جلیل القدر استاذ اورکامل صوفی حضرت مولانااحرارالحق فیض آبادیؒ سابق استاذحدیث دار العلوم دیوبند ‏

 
مفتی خلیل الرحمن قاسمی برنی  بنگلور
9611021347   
احاطہء دارالعلوم میں داخلہ کے بعد جن نفوسِ قدسیہ کو دیکھنے کا شرف حاصل ہوا ان میں ایک عظیم نام حضرت اقدس مولانا احرارالحق صاحب فیض آبادی قدس سرہٗ کا بھی ہے۔آپ علم و معرفت کے جامع اوراخلاق و کردار کے بلند مرتبہ پر فائز ہونے والے جلیل القدر استاذ ومربی تھے۔آپ کا تعلق اکابرو اسلاف کے اس قافلہ سے تھا جن کی یہ خصوصیت اورامتیاز بہت واضح تھا کہ انہوں نے علم و کمال میں بھرپور طریقے سے دسترس حاصل کرنے کے ساتھ،احسان و سلوک اورتصوف کے بھی بلند مقامات حاصل کئے۔اوراس سلسلے میں انہوں نے مسلسل مجاہدے اوربے انتہا محنت کی۔جس سے ان کی زندگی علم و عمل کا حسین سنگم بن گئی. اور پھر انھوں نے اپنے علم و اخلاق اور عمل و کردار کی پاکیزگی کےایسےگہرےاوردوررس ومؤثر نقوش واثرات چھوڑے کہ اس سے ایک عالم فیضیاب ہوا۔
حضرت مولانااحرارالحق صاحب فیض آبادی ؒ ایک مضبوط عالم دین اورعالم آخرت تھے۔ان کو دیکھ کر ایسا لگتاتھا کہ وہ دنیا میں رہ کر آخرت کی زمین پر چلتے ہیں۔وہ طبعی طورپر بے تکلف،سادہ اورزاہد فی الدنیا انسان تھے۔زندگی کا بڑا حصہ تنگی وعسرت میں گذارامگر اللہ رے! وہ اس سے کبھی دل گیر اورپریشان نہیں ہوئے،اورنہ کبھی دنیا بڑھانے کی جدوجہد کی۔ہمیشہ صابروشاکر اورقانع بن کر زندگی گذاری۔
ضلع فیض آباد یوپی کے ایک چھوٹے سے گاؤں ”یکری“ڈاکخانہ التفات گنج میں 1932ء کو آپ پیدا ہوئے۔ابتدائی تعلیم گھر سے دو فرلانگ دور موضع الن پور مدرسہ مصباح العلوم میں ہوئی۔پرائمری درجہئ سوم میں معاشی حالات ہونے کی بناپر تعلیمی سلسلہ منقطع کرکے فکر معاش میں مشغول ہونے اوراس سلسلے میں کافی پریشانیاں اٹھائیں۔اسی روزگار کی تلاش میں آپ نے عروس البلاد بمبئی کا بھی سفر کیا۔ایک مدت کے بعد شوق علم اورجذبہئ طلب نے پھر تحصیل علم کی طرف متوجہ کیا،چنانچہ آپ نے مدرسہ دارالعلوم امدادیہ دوٹانکی میں داخلہ لے کر آمدنامہ سے شرح جامی تک کی تعلیم حاصل کی۔قیام بمبئی کے دوران آپ کو حضرت مولانا قاضی اطہرمبارک پوریؒ سے بھی شرف تلمذ رہا۔1374ھ میں مادرعلمی دارالعلوم دیوبند میں داخل ہوئے اور1378ھ میں سند فراغت حاصل کی۔دارالعلوم دیوبند میں آپ نے جن اساتذہ سے اکتساب فیض کیا ہے وہ سب اپنے وقت کے اساطین علم اورماہرین علوم و فنون تھے۔ان میں سے ہر ایک یکتائے زمانہ اورنادرہء روزگار تھا۔آپ کے قابل احترام اساتذہ کی فہرست میں فخرالمحدثین حضرت مولانافخرالدین احمد صاحبؒ مرادآبادی،فقیہ دوراں حضرت مولانامفتی مہدی حسن صاحب شاہ جہاں پوریؒ،حکیم الاسلام حضرت مولاناقاری محمدطیب صاحبؒ مہتمم دارالعلوم دیوبند اورحضرت علامہ محمد ابراہیم بلیاویؒ کے اسمائے گرامی بطورخاص شامل ہیں۔
دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد چند سال گجرات کے ایک مدرسہ میں تدریسی خدمات انجام دیتے رہے۔بعد ازاں مدرسہ نورالعلوم بہرائچ میں ایک طویل مدت تک درس و تدریس میں مشغول رہے۔اس درمیان کچھ دنوں کے لئے اپنے وطن ٹانڈہ مدرسہ کنزالعلوم،میں بھی تدریسی خدمات انجام دیں،لیکن پھر اہل بہرائچ کے اصرار پر آپ دوبارہ مدرسہ نورالعلوم بہرائچ تشریف لے آئے۔1405ھ میں آپ کا تقررایشیاء کی عظیم دینی درسگاہ ازہر ہند دارالعلوم دیوبند میں ہوا اورآپ بحیثیت مدرس دارالعلوم دیوبند تشریف لے آئے۔مادرعلمی میں آپ کی خدمات کا سلسلہ تقریباً۹/سال رہا۔اس عرصہ میں،مشکوٰۃ المصابیح،شرح نخبۃ الفکر،بیضاوی شریف اوردیگر کئی اہم کتابوں کے اسباق آپ سے متعلق رہے۔آپ ایک کامیاب مدرس تھے،جو پڑھاتے مطالعہ کرکے پڑھاتے اورمحنت سے پڑھاتے۔طلبہ بھی آپ سے مانوس تھے۔احاطہء مولسری میں دارالعلوم کی مسجد قدیم کے خلف میں آپ کا کمرہ تھا۔ہم نے زیادہ تر آپ کو اسی احاطہ میں دیکھا ہے۔موہنی صورت،بھاری بھرکم لیکن پھر تیلا جسم،بڑی بڑی آنکھیں،گول چہرہ،میانہ قد،آواز میں لطافت انداز میں جمال،وضع قطع اورلباس واطوار سے ہی ایک عالم ربانی کا تصور. یہ تھا آپ کا سراپا۔
آپ ایک بافیض استاذ اورتجربہ کا ر عالم دین تھے۔فطرتاً نیک،سیدھے،متواضع اورمنکسرالمزاج انسان تھے۔طبیعت پر زہد غالب تھا۔اس لئے آپ دنیا کی رنگینیوں اوررونق سے کبھی متأثر نہ ہوئے۔تکلف اورتصنع کس بلا کا نام ہے گویا آپ جانتے ہی نہ تھے۔پوری زندگی سادگی اورقناعت کے ساتھ گذاری،علاوہ ازیں آپ ذاکروشاغل اورشب زندہ دارلوگوں میں سے تھے۔فجر سے کافی پہلے اٹھنے کا معمول تھا اس عرصہ میں آپ طویل ذکر فرماتے اورتہجد کی لمبی لمبی رکعتیں پڑھتے۔ورع وتقویٰ میں بھی آپ بے نظیر تھے۔اسلاف کے طرز کے مطابق آپ صرف تعلیم پرہی توجہ نہ دیتے بلکہ تعلیم کے ساتھ تربیت پر بھی توجہ مرکوز رکھتے۔دورانِ درس اوردوسرے موقعوں پر طلبہ اورمتعلقین کو بزرگوں کی صحبت اختیار کرنے کی خاص طورپر تاکید فرماتے تھے۔سنت پر خود بھی عامل تھے اوردوسروں کو بھی ہمیشہ سنتوں پر عمل کی تلقین فرماتے رہے۔آپ کے یہاں اکابر کا عقیدت مندانہ احترام بہت تھا اسی لئے آپ اکابر و اسلاف کا نام بہت عظمت سے لیتے تھے۔بزرگوں کے واقعات بالخصوص شیخ الاسلام حضرت مولاناسید حسین احمد مدنی قدس سرہٗ اورشیخ الحدیث حضرت مولانامحمد زکریا قدس سرہٗ کے واقعات و حالات کو اس شوق و محبت سے سناتے کہ سننے والے تمام ہی حاضر ین اثرلیتے اورآپ بھی آبدیدہ ہوجاتے۔
آپ نے بیعت و اصلاح کا تعلق شیخ الحدیث حضرت مولانامحمد زکریا قدس سرہٗ سے قائم فرمایا اوربڑی محنت سے سلوک و تصوف کے تمام مدارج طے کیے۔بالآخر رمضان 1388ھ میں حضرت شیخ الحدیث نوراللہ مرقدہٗ نے آپ کو اجازت و خلافت سے نوازا۔اسی نسبت کا اثر تھا کہ آپ کے قلب میں دنیا کی محبت نام کو بھی نہیں تھی مزید برآں فکرآخرت اورانابت و خشیت کی کیفیت آپ کے چہرے سے ہی عیاں رہتی۔چوں کہ آپ کا لمبا زمانہ اورطویل عرصہ بہرائچ میں گذرا ہے ۔ اس لئے آپ کے عقیدت مند اورمریدین کی ایک مخلص جماعت وہیں پر تھی۔آپ ان حضرات کی تربیت کے لئے رمضان کا اعتکاف بہرائچ ہی میں فرماتے۔دارالعلوم میں رہتے ہوئے بھی آپ گاہے گاہے تشریف لے جاتے۔آپ کے مریدین اورعقیدت مندوں کی ایک بڑی تعداد تھی،جو شہر بہرائچ اوراطراف و جوانب میں پھیلے ہوئے تھے۔ عمر کے آخری لمحات میں آپ کی توجہ دنیا سے منقطع اورآخرت کی طرف بہت زیادہ مائل ہوگئی تھی۔زبان پر ذکر،دل میں فکراورخدا سے ملاقات کا اشتیاق آپ کی ہراداسے نظرآتا۔پھر وہ گھڑی بھی آہی گئی جس کا آپ کو شدت انتظار تھا یعنی رحلت الی الآخرہ اورمحبوب حقیقی سے ملاقات. جس کے لئے آپ نے پوری زندگی تیاری کی اورقلیل امیدوں اور کم توشہ کے ساتھ زاہدانہ حیات گذار کر دنیا کو یہ پیغام دیتے رہے:
جگہ جی لگانےکی دنیا نہیں ہے یہ عبرت کی جا ہے تماشا نہیں ہے. 18/رمضان1414ھ بروز بدھ آپ کی روح قفس عنصری سے پرواز کرکے رب حقیقی سے جاملی۔جنازہ وطن میں لے جایاگا اوروہیں تدفین عمل میں آئی۔
خدارحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے