کردیا تھا۔والد محترم حضرت مولاناقاری شفیق الرحمن صاحب بلندشہری استاذ شعبہئ تجوید و قرأت دارالعلوم دیوبند اس وقت مادرعلمی میں معین مدرس تھے،اوردارجدید کے ابتدائی حصے میں کمرہ۲؎ میں وہ فروکش تھے۔اس وقت ہمارے کان جن اساتذۂ دارالعلوم کے چرچوں،تذکروں سے آشنا ہوئے ان میں ایک نام حضرت قاری صاحب قدس سرہٗ کا بھی تھا۔اورپھر دارالعلوم میں رہتے ہوئے کسی نہ کسی انداز و حوالے سے آپ کا نام و کام سامنے آتاہی رہا۔پھر وہ وقت بھی آیا جب حضرت قدس سرہٗ کے سامنے خدا ئے علیم و خبیر نے باقاعدہ زانوئے تلمذطے کرنے کا موقعہ دیا۔
ہفتم کے سال مشکوٰۃ شریف (ثالث)آپ کے پاس پڑھنے کا موقع ملا۔آغاز درس میں جو تمہیدی مباحث بیان فرمائے ان میں ایک اہم موضوع تھا ”امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا علم حدیث میں مقام اورتدوین حدیث میں ان کی خدمات“ میں نے آپ کی یہ ساری گفتگو قلمبند کی تھی اورامام ابوحنیفہؒ کی تدوین حدیث میں خدمات“کے عنوان سے ماہنامہ ترجمان دیوبند میں ایک مستقل مضمون کی حیثیت سے اسےشائع کرایاتھا ۔کسی طرح یہ رسالہ حضرت کی خدمت میں بھی پہنچا، تو حضرت نے میرا تالیف کردہ مضمون بھی مکمل پڑھا اورسبق کے بعد درسگاہ سے نکلتے ہوئے میری حوصلہ افزائی فرمائی۔آپ کی اس طرح حوصلہ افزائی نے میرے لیے مہمیز کا کام کیا۔
آپ کا درس مقبول تھا۔کیوں کہ آپ جو پڑھاتے تھے پوری تیاری اورمطالعہ کے ساتھ پڑھاتےتھے۔بعض ضروری چیزیں کاغذات پر لکھ کر لاتے اورطلبہ کو لکھواتے۔دھیمے انداز سے مکمل تسلسل اور ربط و انہماک کے ساتھ پڑھانے کے عادی تھے۔دوران سبق پوری توجہ افہام و تفہیم پر مرکوز رہتی۔لایعنی باتیں،قصے،کتاب  سے ہٹ کر کوئی اوربات آپ کے سبق میں کبھی نہیں سنی گئی۔زبان بہت صاف و شستہ اورسلیقہ کی آئینہ دار تھی۔
دورہء حدیث شریف کے سال "مؤطاامام مالک ؒ" آپ کے پاس پڑھنے کا شرف حاصل ہوا۔اس سال بھی آپ نے آغاز درس میں جو تمہیدی باتیں بیان فرمائیں وہ بہت کام کی تھیں،آج تک ان سے فائدہ حاصل ہورہاہے۔فجزاہ اللہ احسن الجزاء۔
حضرت قاری صاحب رحمہ اللہ حددرجہ متواضع،سادہ طبع اورمنکسرالمزاج انسان تھے۔حق گوئی و بے باکی اورتقویٰ و طہارت میں ممتاز تھے۔اجلاکیریکٹر،بے داغ زندگی،صاف ستھرا کردار،تبحرعلمی،علم و عمل میں یکسانیت،احسان واخلاص سے معمور قابل رشک زندگی،بے لوث بے غرض،صدق و صفا سے آراستہ،حلم و ذکاوت اورجود وسخامیں بے مثال،بڑوں کا احترام اورچھوٹوں پر شفقت،حلم و ذکاوت اوروقارومتانت میں بے نظیر ،جلال و جمال کا حسین امتزاج جو دیکھے پکار اٹھے ماھٰذابشراان ھٰذا الا ملک کریم۔ان تمام خوبیوں اوراوصاف حسنہ سے متصف تھے ہمارے استاذمحترم حضرت قاری محمد عثمان صاحب قدس سرہٗ۔ان تمام حقائق کا اظہار ہر وہ شخص کرسکتاہے جس نے آپ کے سامنے زانوئے تلمذ تے کیا ہو یا آپ کو قریب سے دیکھا۔
آپ کے فیض یافتگان اوتلامذہ ر کی ایک بڑی تعداد ہے جو چہاردانگ عالم میں علم و عمل کی شمعیں روشن کیے ہوئے ہے۔یہ سب آپ کے لئے صدقہ جاریہ رہیں گے انشاءاللہ -(جاری )

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے