پروفیسر اشتیاق دانش صاحب مرحوم ایک ‏عظیم ‏شخصیت ‏کا ‏آخری ‏سفر The late Prof. Ishtiaq Danish, the last journey of a great personality


 

بچھڑاکچھ اس ادا سے  کہ رت ہی بدل گئی

ایک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا

دنیا انسانی زندگی کا عارضی پڑاؤ ہے، چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا" کن فی الدنیا کانک غریب او عابر سبیل" چنانچہ زندگی کا سفر چاہے جتناطویل ہوجائے لیکن ایک دن وہ سفرضرور مکمل ہوتا ہے، اور یہی رب کائنات کا نظام اور اسکی سنت ہے،چنانچہ ارشاد ربانی ہے" کل من علیھا فان ویبقی وجہ ربک ذوالجلال والإكرام" کہ جوبھی اس روئے زمین پر آئیگا وہ وادیٔ موت سے بھی گزریگا، دوام صرف اللہ کی ذات کو ہے، اور اسکےاس اصول سے کوئی بھی چاہے وہ نبی ہوں، ولی ہوں صحابی ہوں نیک ہوں یا بد، ہوں کوئ مستثنیٰ نہیں ہے، کوئی پہلےکوئی بعد میں لیکن ضرور جانا ہے، فرمان خداوندی ہے، اذاجاء أجلھم لا یستأخرون ساعۃ ولا یستقدمون، کہ جب وقت موعود آن پہونچے تو ذرہ برابر بھی تاخیرنہیں ہوسکتی ہے۔

لیکن چونک اللہ نے انسان کوگوشت وپوست سے مزین ایک حساس طبیعت کا مالک بنایا ہے جورنج وغم ہنسی وخوشی کے ملے جلے تأثرات کا اظہار وقت بوقت موقعہ بموقع کرتا رہتا ہے، اور ان تأثرات کا اظہار کبھی آنسوبہاکر کبھی کچھ بول کر کبھی کچھ لکھ کرتا ہے، چنانچہ یہ چند سطور بھی اس غم کے احساس کا مظہر ہیں جو استاد مکرم جناب پروفیسر اشتیاق دانش صاحب مرحوم (جنکو مرحوم لکھتے ہوئے کلیجہ منہ کو آرہا ہے) کے جانے سے ملا

استاد محترم 2 رمضان المبارک بروز جمعہ مجیدیہ ہاسپٹل جامعہ ہمدرد میں دورہ قلب پڑجانے کے نتیجہ میں اس جہان فانی کو الوداع کہتے ہوئے ہم طالب علموں اور لواحقین کو روتا بلکتا چھوڑکر اپنے مالک حقیقی کی بارگاہ میں پیش ہوگئے، یقیناً مومن کے لئے اس سے زیادہ خوشی کا لمحہ کوئ نہیں ہوسکتا کہ وہ اپنے مالک حقیقی سے ملاقات کرے، اور یہ ملاقات موت کی وادی سے گزرے بغیر محال وناممکن ہے، چنانچہ ارشاد نبوی صل اللہ علیہ وسلم ہے "الموت جسر یوصل الحبیب الی الحبیب" کہ موت ایک پل جو حبیب کو اپنے محبوب سے ملاتی ہے، اور خوش قسمت ہیں وہ حضرات کہ جو اپنے اخلاق وعادات اور اخلاص کی بنا پر آسانی کے ساتھ اپنے محبوب کے قریب ہوجاتے ہیں، اس معاملہ میں بھی استاد محترم سبقت لے گئے اور  بڑی سعادت کے ساتھ  بڑی مبارک ساعتوں، ماہ رمضان المبارک  اور جمعہ کے دن ، جو کہ اپنے آپ میں بیشمار فضیلتیں سمیٹے ہوئے ہے،بارگاہ ایزدی میں پیش ہوگئے۔

جب آپکے انتقال کے بارے میں سوچتا ہوں تو یقین نہیں آتا کہ اب استاد محترم اس دنیا میں نہیں ہیں، سب کچھ ایک خواب کی مانند نظر آرہا ہے، لیکن موت برحق ہے اسکی کس سے یاری ہے آج اسکی تو کل میری باری ہے،

انتقال سے ایک ہفتہ پہلے ہی استاذ محترم سے بات ہوئی تھی، طبیعت بھی ماشاء اللہ بہتر تھی بس ذرا شوگر لیول بڑھا ہوا تھا، کہہ رہے تھے کہ ایک دو دن میں گھر آجاؤں تو ملتے ہیں،  کسکو پتہ تھا کہ

 گفتگو آخری ہے،یہ کلام آخری یے

ایک یادرہ گئی ہے مگر وہ بھی کم نہیں

ایک درد رہ گیا ہے سو رکھنا سنبھال کے

 ایک ہفتہ بیتنے کےبعد جمعہ کے دن صبح تقریبا 8،30 پر میں نے  خیریت کے لیے فون کیا، کال رسیو نہیں ہوئ، دوبارہ کوشش نہیں کی، اور اپنے کام  میں مصروف ہوگیا، اچانک فون کی گھنٹی بجتی ہے دیکھتا ہوں کہ عزیز دوست جناب ڈاکٹر ظہور احمد وانی لیکچرار   گورنمنٹ ڈگری کالج، تھانہ منڈی  کشمیر کا واٹسپ میسیج آیا ہے کہ "سینیر فلاحی پروفیسر اشتیاق دانش نہیں رہے" آگے لکھا تھا کہ بھائ کیا واقعی ایسا حادثہ ہوگیا ہے؟  ایس ایم ایس دیکھ کرزمین پیروں تلے سے نکل گئ یا الٰہی یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئ اچھا خاصا تندرست آدمی اتنی جلدی داغ مفارقت دے جائےایک لمحے کو ایسا لگا کہ کارخانۂ عالم اپنی جگہ رک گیا ہو، کچھ دیر بعد ہوش وحواس کو قابو میں لاتے ہوئے اس خبر کی تحقیق شروع کی، خبر واقعی سچ تھی اور یقین نہ کرنے کی کوئ وجہ نہیں تھی، اسی دوران رفیق درس ڈاکٹر اجمل ریسرچ ایسوسٔیٹ الجامعہ الاسلامیہ کیرالا کا بھی فون آگیا رندھی آواز سے تصدیق چاہی اور کئی منٹ تک ہم دونوں ایک دوسرے کے غم میں شریک ہوکر آنسو بہاتے رہے، اس سے پہلے بھی بعض اساتذہ کا انتقال ہوا تھا ،مگر جو کیفیت استاذ محترم جناب اشتیاق دانش صاحب کے انتقال پر ہوئ اسکے اظہار کے لئے الفاظ نہیں ہیں

یقیناً اچانک کسی قریبی شخص کے انتقال کے صدمے سے دو چار ہونا ایک ایسا  تکلیف دہ تجربہ  ہے جس سے جلد یا بدیر ہر انسان کو گزرنا پڑتا ہے،اور یہی تجربہ استاد محترم کے انتقال پر ناچیز کو بھی ہوا اللہ تعالی ہم سب کی حفاظت فرمائے آمین۔

 استاد محترم کا تعلق مردم خیز سرزمین اعظم گڑھ سے تھا، آپنے اپنی تعلیم جامعۃ الفلاح اعظم گڑھ سے مکمل کرنے کے بعد جدید تعلیم کے حصول کے لیے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کارخ کیا اور وہاں سے انگریزی میں بی اے ،ایم اے اور پھر ویسٹ ایشین اسٹڈیز سے ایم فل اور پی ایچ ڈی کی۔اور 1990،سے 1993 تک علیگڑھ مسلم یونیورسٹی میں بطور لیکچرار پڑھایا اور پھر ولایت تشریف لے گئے اور کئ سال وہاں گزارنے کے بعدبطور اسسٹنٹ پروفیسر جامعہ ہمدرد کے شعبہ اسلامک اسٹڈیز سے جڑ گئے اور ترقی کرتے ہوئے پروفیسر اور صدر شعبہ تک کی ذمہ داریاں پوری ایمانداری کے ساتھ اپنی جبری سبکدوشی تک نبھاتے رہے۔

آپنے ملکی و عالمی اداروں وایجینسیز کے ساتھ ملکر مختلف علمی پراجیکٹ بھی کئے جنمیں یونیسف اور ھمدرد نیشنل فاؤنڈیشن بطور خاص قابل ذکر ہیں، اسکے علاوہ مسلمانوں کی تعلیمی سماجی اقتصادی درجہ بندی سے متعلق سچر کمیٹی میں بھارت میں مدارس کی صورت حال کی رپورٹ پر بھی کام کیا، تقریباً 20 طلباء کے پی ایچ ڈی مقالہ کی راہنمائی کے ساتھ ساتھ قریب 10 کتابیں اور کم وبیش 40 علمی تحقیقی مضامین عالمی رسائل میں نشر کرائے۔

آپ نے ایک اہم کام یہ کیا کہ جامعہ ہمدرد کے ایم اے اسلامیات کے نصاب کو ازسر نو ترتیب دیکر اسمیں بعض اہم اور جدید مضامین کو شامل کیا،جیسے اسلام اور عالمگیریت، اسلام پروموشن آف نالج، انسانی حقوق،اسلامی اور عالمی قوانین میں، اسلام اور جدیدیت، وغیرہ وغیرہ، اسی پر بس نہیں بلکہ گریجویشن کی تعلیم بھی شروع کرائ تاکہ مدارس سے آنے والے طلباء کے لئے تمام راہیں کھلی ہوئی ہوں، ڈپارٹمنٹ میں اسمارٹ کلاسز کا سہرا آپکے سر جاتا ہے،استاد محترم صرف اکیڈمک ہی نہیں بلکہ سماجی اور تعلیمی اداروں سے جڑ کر بھی قوم کی خدمت انجام دیتے رہے تھے چنانچہ وفات کے وقت مشہورادارہ انسٹیٹیوٹ آف آبجیکٹو اسٹڈیز کے مالیاتی سیکریٹری کی ذمہ داریاں بھی آپ سنبھال رہے تھے۔

استاد محترم سے میری پہلی ملاقات 2008 جولائ میں اس وقت ہوئی جب دیوبند سے تعلیمی مراحل پورے کرنے کے بعد مزید تعلیم کے لئے جامعہ ہمدرد یونیورسٹی دہلی آیا، ابتدائی چند ماہ ڈیپارٹمنٹ اور یونیورسٹی کے ماحول کو سمجھنے میں نکل گئے، اسکے بعد آپ سے کلاس اور باہر استفادہ کا ایک سلسلہ شروع ہواجو آپ کے انتقال تک برقرار رہا، کبھی بھی کوئی مسئلہ یا پریشانی لاحق ہوتی، آپکی خدمت میں پیش ہوکر اسکا حل تلاش کیاجاتا، استاذ محترم کی شخصیت بہت ہر دلعزیزتھی، آپ اپنے طلباء کو اولاد کی طرح عزیز رکھتے تھے، کوئی بھی طالب علم اپنے کسی بھی مسئلہ یا پریشانی کو آپ سے شئر کرکے مطمئن ہوجاتا تھا، آپ کے مخلصانہ اور مشفقانہ برتاؤ کا ہی نتیجہ تھا کہ طالبات اور استانیاں بھی اپنی پریشانی اورمسائل میں استاذ محترم سے رجوع کرتی تھی، جنکا کچھ نہ کچھ حل ضرور نکالتے تھے۔

 آپ بہت ہی ملنسار خوش اخلاق، خوش گفتار شخصیت کے مالک تھے، مہمان نواز تھے جب بھی آپکے چیمبر میں جانا ہوا بنا چائےکے واپسی نہیں ہوئی ، انداز گفتگو بالکل دوستانہ تھا جب بھی ملتے "یار" کہہ کے مخاطب کرتے، اس بے تکلفی سے گفتگو کرتے کہ سینہ فخر سے چوڑا ہوجاتا،

کتابوں اور لکھنے پڑھنے سے بلا کی دلچسپی تھی، مطالعہ میں ایسی گہرائی تھی کہ کسی بھی مجلس میں حاضرین کی توجہ استاذ محترم کی طرف رہتی ،جس موضوع پر گفتگو کرتے حق ادا کر تے، احقاق حق آپکا وطیرہ تھا، حق بات کہنے سے کہیں نہیں چوکتے تھے، پھر یہی حق گوئی استاذ محترم کےلئے کافی پریشانی کا باعث بھی بنی نتیجتاً آپکو جبری سبکدوشی بھی اختیار کرنا پڑی، مگر کہتے ہیں نا کہ حق ہمیشہ سرخ رو ہوتا ہے، آپ کے ساتھ بھی یہی ہوا انتقال سے پہلے بتلا رہے تھے کہ جلد ہی دوبارہ جامعہ ہمدرد جوائن کرونگا مگر اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا جوائن کرنے کے ایک دو دن پہلے طبیعت ناساز ہوئ جسکے نتیجہ میں ہاسپٹل منتقل ہوگئے اور پھر وہیں سے ملک عدم کو روانہ ہوگئے۔

 آپ کے ساتھ تقریباً 13 سال پر محیط ایک طویل تعلق رہا، اس عرصہ میں کبھی بھی ناگواری کا احساس آپکی پیشانی پر نہیں دیکھا، جب بھی ملے خندہ پیشانی کے ساتھ مسکراتے ہوئے ملے، جامعہ ہمدرد چھوڑ نے کے بعد اکثر فون کرکے بلایا کرتے تھے اور گھنٹوں بیٹھ کر باتیں ہوا کرتیں تھیں، سن 2011 کی بات ہے جب میں نے یوجی سی نیٹ کا امتحان پاس کیا مگر (صدر شعبہ کی نا انصافی) پی ایچ ڈی میں داخلہ نہ ہوسکا اس وقت بہت زیادہ افسوس فرمایا کرتے تھے کہ میں تمہاری کوئی مدد نہیں کرسکا، اسکے بعد 2012 میں پھر نیٹ کا امتحان پاس کیا اور داخلہ کے لئے پھر سے ایپلائ کیا مگر پھر وہی (صدر شعبہ کی ناانصافی ) کہ داخلہ نہ ہوسکا، اس موقعہ سے آپنے برملا کہا کہ کچھ دن مجھ سے ملنا جلنا چھوڑ دو داخلہ ہوجائیگا لیکن میں ایسا نہ کر سکا (اس واقعہ سے عصری جامعات میں طلباء کے استحصال کا بھی اندازہ ہوتا ہے) پھر میں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں بھی داخلہ کی کوشش کی مگر وہاں کا حال تو بس الامان والحفیظ، لیکن خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا، میں نے ایم بی اے میں داخلہ لیا اور پھر اسی سبجیکٹ پر ریسرچ شروع کی جو عنقریب مکمل ہوجائیگی، اس واقعہ سے استاذ محترم بہت خوش ہوتے تھے اور کہتے کہ چلو 1،2 سال کا نقصان تو ہوا مگر اسکا نتیجہ بہت بہتر نکلا۔

اسی طرح جب استاذ محترم کی کتاب کی پرنٹنگ کا معاملہ چل رہا تھا اسکے لئے بار بار پبلشر کے یہاں جانا ہوتا تھا، ساتھ میں کبھی ڈاکٹر ظہور وانی کبھی ڈاکٹر کفایت اللہ ہوتے تھے، جانے سے پہلے کھانے پینے کے لیے اچھی خاصی رقم ضرور دیتے تھے، میں نے بہت سارے اساتذہ کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کئے مگر جو خوبیاں اور حسن سلوک استاذ محترم کا طلباء وطالبات کے ساتھ دیکھا اسکی مثال ناممکن تو نہیں البتہ مشکل ضرور ہے، یہی وجہ ہے کہ استاد محترم تمام طلباء کے درمیان یکساں مقبول تھے، لکھنے کو تو بہت کچھ ہے لیکن اسی پر بس کرتا ہوں کہ

رہنے کو سدا دہر میں آتا نہیں کوئی

تم جیسے گئے ایسے بھی جاتا نہیں کوئ

اللہ تعالیٰ استاد محترم کے درجات بلند فرمائے آمین ثم آمین یا رب العالمین

محمد خلیق رحمانی( مقیم دیلی)

(لیکچرار ڈپارٹمنٹ آف بینکنگ مینیجمینٹ)

جی آئی اکیڈمی دیوبند

اورسرچ اسکالر اسکول آف بزنیس اسٹڈیز موناڈ یونیورسٹی (این سی آر)


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے