بلند پایہ محدث اورمحقق عالم دین حضرت مولاناحبیب الرحمن صاحب اعظمی استاذ حدیث ومدیرماہنامہ دارالعلوم دیوبند

بلند پایہ محدث اورمحقق عالم دین
 حضرت مولاناحبیب الرحمن صاحب اعظمی
 استاذ حدیث  ومدیرماہنامہ دارالعلوم دیوبند 

 مفتی خلیل الرحمن قاسمی برنی بنگلور
9611021347
قریب تین ماہ قبل دیوبند جاناہواتھا۔دیوبند جاکر کوشش ہوتی ہے کہ وہاں موجود اپنے اساتذہ کی زیارت وملاقات سے بہرہ ور ہوجاؤں۔بعض اساتذہ سے مسجد میں اوربعض سے راہ چلتے بھی دعاسلام ہوجاتی ہے۔لیکن بعض اساتذہ سے احقر کا تعلق ایسا ہے کہ ان کے گھر پہنچ کر ہی دل بھرتاہے۔دارالعلوم میں ایسے کئی اساتذہ ہیں جو احقر کے ساتھ آج بھی بہت مشفقانہ و کریمانہ معاملہ رکھتے ہیں۔میرے کاموں پر میری حوصلہ افزائی،غلطیوں پر مرشدانہ روک ٹوک وفہمائش اوراپنی مخلصانہ دعاؤں میں ہمیشہ یاد رکھتے ہیں۔ان میں ایک واضح نام استاذ محترم حضرت مولانامصلح الدین صاحب زید مجدھم کا ہے۔اس موقعہ پر جب میں نے ان سے ملاقات کے لئے رابطہ کیا تو انہوں نے فرمایا کہ عصر کے بعد مسجد رشید میں ملاقات ہوگی اورپھر وہیں سے ساتھ گھر جائیں گے۔
میں نےعصر کی نماز مسجد رشید میں پڑھی اور بعد عصر حضرت الاستاذ سے ملاقات کی آپ نے فرمایا:عصر کے بعد ہم لوگ تھوڑی دیر حضرت مولاناحبیب الرحمن صاحب اعظمی کی خدمت میں بیٹھتے ہیں آؤ تم بھی ملاقات کرلینا۔میں بہت خوش ہوا کہ یہ تو سعادت ہی سعادت ہے۔
اس سے پہلے حضرت اعظمی رحمہ اللہ سے ملاقات میں ہمیشہ جھجھک ہی رہی۔ویسے بھی حضرت کا مزاج طلبہ کو زیادہ قریب کرنے کا نہیں تھا۔اس پر مستزاد آپ کا علمی رعب اورآپ کے مزاج کی یکسوئی نے احقر کو آپ کے زیادہ قریب ہونے کا موقعہ نہیں دیا۔
استاذ محترم حضرت مولانامصلح الدین صاحب زید مجدھم کے ساتھ سہمے اورجھجھکتے ہوئے استاذ الاساتذہ کی خدمت میں حاضری ہوئی۔حضرت الاستاذ نے استاذ الاساتذہ کے سامنے میرا تعارف اس طرح کرایاکہ حضرت! یہ آپ کے شاگرد ہیں مفتی خلیل الرحمن برنی قاری شفیق الرحمن صاحب کے صاحب زادے ہیں ، بنگلورمیں مقیم ہیں۔لکھنے کا اچھا ذوق ہے۔ابھی ان کی تازہ تالیف" تذکرہ سلطان العلماء" منظر عام آئی ہے۔اس پر حضرت میری طرف متوجہ ہوئے۔کون ہیں سلطان العلماء۔میں نے عرض کیا استاذ محترم حضرت مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری قدس سرہٗ مراد ہیں۔تو چہرہ پر مسکراہٹ لائے اورسلطان العلماء لقب پر روشنی ڈالتے ہوئے ارشاد فرمایا:
یہ لقب ماضی میں امام عز الدین السلمی کا تھا۔اپنے وقت کے نامور علماء میں سے تھے۔حافظ ذہبی رحمہ اللہ کے خیال کے مطابق یہ درجہئ اجتہاد پر فائز تھے۔فقہ اصول فقہ اورتفسیر ولغت کے امام تھے۔بڑے بڑے علماء ان کے حلقہئ تلامذہ میں شامل تھے۔
میں نے عرض کیا کہ حضرت! اس مجموعہ کے متعلق میں نے کئی نام منتخب کرکے استاذ محترم حضرت مولاناسلمان بجنوری زید مجدھم کی خدمت میں اس غرض سے پیش کیے تھے کہ وہ تعین فرمادیں۔آں محترم نے منتخب کردہ ناموں میں سے اس کو پسند فرمایااورپھر میں نے اپنے اس مجموعہ کو اسی نام سے موسوم کردیا۔(اکثر اہل علم نے اسے بامسمیٰ قراردیا۔کیوں کہ حضرت والارحمہ اللہ کی ذات والا صفات ان کے معاصر علماء کے درمیان اسی شان سلطان کی حوالہ شناخت تھی۔)
حضر ت سے ملاقات کایہ وقفہ تقریباً دس منٹ رہا۔کسے معلوم تھا کہ حضرت اعظمی رحمہ اللہ کے ساتھ یہ میری آخری ملاقات ہوگی۔جو،اب یادگاربن کر رہ گئی۔
زمانہئ طالب علمی میں جب مجھے لکھنے کا شوق پیدا ہوا تو ایک مضمون لکھ کر حضرت کی خدمت میں حاضر ہواتھا اورعرض کیا تھا کہ حضرت یہ مضمون لکھا ہے چاہتاہوں کہ آپ اصلاح فرمادیں اورماہنامہ دارالعلوم دیوبند میں شائع فرمادیں۔حضرت نے اوپر سے نیچے تک مجھے دیکھا اورفرمایا:بیٹا ابھی بہت پڑھو!پھر لکھنا!اس کے بعد دیکھیں گے۔یاد پڑتاہے۔کہ اس وقت حضرت کے اس جواب سے میرا دل بہت ٹوٹا تھا؛لیکن ساتھ میں یہ جذبہ بھی پروان چڑھا کہ لکھنا تو بہرحال ہے اورحضرت کے فرمان کے مطابق پھر پڑھنے کی بھی کوشش کی۔جس کی برکت سے اللہ نے کمزور ی کے ساتھ ہی سہی مگر قلم چلانابھی سکھادیا۔تحریر پڑھنے والوں سے درخواست ہے کہ وہ احقر کے قلم میں مضبوطی اورتحریر وتقریر میں اخلاص کے لئے دعا فرمادیں۔احسان مندرہوں گا۔
حضرت الاستاذ رحمہ اللہ کی جلالت علمی اورعبقریت مسلم تھی -آپ ان چنندہ اورنابغہئ روزگار شخصیات میں سے تھے، جنہوں نے اپنے خون ِ جگر سے چمن علم کی آب یاری کی تھی۔ان کا سب سے زیادہ محبوب مشغلہ کتب بینی اورمطالعہ تھا۔ان کا اوڑھنا بچھونا صرف کتاب تھا۔
یوں تو تمام علوم متداولہ میں آپ کو مہارت حاصل تھی مگر خاص طور پر حدیث اورفن اسماء الرجال میں آپ کو ید طولیٰ اورامتیاز حاصل تھا۔آپ صاحب طرز ادیب اورعظیم مؤرخ بھی تھے۔اقوام عالم کی تاریخ کے ساتھ تاریخ ہند پر بھی آپ کی گہری نظر تھی۔
درس میں تسلسل،ربط اورتعمق میں آپ بے مثال تھے۔پڑھاتے ہوئے ایک سماں بندھ جاتا۔گویاعلم کے موتی رول رہے ہیں۔رجال کی بحث پر آپ کا کلام وانداز بہت البیلااورگہرائی وگیرائی سے بھرپورہوتاتھا۔درس کی طرح آپ کی تحریریں بھی بہت صاف شستہ مواد سے بھرپور،مفید و مقبول تھیں۔خدانے افہام و تفہیم کا عجیب ملکہ عطافرمایاتھا۔اسی بنیاد پر آپ کو رسالہ دارالعلوم کا مدیر بنایاگیااورکم و بیش 35/سال آپ کی ادارت میں یہ رسالہ نکلتارہا۔آپ کی تحریروں میں پختگی اوراستحکام ہونے کے ساتھ ادب و بلاغت کی چاشنی بھی ہوتی تھی۔جچے تلے الفاظ،خوبصورت تعبیریں،حسین اسلوب،طرز میں سنجیدگی ومتانت اوربلاغت کا کمال آپ کی قلمی خصوصیات تھیں۔
آپ کی مصنفات کی تعداد تیس سے زیادہ ہے،جن میں شجرہء طیبہ،مقالات؍ حبیب،تذکرہ علماء اعظم گڈھ،شرح اردو مقدمہ شیخ عبدالحق،شیوخ ابوداؤد فی سننہ اورانتقاء کتاب الاخلاق بہت مشہور کتابیں ہیں۔
استاذ محترم حضرت مفتی سعید صاحب قدس سرہٗ کی ایک مشہور گفتگو (جس میں انہوں نے یہ بات ارشاد فرمائی تھی کہ :ہر سنت حدیث ہے مگر ہر حدیث سنت نہیں اورہر حدیث حجت نہیں ہواکرتی)کے رد میں باقاعدہ ایک کتاب لکھی جس کا نام ”کیاحدیث حجت نہیں“رکھاگیا۔
حضرت الاستاذ رحمہ اللہ کی پیدائش 1942ء میں اپنے وطن موضع جگدیش پور ضلع اعظم گڑھ میں ہوئی۔آپ کے والد محترم کا نام حافظ انوارالحق تھا،جو ایک نیک سیرت خوش خصال اوروضعدار انسان تھے۔
عربی کی تعلیم مدرسہ بیت العلوم سرائے میر،مطلع العلوم بنارس اوردارالعلوم مؤمیں حاصل کرنے کے بعد 1962-1382ھ کو ازہر ہند دارالعلوم دیوبند میں داخل ہوئے اورایک سال تعلیم حاصل کرنے کے بعد فراغت حاصل کی-
بخاری شریف فخرالمحدثین حضرت مولانا سید فخرالدین صاحب قدس سرہٗ سے پڑھی۔آپ کو اپنے ان استاذ محترم سے بہت محبت تھی -اسی لیۓ اکثر فخر المحدثین کا  تذکرہ انتہائ عقیدت و احترام سے کرتے ہوئے آبدیدہ ہوجاتے -
فراغت کے معابعد ہی تدریس سے وابستہ ہوگئے تھے ۔سب سے پہلے اشرف المدارس گھوسی کو اپنی فتح گاہ بنایا-وہاں صدر المدرسین کی حیثیت سے کام کیا۔کچھ دن مدرسہ اسلامیہ منگراواں،اورکچھ دن جون پور میں خدمات دینیہ انجام دینے کے ساتھ حضرت اقدس مولاناشاہ عبدالغنی پھول پوری قدس سرہٗ سے وابستہ ہوکر تبلیغی خدمات بھی انجام دیں۔بعد ازاں جامعہ اسلامیہ ریوڑھی تالاب میں بھی فاتحانہ انداز سے تدریسی ذمہ داریاں نبھائیں اورپھر 1980ء میں حضرت فدائے ملت مولاناسید اسعد مدنی قدس سرہٗ کے ایماء پر دیوبند تشریف لے آئے جہاں آپ کو مؤتمر عالمی کا ناظم بنایاگیا اور:رسالہ القاسم :کی ادارت بھی آپ کے ذمہ میں آئی۔
1981ء میں آپ کا مادرعلمی دارالعلوم دیوبند میں بحثیت مدرس وسطی درجہ میں تقررہوا-اورپھر جلد ہی ترقی کرکے آپ علیا درجہ کے مدرسین میں شامل ہوگئے۔
آپ تدریس و مطالعہ کے آدمی تھے،جلسے بازی آپ کو پسند نہیں تھی۔اس لیے اسفار سے آپ کو بعد تھا،کسی معاصرنے کیا خوب لکھا ہے کہ: مادرعلمی میں سراج المحدثین حضرت مولانانعمت اللہ صاحب اعظمی صاحب کے بعد دارالعلوم کی اگر کسی اورشخصیت کو”کرم کتابی“کہاجاسکتا تھا تو بلاشبہ آپ ہی تھے۔البتہ جمعیۃ علماء ہند سے آپ کو بہت لگاؤ تھا۔آپ اس کی مجلس عاملہ کے رکن رکین اورفعال وصائب الرائے ممبر تھے۔
حضرت کے یہاں صحت کی درستگی کا خیال بھی ایک معنی دارعمل تھا۔آپ بلاناغہ صحیح سویرے چہل قدمی کے لئے ضرورتشریف لے جاتے۔ہاتھ میں خوبصورت لاٹھی،نیچی نگاہیں،گردہ بال،اوپر سے نیچے تک سفید ہی سفید اپنی منزل کی طرف تیز گام بہت حسین اورخوبصورت نظرآنے والے اس منظر سے اب ہم ہمیشہ کے لئے محروم ہوگئے۔
علم حدیث کا یہ اتھا ہ سمندر اورروایت و درایت کا سورج 30/رمضان المبارک1442ھ مطابق 13/مئی 2021ء اپنے وطن موضع جگدیش پور اعظم گڈھ میں ہمیشہ کے لئے روپوش ہوگیا۔
خدارحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے