امام اعظم ابو حنیفہؒ کی حیات مستعار کے چند درخشاں ‏پہلو ‏ ‏ ‏Some brilliant aspects of the life of Imam Azam Abu Hanifa‏



نام و نسب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

      حضرت امام اعظم ابو حنیفہؒ کا اسم گرامی ”نعمان“ اور کنیت ”ابوحنیفہ“ ہے۔ ولادت ۸۱ ھ ماۂ جمادی الثانی میں عراق کے کوفہ شہر میں ہوئی، ( تقویم تاریخی مولانا عبد القدوس ہاشمی ص ۲۰ )
کوفہ وہ مبارک شہر ہے جسے ستّر اصحابِ بدر اور بیعتِ رضوان میں شریک تین سوصحابۂ  کرام  نےشرفِ قیام بخشا۔ 
آسمانِ ہدایت کے ان چمکتے دمکتے ستاروں نے کوفہ کو علم وعرفان کاعظیم مرکزبنایا۔اسی اہمیت کے پیش نظر اِسے کنز الایمان(ایمان کا خزانہ)اورقبۃُ الاسلام(اسلام کی نشانی) جیسے عظیم الشان القابات سے نوازا گیا۔
جب۸۰ ہجری میں امامِ اعظم ابوحنیفہ  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی ولادت ہوئی تو اس وقت شہرِ کوفہ میں ایسی  ایسی ہستیاں موجود تھیں   جن میں سے ہر ایک آسمانِ علم  پر آفتاب بن کر ایک عالم کو منور کیا۔
       آپ فارسی النسل تھے۔ والد کا نام ثابت تھا، اور آپ کے دادا نعمان بن مرزبان کابل کے اعیان واشراف میں بڑی فہم وفراست کے مالک تھے۔ آپ کے پردادا مرزبان فارس کے ایک علاقہ کے حاکم تھے۔ آپ کے والد حضرت ثابت بچپن میں حضرت علیؓ کی خدمت میں لائے گئے تو حضرت علیؓ نے آپ اور آپ کی اولاد کے لیے برکت کی دعا فرمائی اور دعا اس طرح قبول ہوئی کہ امام ابوحنیفہؒ جیسے عظیم محدث وفقیہ اور عابد و زاہد شخصیت پیدا ہوئی۔

تحصیل علم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آپ نے زندگی کے ابتدائی ایام میں ضروری علم کی تحصیل کے بعد تجارت شروع کی؛ لیکن آپ کی ذہانت کو دیکھتے ہوئے علمِ حدیث کی معروف شخصیت شیخ عامر شعبی کوفیؒ جنہیں پانچ سو سے زیادہ اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کا شرف حاصل ہے- نے آپ کو تجارت چھوڑ کر مزید علمی کمال حاصل کرنے کا مشورہ دیا؛ چنانچہ آپ نے امام شعبیؒ کے مشورہ پر علم کلام، علم حدیث اور علم فقہ کی طرف توجہ فرمائی اور ایسا کمال پیدا کیا کہ علمی وعملی دنیا میں ”امام اعظم“ کہلائے۔ آپ نے کوفہ، بصرہ اور بغداد کے بے شمار شیوخ سے علمی استفادہ کیا اور حصول علم کے لیے مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ اور شام کے متعدد اسفار کئے۔

آپؒ کے متعلق حضورﷺ کی بشارت۔۔۔۔۔۔۔
          
مفسر قرآن شیخ جلال الدین سیوطی شافعی مصریؒ  نے اپنی کتاب ”تبییض الصحیفة فی مناقب الامام ابی حنیفہ رحمة اللہ“ میں بخاری ومسلم ودیگر کتب حدیث میں وارد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال: "اگر ایمان ثریا ستارے کے قریب بھی ہوگا تو اہل فارس میں سے بعض لوگ اس کو حاصل کرلیں گے"۔(بخاری)  "اگر ایمان ثریا ستارے کے پاس بھی ہوگا تواہلِ فارس میں سے ایک شخص اس میں سے اپناحصہ حاصل کرلے گا"۔ (مسلم)  "اگر علم ثریا ستارے پر بھی ہوگا تو اہل فارس میں سے ایک شخص اس کو حاصل کرلے گا۔" (طبرانی) "اگر دین ثریا ستارہ پر بھی معلق ہوگا تو اہل فارس میں سے کچھ لوگ اس کو حاصل کرلیں گے"۔ (طبرانی) ذکر کرنے کے بعد تحریر فرمایا ہے کہ میں کہتا ہوں کہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے امام ابوحنیفہؒ کے بارے میں ان احادیث میں بشارت دی ہے اور یہ احادیث امام صاحب کی بشارت وفضیلت کے بارے میں ایسی صریح ہیں کہ ان پر مکمل اعتماد کیا جاتا ہے۔
 شیخ ابن حجر الہیتمی الشافعی ؒ نے اپنی مشہور ومعروف کتاب "الخیرات الحِسان فی مناقبِ امام أبی حنیفہ" میں تحریر کیا ہے کہ شیخ جلال الدین سیوطیؒ کے بعض تلامذہ نے فرمایا اور جس پر ہمارے مشائخ نے بھی اعتماد کیا ہے کہ ان احادیث کی مراد بلاشبہ امام ابوحنیفہؒ ہیں؛ اس لیے کہ اہلِ فارس میں ان کے معاصرین میں سے کوئی بھی علم کے اس درجہ کو نہیں پہنچا جس پر امام صاحب فائز تھے۔
           ان احادیث کی مراد میں اختلاف رائے ہوسکتا ہے؛ مگر عصرِ قدیم سے عصرِحاضر تک ہر زمانہ کے محدثین وفقہاء وعلماء کی ایک جماعت نے تحریر کیا ہے کہ ان احادیث سے مراد حضرت امام حنیفہؒ ہیں۔ علماء شوافع نے خاص طور پر اس قول کو مدلل کیا ہے، جیساکہ شافعی مکتبہٴ فکر کے دو مشہور جید علماء کے اقوال ذکر کیے گئے۔

حضرت امام ابوحنیفہؒ کی تابعیت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
         
 حافظ ابن حجر عسقلانیؒ( جو فنِ حدیث کے امام شمار کیے جاتے ہیں) ان سے جب امام ابوحنیفہؒ کے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ امام ابوحنیفہ نے صحابہٴ کرامؓ کی ایک جماعت کو پایا ، اس لیے کہ وہ ۸۰ہجری میں کوفہ میں پیدا ہوئے، وہاں صحابہٴ کرامؓ میں سے حضرت عبداللہ بن اوفیؓ موجود تھے، ان کا انتقال اس کے بعد ہوا ہے۔ بصرہ میں حضرت انس بن مالک ؓ تھے اور ان کا انتقال ۹۰ یا ۹۳ہجری میں ہوا ہے۔ ابن سعد ؒ نے اپنی سند سے بیان کیا ہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں کہ کہا جائے کہ امام ابوحنیفہ نے حضرت انس بن مالک کو دیکھا ہے اور وہ طبقہٴ تابعین میں سے ہیں۔ نیز حضرت انس بن مالک  کے علاوہ بھی اس شہر میں دیگر صحابہٴ کرامؓ اس وقت حیات تھے۔
          شیخ محمد بن یوسف صالحی دمشقی شافعیؒ نے "عقود الجمان فی مناقبِ الامام ابی حنیفہؒ"کے نویں باب میں ذکر کیا ہے کہ اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ امام ابوحنیفہ اس زمانہ میں پیدا ہوئے جس میں صحابہٴ کرامؓ کی کثرت تھی۔
          اکثر محدثین (جن میں امام خطیب بغدادی، علامہ نووی، علامہ ابن حجر، علامہ ذہبی، علامہ زین العابدین سخاوی، حافظ ابونعیم اصبہانی، امام دار قطنی، حافظ ابن عبدالبر اور علامہ ابن الجوزی کے نام قابل ذکر ہیں) کا یہی فیصلہ ہے کہ امام ابوحنیفہ نے حضرت انس بن مالک کو دیکھا ہے۔

     محدثین ومحققین کی تشریح کے مطابق صحابی کے لیے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرنا ضروری نہیں ہے؛بلکہ دیکھنا بھی کافی ہے، اسی طرح تابعیت کا معاملہ بھی ہے کہ تابعی کہلانے کے لیے صحابیِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرنا ضروری نہیں ہے؛ بلکہ صحابی کا دیکھنا بھی کافی ہے۔ امام ابوحنیفہؒ نے تو صحابہٴ کرامؓ کی ایک جماعت کو دیکھنے کے علاوہ بعض صحابہٴ کرامؓ خاص کر حضرت انس بن مالکؒ سے احادیث روایت بھی کی ہیں۔
     
        غرضیکہ حضرت امام ابوحنیفہؒ تابعی ہیں اور آپ کا زمانہ صحابہ، تابعین اور تبعِ تابعین کا زمانہ ہے اور یہ وہ زمانہ ہے جس دور کی امانت ودیانت اور تقوی ٰ کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم (سورہٴ التوبہ آیت نمبر ۱۰۰) میں فرمایا ہے۔ نیز نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق یہ بہترین زمانوں میں سے ایک ہے۔ علاوہ ازیں حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات میں ہی حضرت امام ابوحنیفہؒ کے متعلق بشارت دی تھی، جیسا کہ بیان کیا جاچکا، جس سے حضرت امام اعظم ابوحنیفہؒ کی تابعیت اور فضیلت روزِ روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے۔
         
      صحابۂ کرام سے امام ابوحنیفہ ؒ کی روایات۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
         
 امام ابومعشر عبد الکریم بن عبدالصمد طبری مقری شافعیؒ نے ایک رسالہ تحریر فرمایا ہے جس میں انہوں نے امام ابوحنیفہؒ کی مختلف صحابہٴ کرامؓ سے روایات نقل کی ہیں۔ (۱)حضرت انس بن مالکؓ (۲)حضرت عبد اللہ بن جزاء الزبیدیؓ( ۳)حضرت جابر بن عبداللہؓ (۴ )حضرت معقل بن یسارؓ  (۵) حضرت واثلہ بن الاسقعؓ  (۶) حضرت عائشہ بنت عجر ؓ

محدثین کی ایک جماعت نے ۸صحابہٴ کرامؓ سے امام ابوحنیفہؒ کا روایت کرنا ثابت کیا ہے؛ البتہ بعض محدثین نے اس سے اختلاف کیا ہے؛ مگر امام ابوحنیفہؒ کے تابعی ہونے پر جمہور محدثین کا اتفاق ہے۔
   
 امام اعظمؒ کے شب و روز۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    
دن بھر علمِ دین کی اِشاعت، ساری رات عبادت ورِیاضت میں بَسرفرماتے۔آپ نے مسلسل تیس سال روزے رکھے،تیس سال تک ایک رَکعَت میں قراٰنِ پاک خَتْم کرتے رہے، چالیس سال تک عِشاء کے وُضُو سے فجر کی نَماز ادا کی، ہر دن اور رات میں  قراٰن پاک ختم فرماتے، رمضان المبارک میں ۶۲قراٰن ختم فرماتے اور جس مقام پر آپ کی وفات ہوئی اُس مقام پر آپ نے سات ہزار بار قراٰنِ پاک خَتْم کئے۔ 

       آپ نے ۱۵۰۰ درہم خرچ کرکے ایک قیمتی لباس سلوا رکھا تھاجسے آپ روزانہ رات کے وقت زیبِ تن فرماتے اور اس کی حکمت یہ ارشاد فرماتے: اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  کے لئے زِینت اختیار کرنا، لوگوں کے لئے زِینت اختیار کرنے سے بہتر ہے۔رات میں ادا کی جانے والی اِن نمازوں میں خوب اشک باری فرماتے،اس گریہ و زاری کا اثر آپ  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے چہرۂ مبارکہ پر واضح نظر آتا۔   
             
معاشی زندگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
       
اگر آپؒ کی معاشی زندگی کو دیکھا جائے تو  آپ نے حُصُولِ رزقِ حلَال کے لئے تجارت کا پیشہ اختیار فرمایا اور لوگوں سے بھلائی اورشَرعی اُصُولوں کی پاسداری کاعملی مظاہرہ کرکے قیامت تک کےتاجروں کے لئے ایک روشن مثال قائم فرمائی۔

امام ابو حنیفہؒ اور علمِ حدیث۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  
          
   امام ابو حنیفہ ؒ سے احادیث کی روایت کتبِ حدیث میں کثرت سے نہ ہونے کی وجہ سے بعض لوگوں نے یہ تأثر پیش کیا ہے کہ امام ابو حنیفہؒ کی علم حدیث میں مہارت کم تھی؛ حالانکہ غور کریں کہ جس شخص نے صرف بیس سال کی عمر میں علم حدیث پر توجہ دی ہو، جس نے صحابہ، تابعین اور تبع تابعین کا بہترین زمانہ پایا ہو، جس نے صرف ایک یا دو واسطوں سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث سنی ہوں، جس نے حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ جیسے جلیل القدر فقیہ صحابی کے شاگردوں سے ۱۸سال تربیت حاصل کی ہو، جس نے حضرت عمربن عبد العزیز ؒ کا عہدِ خلافت پایا ہو جو تدوینِ حدیث کا سنہرا دور دیکھاہو ، جس نے کوفہ ،بصرہ،بغداد،مکہ مکرمہ،مدینہ منورہ اور ملک شام کے ایسے اساتذہ سے احادیث پڑھی ہو جو اپنے زمانے کے بڑے بڑے محدث تھے، جس نے قرآن وحدیث کی روشنی میں ہزاروں مسائل کا استنباط کیا ہو، قرآن وحدیث کی روشنی میں کیے گئے جس کے فیصلے کو تقریباً ہزار سال کے عرصہ سے زیادہ امت مسلمہ نیز بڑے بڑے علماء ومحدثین ومفسرین تسلیم کرتے چلے آئے ہوں ، جس نے فقہ کی تدوین میں اہم رول ادا کیاہو، جو صحابیِ رسول حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کا علمی وارث بناہو، جس نے حضرت عبداللہ بن عباسؓ، حضرت عبداللہ بن عمرؓ اور حضرت عبداللہ بن مسعودؓ جیسے فقہاء صحابہؓ کے شاگردوں سے علمی استفادہ کیا ہو، جس کے تلامذہ بڑے بڑے محدث ،فقیہ اور امامِ وقت بنے ہوں تو اس کے متعلق ایسا تأثر پیش کرنا صرف اور صرف بغض وعناد اور علم کی کمی کا نتیجہ ہے۔ یہ ایسا ہی ہے کہ کوئی شخص حضرت ابوبکرصدیقؓ حضرت عمر فاروقؓ اور حضرت عثمان غنی ؓکے متعلق کہے کہ ان کو علمِ حدیث سے معرفت کم تھی؛ کیونکہ ان سے گنتی کی چند احادیث‘ کتبِ احادیث میں مروی ہیں؛ حالانکہ ان حضرات کا کثرتِ روایت سے اجتناب دوسرے اسباب کی وجہ سے تھا، جس کی تفصیلات کتابوں میں موجود ہیں۔ غرضیکہ امام ابوحنیفؒہ فقیہ ہونے کے ساتھ ساتھ عظیم محدث بھی تھے ۔

  علمِ فقہ  کی تدوین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
 
ابوابِ فقہ کی ترتیب اور دنیا بھر میں  فقہ حنفی کی پذیرائی آپ کی خصوصیات میں شامل ہے، آپ نے درس و تدریس کے 30سالہ دور میں  تقریباً ایک لاکھ شاگرد چھوڑے، جن میں سے سات سو سے  آٹھ سو ایسے شاگرد ہوئے جو دنیائے اسلام کے مختلف علاقوں میں پہنچ گئے اورانہوں نے درس و افتاء کے سلسلے قائم کیے اور آپؒ ہی کے شاگردوں میں سے تقریباً ۵۰ کے قریب ایسے اشخاص پیدا ہوئےجو سلطنت عباسیہ میں قاضی منتخب ہوئے۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ کے فقہ حنفیہ عباسی، سلجوقی، عثمانی اور مغلیہ دور میں ریاست کا قانون رہا اور آج بھی چین سے لیکر ترکی اور دیگر ممالک میں اربوں لوگوں کا فقہ حنفیہ ہی سے تعلق ہے۔    

      تدوین فقہ اور اجتہاد و استنباط کے اصول و ضوابط بھی فقہاء احناف کے مرحونِ منت ہیں۔ فقہ حنفی کا کوئی مسئلہ بحث و نظرکے بغیر منظر عام پر نہیں آیا، بعد کے آنے والے فقہاء نے فقہ حنفی کے اصول و ضوابط سے استفادہ کیا ہے اور یہ سلسلہ آج تک جاری و ساری ہے۔ امام اعظم نعمان بن ثابت ابو حنیفہ رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ کے انہی کارناموں کی بناء پر انہیں "امام اعظم" کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے ۔
شیوخ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
   امام ابوحنیفہؒ نے تقریباً چار ہزار مشائخ سے علم حاصل کیا، خود امام ابوحنیفہؒ کا قول ہے کہ میں نے کوفہ وبصرہ کا کوئی ایسا محدث نہیں چھوڑا جس سے میں نے علمی استفادہ نہ کیا ہو

         امام ابوحنیفہؒ کے چند اہم اساتذہ حسب ذیل ہیں:
شیخ حمادؒ،  شہر کوفہ کے امام وفقیہ شیخ حماد ؒ حضرت انس بن مالکؓ کے سب سے قریب اور معتمد شاگرد ہیں، امام ابوحنیفہؒ ان کی صحبت میں ۱۸ سال رہے۔ ۱۲۰ ہجری میں شیخ حماد ؒکے انتقال کے بعد امام ابوحنیفہؒ ہی ان کی مسند پر فائز ہوئے۔ شیخ حمادؒ مشہور ومعروف محدث وتابعی شیخ ابراہیم نخعیؒ کے بھی خصوصی شاگرد ہیں۔ علاوہ ازیں شیخ حمادؓ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے علمی وارث اور نائب بھی شمار کیے جاتے ہیں۔
        
         امام ابوحنیفہؒ کی دوسری بڑی درس گاہ ”شہر بصرہ“ تھی جو امام المحدثین شیخ حسن بصریؒ کے علومِ حدیث سے مالا مال تھی؛ یہاں بھی امام ابوحنیفہؒ  علمِ حدیث سے خوب سیراب ہوے۔
دوسرے استاذ شیخ عطا ہے، آپ سے  سے بھی امام ابوحنیفہؒ نے مکہ مکرمہ میں بھرپور استفادہ کیا۔ شیخ عطا بن ابی رباحؒ نے بے شمار صحابہٴ کرامؓ خاص کر حضرت عائشہؓ، حضرت ابوہریرہؓ، حضرت ام سلمہؓ،حضرت عبداللہ بن عباسؓ، حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے استفادہ کیا تھا۔ شیخ عطاء بن ابی رباحؒ صحابی رسول حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کے خصوصی شاگرد ہیں۔
نیز اس کے علاوہ شیخ عکرمہ،اسی طرح 
مدینہ منورہ کے فقہاءِ سبعہ میں سے حضرت سلیمانؒ اور حضرت سالم بن عبداللہ بن عمرؒ سے امام ابوحنیفہؒ نے احادیث کی سماعت کی ہے۔ یہ ساتوں فقہاء مشہور ومعروف تابعین تھے۔
 
حجِ بیت اللہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
دیگر محدثین کے طرز پر امام ابوحنیفہؒ نے احادیث کی سماعت کے لیے حج کے اسفار کا بھرپور استعمال کیا؛ چنانچہ آپ نے تقریباً ۵۵ حج ادا کیے۔ حج کی ادائیگی سے قبل وبعد مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں قیام فرماکر قرآن وسنت کو سمجھنے اور سمجھانے میں وافر وقت لگایا۔ بنوامیہ کے آخری عہد میں جب امام ابوحنیفہؒ کا حکمرانوں سے اختلاف ہوگیا تھا تو امام ابوحنیفہؒ نے تقریباً ۷ سال مکہ مکرمہ میں مقیم رہ کر تعلیم وتعلم کے سلسلہ کو جاری رکھا۔

تلامذہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
       
حضرت امام ابوحنیفہؒ کے تلامذہ کی تعداد بے شمار ہیں جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ امام ابوحنیفہؒ کے درس کا حلقہ اتنا وسیع تھا کہ خلیفہٴ وقت کی حدودِ حکومت اس سے زیادہ وسیع نہ تھیں۔ سیکڑوں علماء ومحدثین نے آپ سے علمی استفادہ حاصل کیا، آپ کےمشہور شاگردوں میں  قاضی ابویوسفؒ، امام محمد بن حسن الشیبانیؒ، امام زفر بن ہذیلؒ، امام یحییٰ بن سعید القطانؒ، امام یحییٰ بن زکریاؒ، محدث عبد اللہ بن مبارکؒ، امام وکیع بن الجراحؒ، اور امام داوٴد الطائیؒ وغیرہ قابل ذکر ہیں ۔

آپ کی مقبولیت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لاکھوں شافعیوں کے امام حضرت سیّدنا امام شافِعی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ  نےبغداد میں قیام کےدوران ایک معمول کا ذکر یوں فرمایا: میں امام ابو حنیفہ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ سےبرکت حاصِل کرتا ہوں، جب کوئی حاجت پیش آتی ہے تو دو رَکعَت پڑھ کر ان کی قَبْرِ مبارک کے پاس آتا ہوں اور اُس کے پاس اللہ  عَزَّ وَجَلَّ سے دُعا کرتا ہوں تو میری حاجت جلد پوری ہو جاتی ہے۔آج بھی بغداد شریف میں آپ کا مزار فائضُ الاَنْوار و مَرجَعِ خَلائِق ہے۔

 خطیب بغدادی نے امام شافعی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ سے روایت کی ہے کہ امام مالک بن انس رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ سے معلوم کیا گیا کہ آپؒ نے امام اعظم ابو حنفیہؒ کو دیکھا ہے؟ فرمایا: جی ہاں! میں نے ان کو ایسا پایا کہ اگر وہ اس ستون کے متعلق تم سے دعویٰ کرتے کہ یہ سونے کا ہے تو اس کو حجت سے ثابت کردیتے۔ امام مالکؒ نے امام شافعیؒ سے یہ بھی فرمایا کہ میں نے ان جیسا کسی کو نہیں پایا ۔

شہادت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خلافتِ بنو امیہ کے آخری دور میں حضرت امام ابو حنیفہؒ کا حکمرانوں سے اختلاف ہوگیا تھا، جس کی وجہ سے آپ مکہ مکرمہ چلے گئے اور وہیں سات سال رہے۔ خلافت بنو عباس کے قیام کے بعد آپ پھر کوفہ تشریف لے آئے۔ عباسی خلیفہ ابوجعفر منصور حکومت کی مضبوطی اور پائیداری کے لیے امام ابوحنیفہؒ کی تایید ونصرت چاہتا تھا، جس کے لیے اس نے ملک کا خاص عہدہ پیش کیا؛ مگر آپ نے حکومتی معاملات میں دخل اندازی سے معذرت چاہی؛ کیونکہ حکمرانوں کے اغراض ومقاصد سے امام ابوحنیفہ ؒ اچھی طرح واقف تھے۔ اسی وجہ سے ۱۴۶ہجری میں آپ کو جیل میں قید کردیا گیا؛ لیکن جیل میں بھی آپ کی مقبولیت میں کمی نہیں آئی اور وہاں بھی آپ نے قرآن وحدیث اور فقہ کی تعلیم جاری رکھی؛ چنانچہ امام محمدؒ نے امام ابوحنیفہؒ سے جیل میں ہی تعلیم حاصل کی۔ حکمرانوں نے اس پر ہی بس نہیں کیا؛ بلکہ روزانہ ۲۰ کوڑوں کی سزا بھی مقرر کی ۔ غرضیکہ ماہ رجب  ۱۵۰ہجری میں آپ کو عہدئہ قضا قبول نہ کرنے کے پاداش میں زہر دیکر شہید کر دیا گیا۔ (انا للہ و انا الیہ راجعون ) 

        ذھب الفقہ فلا فقہ لکم
       فاتقوااللہ وکونوا خلافا
       مات نعمان فمن ھذا الذی
        یحی اللیل اذا ماسجفا
      
وفات کے بعد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 حضرت امام ابوحنیفہؒ کے انتقال کے بعد آپ کے شاگردوں نے حضرت امام ابوحنیفہ ؒ کے قرآن وحدیث وفقہ کے دروس کو کتابی شکل دے کر ان کے علم کے نفع کو بہت عام کردیا،خاص کر جب آپ کے شاگرد قاضی ابویوسف عباسی حکومت میں قاضی القضاة کے عہدہ پر فائز ہوئے تو انہوں نے قرآن وحدیث کی روشنی میں امام ابوحنیفہؒ کے فیصلوں سے حکومتی سطح پر عوام کو متعارف کرایا؛ چنانچہ چند ہی سالوں میں فقہ حنفی دنیا کے کونے کونے میں رائج ہوگیا اور اس کے بعد یہ سلسلہ برابر جاری رہا حتی کہ عباسی وعثمانی حکومت میں مذہب ابی حنیفہؒ کو سرکاری حیثیت دے دی گئی؛ چنانچہ آج ۱۴۰۰ سال گزرجانے کے بعد بھی تقریباً ۷۵ فیصد امت مسلمہ اس پر عمل پیرا ہے اور اب تک امت مسلمہ کی اکثریت امام ابوحنیفہؒ کی قرآن وحدیث کی تفسیر وتشریح اور وضاحت و بیان پر ہی عمل کرتی چلی آرہی ہے۔

اختتامیہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
   
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اللہ تعالی حضرت امام اعظم ابو حنیفہؒ کے درجات کو بلند فرمائے، آپ کی جملہ خدمات کو شرف قبولیت نوازے،اور اللہ تعالی ہمیں بھی آپ کے علوم سے خوب استفادہ کی توفیق عطا فرمائے، اور آپ جیسی فقاہت و بصارت نصیب فرمائے ۔
          آمین یا رب العالمین 

سفیان بلساڑی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے