مہتمم صاحب کا تقویٰ

 سراج الدین
 کانٹھ مراداباد یوپی
عصر کی نماز سے فراغت کے بعد حضرت مولانا مفتی ابو القاسم صاحب نعمانی دامت برکاتہم العالیہ مہتمم وشیخ الحدیث دار العلوم دیوبند سے ملاقات کا شرف بھی حاصل ہوا ،اور مختصر سے وقت کے لئے حضرتِ والا کی قیامگاہ( مہمان خانہ کی فوقانی منزل) جانا میسر ہوا ، تو دیکھا : ایک طالبعلم ہے جو حضرت والاکے کپڑوں پر استری کرکے حضرت کو واپس کرنے آیا ہوا تھا،اور حضرت اس کو کسی غلط بات پر نصیحت فرمارہے تھے، اور یہ طالبعلم اس میں کچھ حیلے بہانے کرکے اس کو صحیح ٹھرانے کی ناکام کوشش کرہا تھا ، مگر حضرت نے مزید گفتگو سے اس کو اس کا قائل کیا ۔ بات در اصل یہ تھی کہ یہ طالبعلم ، کسی مسجد میں قیام پذیر تھا اور مسجد کے حجرے یا مسجد ہی کے اندر بجلی کی پریس کے ذریعہ حضرت کے کپڑوں پہ استری کرکے لاتا تھا ، جس کی خبر کسی طرح حضرت کو مل گئی ،تو حضرت نے اس سے فرمایا: کہ آئندہ ایسا نہ کرنا بلکہ ہمارا تو دھوبی لگا ہوا ہے بس وہی استری کرکے لادیا کریگا ۔ اس پر وہ طالبعلم یہ کہنے لگا کہ حضرت! مسجد کے متولّی نے اجازت دیدی ہے تو اس لئے میں کرلیتا ہوں ۔ حضرت نے فرمایا : ہاں تو بس اب مت کرنا ۔ یہ طالبعلم پھر کہنے لگا کہ حضرت ! متولی نے اجازت دیدی ہے تب بھی ؟ ( یاد رہے کہ طالبعلم شاید چھوٹی جماعت کا رہا ہوگا اور عمر میں بھی 16 ۔17 سال کا محسوس ہورہاتھا اور غیر صوبائی تھا ) تب حضرت نے مزید فرمایا : بیٹے ! کوئی متولی مسجد کا مالک نہیں ہوتا ہے، جو اس کی اجازت کے بعد یہ جائز ہوجائے، دریں اثنا حضرت نے اپنی جیب سے 1000 روپئے نکالکر اس طالبعلم کو یہ کہکر دئے، کہ یہ ہماری طرف سے مسجد میں چندہ دیدینا ! اور مزید حضرت نے فرمایا: کہ اسی طرح مدرسہ کا مہتمم مدرسہ کا مالک نہیں ہوتا، مگر آج مدرسہ والے بھی احتیاط نہیں رکھتے، مدرسہ کی بہت سی چیزوں کو اپنےذاتی اور خانگی امور میں استعمال کرتے پھرتے ہیں، اور نام لیکر کہا : کہ مدرسہ کی گاڑی ہوتی ہے اور اس کو مہتمم صاحب اپنے استعمال میں لاتے ہیں؟ یہ جائز نہیں ہے ۔ اور مزید فرمایا: کہ ہمارے دارالعلوم میں دارالعلوم کی کوئی سواری گاڑی نہیں ہے، شوریٰ نے بھی کئی مرتبہ پاس کردیا ہے اور کہدیا ہے، کہ آپ کوئی اچھی سے گاڑی لے لو ! مگر میں نے نہیں لی، اور نہ لونگا ان شاء اللہ ۔ فرمایا: ہمیں کہیں جانا ہو، یا کسی اور استاذ کو، توکرائے کی گاڑی لیکر جاتے ہیں ۔ فرمایا: ابھی بھی دہلی سے آرہاہوں، کرائے کی گاڑی سے گیا تھا ۔ اس ضمن میں مظاہر علوم سہارنپور کا ایک واقعہ سنایا : کہ ایک استاذ کسی عذر میں ایسے مبتلا ہوگئے کہ پڑھانے سے قاصر ہوگئے ،تو اربابِ مدرسہ نے اُس زمانے میں نہ پڑھانے کی صورت میں بھی، اُن کا مشاہرہ 15 روپئے مقرّر کردیا، لیکن حضرت تھانویؒ مدرسہ کے سرپرست تھے، تو حضرتؒ نے اس کو یہ کہکر رُکوادیا، کہ چندہ دہندگان مدرسہ کے ملازمین یا متعلمین کے لئے چندہ دیتے ہیں، نہ کہ کسی معذور کی مددکے لئے ۔ البتہ حضرت تھانویؒ نے فرمایا: کہ مدرسہ سے الگ ہٹ کر انکی مدد کیجائے اور 5 روپئے ماہانہ میں بھی دیاکرونگا، آپ بھی کچھ مقررکرلیں ! ۔۔۔ حضرت مہتمم صاحب مدّ ظلّہ العالی کو سفر کی تکان تھی اور آرام کرنا چاہتے تھے، تو اس لئے جلد ہی یہ مجلس ختم ہوگئی ،اور حضرت اندر جانے لگے ۔ ایک صاحب نے الوداع ہوتے وقت کچھ ہدیہ پیش کیا، تو فرمانے لگے کہ بس یہ رہنے دو ۔۔ مگر ان صاحب نے اِصرار کیا اور یہ عرض کیا: کہ حضرت ! میں اپنے گھر سےجب چلا تھا ، تو یہ نیت کرکے چلا تھا ، اس لئے قبول فرمالیں ! ۔۔ ان کی خوش قسمتی کہ پھر حضرت نے قبول فرمالیا اورہنستے ہوئے فرمایا : کہ دیکھو اللہ کے حکم پر عمل کرنے سے کوئی نقصان نہیں ہوتا ، ہم نے مسجد کو جودیا ہے، اللہ نے اس کا آدھا تو ابھی ہاتھو ہاتھ واپس کردیا ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یقیناٌ ہمارے واسطے اس واقعہ میں عبرت ونصیحت ہے ، اسی لئے راقم نے یہ رقم کیا ہے ۔ حالانکہ کچھ لوگ تو اسپر بھی منفی تبصرے کریں گے، اور کئی افراد تو حضرت مہتمم صاحب کو بھی نہیں چھوڑیں گے ۔ لیکن۔۔۔۔۔۔۔کوئی بات نہیں ، جو ایسا کریں گے وہ اپنا ہی خسارہ کریں گے ،بس خدا ہم سب کو بھی اسی طرح کا تقوی نصیب فرمائے ۔ آمین ثم آمین ۔۔۔۔۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے