طوائف

‏کچھ لڑکیاں سب سے بےنیاز اپنی اداؤں سے سب کو گھائل کرتی مدرسہ عزیزیہ کے سامنے سے گزر رہی تھیں کہ حضرت شاہ محمد اسماعیل رحمہ اللہ کی نظر ان پر پڑ گئی 
 حضرت نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا 
 یہ کون ہیں؟ 
 ساتھیوں نے بتایا 
 یہ طوائفیں ہیں اورکسی ناچ رنگ کی محفل میں جارہی ہیں 
 حضرت شاہ صاحب نےفرمایا 
 اچھا یہ تو بتاؤ کہ یہ کس مذھب سے تعلق رکھتی ہیں؟ 
 انہوں نےبتایا 
 یہ دین اسلام ہی کو بدنام کرنےوالی ہیں،اپنےآپ کو مسلمان کہتی ہیں 
 شاہ صاحب نےجب یہ بات سنی تو فرمایا 
 مان لیا کہ بدعمل اور بدکردار ہی سہی لیکن کلمہ گو ہونےکے ناطےہوئیں تو ہم مسلمانوں‏…کی بہنیں ہیں لہٰذا ہمیں انھیں نصیحت کرنی چاہیے،ممکن ہے گناہ سے باز آجائیں 
 ساتھیوں نےکہا 
 ان پر نصیحت کیاخاک اثر کرے گی؟ انہیں نصیحت کرنےوالا تو الٹا خود بدنام ہو جائے گا 
 شاہ صاحب نےفرمایا 
 تو کیا ہوا؟ میں تو یہ فریضہ ادا کرکے رہوں گا خواہ کوئی کچھ سمجھے 
 ساتھیوں‏ نےعرض کیا 
 حضرت، آپ کا ان کے پاس جانا قرین مصلحت نہیں ہے، آپ کو پتا ہے کہ شہر کےچاروں طرف آپ کےمذہبی مخالفین ہیں جو آپ کو بدنام کرنےکا کوئی موقع نہیں چھوڑتے 
 آپ نے فرمایا 
 مجھےذرہ بھر پروا نہیں، میں انہیں ضرور نصیحت کرنےجاؤں گا 
 اس عزم صمیم کے بعدآپ تبلیغ حق و اصلاح
‏…کا عزم صادق لےکر گھر تشریف لائے، درویشانہ لباس زیب تن کیا اور تن تنہا نائیکہ کی حویلی کےدروازے پر پہنچ کر صدا لگائی 
 اللہ والیو، دروازہ کھولو اور فقیر کی صدا سنو 
 آپ کی آواز سن کر چند لڑکیاں آئیں 
 دروازہ کھولا تو دیکھا باہر درویش صورت بزرگ کھڑا ہے 
 انھوں نے سمجھا کہ‏ 
کوئی گداگر فقیر ہے، سو چند روپے لا کر تھما دیے، لیکن اس نے اندر جانے پر اصرار کیا اور پھر اندر چلے گئے 
 شاہ صاحب نے دیکھا کہ چاروں طرف شمعیں اور قندیلین روشن ہیں،طوائفیں طبلے اور ڈھولک کی تھاپ پر تھرک رہی ہیں، ان کی پازیبوں اور گھنگھروؤں کی جھنکار نے عجیب سماں باندھ رکھا
ہے 
 جونہی نائیکہ کی نگاہ اس فقیر بےنوا پر پڑی اس پر ہیبت طاری ھو گئی 
 وہ جانتی تھی کہ اس کے سامنے فقیرانہ لباس میں گداگر نہیں بلکہ شاہ اسماعیل کھڑے ہیں، جو حضرت شاہ ولی اللہ کے پوتے اور شاہ عبدالعزیز، شاہ رفیع الدین، شاہ عبدالقادر کے بھتیجے ہیں 
 نائیکہ تیزی سے اپنی نشست سے
‏اٹھی اور احترام کے ساتھ ان کے سامنےجا کھڑی ہوئی، بڑے ادب سے عرض کیا 
 حضرت آپ نے ہم سیاہ کاروں کے پاس آنے کی زحمت کیوں کی؟ آپ نے پیغام بھیج دیا ہوتا تو ہم آپ کی خدمت میں حاضر ہو جاتیں 
 آپ نے فرمایا 
 بڑی بی تم نے ساری زندگی لوگوں کو راگ و سرور سنایا ہے، آج کچھ دیر ہم‏…فقیروں کی صدا بھی سن لو 
 جی سنائیے ہم مکمل توجہ کے ساتھ آپ کا بیان سنیں گی 
 یہ کہہ کر اس نے تمام طوائفوں کو پازیبیں اتارنے اور طبلے ڈھولکیاں بند کرکے وعظ سننے کا حکم دے دیا 
 وہ ہمہ تن گوش ہو کر بیٹھ گئیں 
 شاہ اسماعیل (رحمہ اللہ) نے حمائل شریف نکال کر سورۃ التين تلاوت
‏فرمائی، آپ کی تلاوت اس قدر وجد آفریں اور پرسوز تھی کہ طوائفیں بے خود ہو گئیں 
 اس کے بعد آپ نے آیات مبارکہ کا دلنشین رواں ترجمہ بیان فرمایا، یہ خطاب زبان کا کانوں سے خطاب نہ تھا بلکہ یہ دل کا دلوں سے اور روح کا روحوں سے خطاب تھا، یہ خطاب دراصل اس الہام ربانی کا کرشمہ تھا جو
شاہ صاحب جیسے مخلص دردمندوں اور امت مسلمہ کے حقیقی خیرخواہوں کےدلوں پر اترتا ہے 
 جب طوائفوں نےشاہ صاحب کےدلنشین انداز میں سورت کی تشریح سنی تو ان پر لرزہ طاری ہو گیا روتےروتے اُن کی ہچکیاں بندھ گئیں 
 شاہ صاحب نےجب ان کی آنکھوں میں آنسوؤں کی جھڑیاں دیکھیں تو انہوں
نےبیان کا رخ توبہ کی طرف موڑ دیا اور بتایا کہ جو کوئی گناہ کر بیٹھے، پھر اللہ سےاس کی معافی مانگ لےتو اللّٰہ بڑا رحیم ہے، وہ معاف بھی کر دیتا ہےبلکہ اسے تو اپنے گنہگار اور سیاہ کار بندوں کی توبہ سےبےحد خوشی ہوتی ہے 
 آپ نےتوبہ کےاتنے فضائل بیان کیےکہ ان کی سسکیاں بندھ گئیں ‏کسی ذریعےسےشہر والوں کو اس وعظ کی خبر ہو گئی، وہ دوڑےدوڑے آئےاور مکانوں کی چھتوں دیواروں چوکوں اور گلیوں میں کھڑے ہو کر وعظ سننےلگے، تاحدِنگاہ لوگوں کے سر ہی سر نظر آنے لگے 
 شاہ صاحب نےانھیں اٹھ کروضو کرنے اور دو رکعت نوافل ادا کرنےکی ہدایت کی 
 راوی کہتاہےکہ جب وہ وضو
‏…کرکےقبلہ رخ کھڑی ہوئیں اور نماز کےدوران سجدوں میں گریں تو شاہ صاحب نےایک طرف کھڑے ہو کر اللہ کےسامنے ہاتھ پھیلا دیے اور عرض کیا 
 اے مقلب القلوب! اے مصرف الاحوال! میں تیرے حکم کی تعمیل میں اتناکچھ ہی کرسکتا تھا، یہ سجدوں میں پڑی ہیں، تو ان کےدلوں کو پاک کردے، گناہوں کو معاف
‏…کردےاور انہیں آبرومند بنادے تو تیرےلیے کچھ مشکل نہیں،ورنہ تجھ پر کسی کا زور نہیں، میری فریاد تو یہ ہے کہ انھیں ہدایت عطا فرما انھیں نیک بندیوں میں شامل فرما 
 ادھر شاہ صاحب کی دعا ختم ہوئی اور ادھر ان کی نماز... وہ اس حال میں اٹھیں کہ دل پاک ہو چکے تھے! اب شاہ صاحب نے عفت
‏مآب زندگی کی برکات اور نکاح کی فضیلت بیان کرنی شروع کی اور اس موضوع کو اس قدر خوش اُسلوبی سے بیان کیا کہ تمام طوائفیں گناہ کی زندگی پر کفِ افسوس کرنے لگیں اور نکاح پر راضی ہوگئیں 
 چنانچہ ان میں سےجوان عورتوں نے نکاح کرا لیے اور ادھیڑ والیوں نےگھروں میں بیٹھ کر محنت مزدوری
سےگزارا شروع کر دیا  
 کہتے ہیں کہ ان میں سےسب سےزیادہ خوبصورت موتی نامی خاتون کو جب اس کے سابقہ جاننے والوں نےشریفانہ حالت اور سادہ لباس میں مجاہدین کے گھوڑوں کے لیے ہاتھ والی چکی پر دال پیستےدیکھا تو پوچھا 
 وہ زندگی بہتر تھی جس میں تو ریشم و حریر کے ملبوسات میں شاندار
لگتی اور تجھ پر سیم وزر نچھاور ہوتےتھے یا یہ زندگی بہتر ہے جس میں تیرے ہاتھوں پر چھالےپڑےہوئے ہیں؟ 
 کہنے لگی 
 اللہ کی قسم! مجھے گناہ کی زندگی میں کبھی اتنا لطف نہ آیا جتنا مجاہدین کےلیے چکی پر دال دلتےوقت ہاتھوں میں ابھرنے والےچھالوں میں کانٹےچبھو کر پانی نکالنےسےآتا ہے
"تذکرہ الشہید" سےماخوذ اس واقعےکو نقل کرنے کا مقصد صرف آپکو زندگی کے اصل لطف سے آشنا کروانا تھا جو صرف گناہوں سے پاک زندگی میں ہی پوشیدہ ہے 
 یا اللہ، ہمارے دل، ہماری زندگی کو گناہوں سے پاک کرکے پرسکون بنادے اور ہمیں اپنےنیک بندوں میں شامل فرما، آمین

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے