مرزا قادیانی کا جانشین اول ‏Mirza Qadiani's first successor‏


کتبہ:  ✍️  خالد محمود ۔ کراچی ۔ 

رئیس قادیان میں حکیم نور الدین کا تعارف کچھ اس طرح سے ہے، کہ: 
نور الدین جو مرزا غلام احمد صاحب کے انتقال کے بعد ان کے جانشین اول منتخب ہوئے تھے، قصبہ بھیرہ ضلع شاہ پور (سرگودھا) کے رہنے والے تھے، علوم عربیہ کی تحصیل ریاست رام پور میں کی تھی، وہاں سے فراغت پاکر لکھنؤ گئے، اور حکیم علی حسن کے پاس رہ کر طب کی تکمیل کی، کچھ عرصہ مکہ معظمہ میں مولانا رحمت اللہ مہاجر (یہ وہی حضرت مولانا رحمت اللہ کیرانوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ ہیں، جنھوں نے رد عیسائیت پر گراں قدر تصنیفات لکھیں، ناقل) کی خدمت میں اور مدینہ منورہ میں مولانا شاہ عبدالغنی صاحب نقشبندی مجددی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس رہے، لیکن ایسے ایسے اکابر کی صحبت اٹھانے کے باوجود طبیعت آزادی کی طرف مائل تھی، اس لیے حنفیت پر قائم نہ رہے، پہلے اہلحدیث بنے، لیکن اس سے بھی جلد سیر ہوگئے، ان دنوں ہندوستان کی فضاء نیچریت کے ہنگاموں سے گونج رہی تھی، چاہا کہ اس گلشن آزادی کی بھی سیر کر دیکھیں، سر سید احمد خاں کی کتابوں اور رسالوں کا مطالعہ شروع کیا، یہ مسلک پسند آیا اور اسی کی جلوہ گری شروع کر دی،
نیز یہ کہ: 
حکیم نور الدین سرسید احمد خاں کے بڑے راسخ العقیدہ مرید تھے، ان کو روپیہ بھیجا کرتے، اور ان کی تائید میں مضامین شائع کرکے قلمی معاونت کرتے تھے، جن دنوں مرزا غلام احمد صاحب سے حکیم نور الدین کی ملاقات ہوئی ہے، ان ایام میں حکیم صاحب پکے نیچری تھے۔
(رئیس قادیاں، ص، ١٤٤و ١٤٥)
اب اسی کتاب رئیس قادیاں کے صفحہ ٣٠١ پر سر سید احمد خاں کے حوالے سے یہ سطور موجود ہیں، کہ: 
سر سید ہی وہ بزرگ ہیں، جنھوں نے ہندوستان میں سب سے پہلے وفات مسیح علیہ السلام کی رٹ لگائی تھی۔
اس سے میرے قارئین بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں، 
کہ قادیانی / مرزائی وفات مسیح علیہ السلام کے خود ساختہ عقیدہ میں کیوں جکڑے رہتے ہیں، کیونکہ اس حوالے سے مرزا قادیانی کی ذہن سازی کرنے میں سر سید احمد خاں اور حکیم نور الدین کا بڑا اہم کردار تھا، ورنہ مرزا قادیانی خود تو ایک غبی اور مخبوط الحواس شخص تھا۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے