چھے اور برے لوگ ‏ ‏ ‏ ‏ ‏Good and bad people


 خلیل الرحمن قاسمی برنی
9611021347

امیر المؤمنین فی الحدیث حضرت امام بخاریؒ نے ’’الادب المفرد‘‘ میں حضرت اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا سے ایک روایت نقل فرمائ ہے جس میں فخر دوعالم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اچھے اور برے مسلمانوں کی علامات بیان فرمائی ہیں ۔
حضرت اسماء بنت یزیدؓ انصاریہ خاتون ہیں، مشہور صحابیات میں ان کا شمار ہے. اور ان کا لقب خطیبۃ الانصار بیان کیا جاتاہے۔ بہترین واعظہ اور بڑی خطیبہ تھیں - عوتوں میں وعظ فرمایا کرتی تھیں۔ 
حضرت اسماءؓ فرماتی ہیں کہ ایک دن جناب رسول اللہؐ نے فرمایا اَلا اُخبرکم بخیارکم کہ کیا میں تمہیں تمہارے اچھے لوگوں کے بارے میں نہ بتاؤں؟ صحابہؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ! ضرور آگاہ فرمائیں۔ رسالت مآب فداہ ابی امی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: الذین اذا رأوا ذکر اللّٰہ وہ لوگ جنہیں دیکھا جائے تو خدا یاد آجائے۔ یعنی جن لوگوں کو دیکھ کر خدا یاد آئے وہ تم میں سے اچھے لوگ ہیں۔
 اس کی تشریح دو طرح سے بیان کی جاتی ہے -ایک یہ کہ وہ اللہ تعالیٰ کے نیک اور صالح بندے جن کی نیکی .عبادت، اور تقویٰ کے آثار ان کے چہروں پر نور کی صورت میں دکھائی دیتے ہیں اور انہیں دیکھ کر دل میں خیال آتا ہے کہ اس قدر با رونق اور پر نور چہرہ کسی اللہ والے کا ہی ہو سکتا ہے۔
عام طور پر انسان کے اندر کی کیفیات کا اس کے چہرے سے اندازہ ہو جاتا ہے اور چہرہ انسان کی باطنی حالت کا عکاس ہوتا ہے۔ غصہ ہو یا خوشی، غم ہو یا راحت، ناراضگی ہو یا رضا مندی، انسان کے چہرے سے اس کا پتہ چل جاتا ہے۔ اسی طرح انسان کے نیک اعمال اور برے اعمال کے اثرات بھی چہرے سے ظاہر ہوتے ہیں۔ ایک مشہور اور صحیح روایت کے مطابق آنحضرتؐ نے اپنے ایک خواب کا منظر بیان فرمایا کہ میں نے ایسے لوگوں کا ایک ہجوم دیکھا جن کے چہروں کی کیفیت یہ تھی کہ چہرے کا نصف حصہ خوبصورت اور باقی نصف حصہ بد صورت تھا۔ فرشتوں سے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ یہ آپ کی امت کے وہ لوگ ہیں جو  اچھے اور برے اعمال خلط ملط کرتے رہے ہیں۔ اعمال صالحہ بھی انہوں نے کیے ہیں اور اعمال سیۂ میں بھی پیچھے نہیں رہے۔ ان کے نیک اعمال ان کے چہروں پر حسن کی صورت میں نظر آرہے ہیں اور برے اعمال چہروں پر بد صورتی کے طور پر نمایاں ہیں۔ اس سے یہ بات سمجھی جاسکتی ہے کہ اس دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ کے نیک اور مخلص بندوں کے چہروں پر ان کے خلوص اور نیک اعمال کا نور ہوتا ہے اور ان کے بارونق اور نورانی چہروں کو دیکھ کر خدا کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔
اس کی دوسری تشریح اس طرح بیان  کی جاتی ہے کہ وہ لوگ جن کے اعمال و حرکات، ان کا اٹھنا بیٹھنا، لین دین، عبادات و معمولات اور اخلاق و معاملات اللہ تعالیٰ اور رسولؐ خدا کے احکام کے مطابق ہوتے ہیں۔ انہیں دیکھ کر ایک مسلمان کی عملی زندگی کا نقشہ سامنے آجاتا ہے اور خدا یاد آتا ہے۔ بہر حال آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ تم میں سے اچھے لوگ وہ ہیں جنہیں دیکھ کر خدا یا د آجائے۔
پھر فرمایا ألا أخبرکم بشرارکم؟ کیا میں تمہیں تمہارے برے لوگوں کے بارے میں نہ بتاؤں؟ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا بلٰی یا رسول اللّٰہ! ضرور بیان فرمائیں۔ آپؐ نے فرمایا: المشاؤون بالنمیمۃ، المفسدون بین الأحبۃ، الباغون البراء العنت۔ آپؐ نے تین باتوں کا ذکر فرمایا۔
1) المشاؤون بالنمیمۃ چغلیاں کھانے والے یعنی ایک دوسرے کی چغلی کرنے والے لوگ۔ چغلی کہتے ہیں ایک دوسرے کو خواہ مخواہ ان کی باتیں پہنچانا ۔ لگائ بجھائ کرنا-آج کل ہمارے یہاں یہ مرض بہت عام ہوگیا ہے. اس نے ایک رواج کی شکل اختیار کرلی ہے. اور ہم میں سے بہت سے لوگوں کی یہ عادت بن گئی ہے کہ بلا وجہ یہاں کی وہاں اور وہاں کی یہاں بات پہنچاتے رہتے ہیں اور احساس تک نہیں ہوتا کہ ہم کتنے بڑے گناہ کے مرتکب ہورہےہیں -لوگوں کو یہ بتاتے رہتے ہیں کہ فلاں تمہارے بارے میں یہ کہہ رہا تھا اور فلاں جگہ تمہارے بارے میں یہ باتیں ہو رہی تھیں۔ بلا ضرورت ایسی بات کرنا شرعاً گناہ کبیرہ شمار کیا جاتا ہے لیکن ہمارے ہاں سرے سے اس کو گناہ ہی نہیں سمجھا جاتا۔ حالانکہ یہ باتیں اکثر جھگڑوں کا باعث بن جاتی ہیں۔ ہمارے معاشرہ میں ہونے والے باہمی تنازعات اور جھگڑوں کی وجوہ تلاش کی جائیں تو اکثر تنازعات کے پس منظر میں کوئی نہ کوئی چغلی کار فرما ہوتی ہے۔  یہ بہت برا عمل ہے اور اسے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے برے لوگوں کی علامت قرار دیا ہے۔ اس حدیث میں المشاءون مبالغہ کا صیغہ ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ جس کا مزاج چغل خوری کا بن جائے وہ اس زمرے میں شمار ہوگا۔
دوسری بات فرمائی المفسدون بین الأحبۃ کہ دوستوں کے درمیان فساد ڈالنے والے برے لوگوں میں شمار ہوتے ہیں۔ یہ بھی ایک معاشرتی بیماری ہے کہ چند دوست اکٹھے محبت و اعتماد کے ساتھ رہ رہے ہیں، کسی کو یہ بات ہضم نہیں ہو تی چنانچہ وہ ان کے درمیان غلط فہمیاں ڈال کر ان کی دوستی کو دشمنی میں بدل دیتا ہے تو جان لینا چاہیے کہ ایسا شخص معاشرہ کا بد ترین شخص ہے ۔ اسی طرح ایک خاندان محبت و اعتماد کے ساتھ زندگی بسر کر رہا ہے اور کوئی شخص دخل دے کر ان کی محبت و اعتماد کی فضا کو خراب کر دیتا ہے تو وہ کوئی اچھا کا م نہیں کر رہا۔ محبت و اعتماد کی فضا خاندانوں میں ہو، دوستوں میں ہو، مشترکہ کام کرنے والوں میں ہو، اس میں فساد ڈالنے والوں کو جناب رسول اللہؐ نے برے لوگوں میں شمار کیا ہے۔
برے لوگوں کی تیسری قسم کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا "الباغون البراء العنت "شریف اور باعزت لوگوں میں عیب تلاش کر کے انہیں بدنام کرنے والے بھی برے لوگ ہوتے ہیں۔ 
یہ بات درست ہے کہ عیب اور کمزوری سے کوئی شخص پاک نہیں ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی ایک صفت ستار العیوب ہے. وہ اپنے فضل و کرم کے ساتھ اکثر لوگوں کے عیوب کا پردہ رکھتے ہیں۔ اب ایک شخص عزت کے ساتھ زندگی بسر کر رہا ہے، لوگ اس کا احترام کرتے ہیں اور اسے اچھا آدمی سمجھتے ہیں لیکن کوئی شخص بلا وجہ اس کی ٹوہ میں رہتا ہے کہ اس کی کوئی کمزوری ہاتھ لگے تو اسے بدنام کروں، اس کا کوئی عیب میرے علم میں آئے تو اس کا پروپیگنڈہ کر کے اس کی عزت کو خراب کروں۔ لوگوں کے عیب تلاش کرنے کے لیے ٹوہ میں رہنا خاص طور پر معزز اور شریف لوگوں کے حالات کا تجسّس کر کے ان کے عیوب ڈھونڈنا اور پھر انہیں منتشرکر کے ان کی بدنامی اور بے عزتی کا باعث بنانا کوئی اچھی صفت نہیں ہے۔ آنحضرتؐ نے ایسا مزاج رکھنے والوں کو برے لوگ قرار دیا ہے۔بڑے افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑھ رہا ہے کہ یہ تینوں خرابیاں آج ہمارے درمیان موجود ہیں اور چونکہ ہم ان کے عادی ہو گئے ہیں، اس لیے ہمیں یہ محسوس نہیں ہوتیں.ان کی ہلاکت خیزی ہماری نگاہوں سے اوجھل ہو گئ ہے اور ہم بلا تکلف یہ حرکتیں کرتے چلے جارہے ہیں۔ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد گرامی کا بار بار مطالعہ کرنا چاہیے، اس پر غور کرنا چاہیے اور پھر اپنے معمولات اور مزاج و عادات پر نظر ڈال کر اپنی کمزوریوں کو محسوس کرتے ہوئے اصلاح کی کوشش کرنی چاہیے۔مکارم اخلاق کو اپنانا چاہیے اور برے اخلاق سے بچنا چاہیے-
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اعمال صالحہ کی توفیق عطا فرمائیں،اورکامل اصلاح فرمائیں آمین یا رب العالمین۔

خلیل الرحمن قاسمی برنی مقیم حال بنگلور 9611021347

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے