فقہ و حدیث کا بحر بیکراں حضرت مفتی سعید احمد صاحب پالنپوری شیخ الحدیث وصدرالمدرسین دارالعلوم دیوبند ‏

 


مفتی خلیل الرحمن قاسمی برنی
 00919611021347

19/مئی2020ء مطابق 25/رمضان المبارک 1441ھ صبح سویرے سوشل میڈیا کے ذریعہ اطلاع ملی کہ فقہ و حدیث کے بحرناپیداکناراوراما م المعقول والمنقول استاذ محترم حضرت اقدس مفتی سعید احمد صاحب پالنپوری شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند کئی دنوں کی علالت کے بعد دارفانی سے دارباقی کی طرف رحلت فرماگئے۔بے ساختہ زباں پر استرجاع کے کلمات جاری ہوگئے۔آنسووں کا ایک سیل رواں تھا جو رکنے کا نام نہیں لے رہاتھا۔بہت دنوں کے بعد ایسی کیفیت ہوئی کہ کافی دیر تک اپنے آپ کو سنبھالنا مشکل ہورہاتھا۔
                                                                            حضرت الاستاذ ؒ کی وفات پر حسرت کی خبر نے ان تمام دلوں کو حیرت میں ڈال دیا ہے،جن میں علم و فن کی عظمتیں جاگزیں ہیں آج پوری جماعت ِ دیوبند اپنے آپ کو یتیم محسوس کررہی ہے کیوں کہ حضرت الاستاذ موجود ہ دور میں جماعت دیوبند کے سب سے بڑے سرخیل تھے آپ استاذ تھے،استاذ الاساتذہ تھے،بڑے تھے،بڑوں کے بھی بڑے تھے،آپ کو دیکھ کر اسلاف کی یاد تازہ ہوتی تھی،آپ بقیۃ السلف اوریادگار صالحین تھے۔
راقم کوجن عظیم المرتبت شخصیات اوربلند پایہ ہستیوں کو قریب سے دیکھنے کا حسین موقعہ ملا اوران کے جاوداں نقوش سے قلب ابھی تک متأثر ہے ا ن میں حضرت الاستاذ  ؒ کی ذات گرامی خاص طورپر شامل ہے۔آپ کے اس طرح اچانک رحلت فرمانے سے دیوبند سے وابستہ ہر شخص پرغم واندوہ کا کوہ گراں گر پڑا ہے ہے۔پوری فضا سوگوار ہے۔درودیوار ماتم کناہیں۔ہرایک رورہاہے سب کی آنکھوں میں آنسوں ہیں۔والد محترم حضرت مولانا قاری شفیق الرحمن صاحب بلند شہری استاذ دارالعلوم دیوبند کا ابھی فون آیا،آواز بھرارہی تھی،روتے ہوئے پوچھا،بیٹا کچھ اطلاع ہے۔میں نے کہا کہ مجھے اطلاع مل چکی ہے۔یہ کہہ کر ہچکیوں کے ساتھ رونا شروع کردیا اورکہا کہ بیٹا! حضرت کیلئے جتناہوسکے ایصال ثواب کرو۔حضرت الاستاذ کے ہمارے اوپر بہت احسانات ہیں۔اتناکہہ کر سلسلہ منقطع کردیا۔کون کس سے کیا کہے۔سب غمزدہ ہیں سب مغموم ہیں،تمام تلامذہ اورتمام وابستگان دیوبند کے لئے یہ حادثہ یکساں ں نوعیت کا ہے۔ہرایک کو تسلی کی ضرورت ہے اورہر ایک کو تعزیت کی ضرورت ہے۔اللہ آپ کے تمام شاگردوں،محببین اوراہل وعیال کو صبر جمیل نصیب فرمائے۔یقیناآپ کی رحلت اس دورقحط الرجال میں امت کے لئے بہت بڑے خسارہ کا سبب ہے۔یہ ایسا عظیم سانحہ ہے جس کو فضلائے دارالعلوم اوروابستگان ِ دیوبند شاید ہی کبھی بھلاسکیں۔
حضرت الاستاذ رحمہ اللہ سے جڑی مادوں اورباتوں کا ایک طویل سلسلہ ہے مگر آج کی تحریر میں حضرت رحمہ اللہ کے مختصر سوانحی نقوش پیش کئے جارہے ہیں:-


ولادت 
تقریباً1360ھ مطابق 1940ء میں مو ضع کا لیڑہ ضلع بناس کا نٹھا (شمالی) گجرات میں پیدا ہوئے،آپ کا نام والدین نے صرف”احمد“ رکھا تھا لیکن جب ”مظاہر العلوم سہارنپور“ میں داخلہ لیا تو آپ نے اپنا نام ”سعید احمد“ خود لکھوایا تھا، بناس کا نٹھا ایک ضلع ہے جس کا مرکزی شہر پا لنپور ہے موضع کا لیڑہ پالنپور کی مشہور بستی ہے جو پا لنپور سے جنوب مشرق میں تیس میل کے فا صلے پر ہے۔
 *تعلیم وتربیت* :
پانچ یا چھ سال کے ہو ئے تو آپ کے والد محترم نے گا ؤں کے مکتب میں تعلیم کے لئے بٹھا دیا،مکتب کی تعلیم مکمل کر نے کے بعد موصوف اپنے ما موں مو لانا عبد الرحمن صاحب کے سا تھ ”چھاپی“تشریف لے گئے،یہاں چھ ماہ تک اپنے ماموں اور دیگر اساتذہ سے فارسی کی ابتدائی کتا بیں پڑھتے رہے،چھ ما ہ کے بعد ماموں چونکہ تدریس چھوڑ کر گھر واپس آگئے تھے۔اس لئے آپ بھی ماموں کے ساتھ گھر تشریف لے آئے اور چھ ما ہ تک ماموں کے گھر ان سے فا رسی کی کتا بیں پڑھتے رہے،اس کے بعد چار سال تک پا لنپور کے مدرسہ میں حضرت مو لانا ہاشم صاحب بخاری اور مفتی محمد اکبر میاں صاحب سے عربی کی ابتدائی اور متوسط کتا بیں پڑھیں۔
1377ھ میں مظاہر العلوم سہارنپور میں دا خلہ لیکر تین سا ل تک نحو ومنطق اور فلسفہ کی کتا بیں پڑھیں،پھر فقہ،تفسیر،حدیث اور فنون کی اعلیٰ تعلیم حاصل کر نے کے لئے 1380ھ میں دا رالعلوم دیوبند میں داخل ہو ئے۔دارلعلوم دیوبند میں آپ کے اساتذہ میں مولانا سید محمد اختر حسین صاحب،حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب ؒ،مولانا سید فخر الحسن صاحب مرادآبادیؒ،مو لانا فخر الدین صاحب مرادآبادیؒ،مولانا مفتی مہدی حسن صاحب شاہجہانپوری ؒ،مولانا بشیر احمد خان صاحب بلند شہریؒ،اور حضرت مو لانا نصیر احمد خان صاحب ؒ شامل ہیں۔
حضرت مو لانانصیر احمد خان صاحب سے آپ نے دو کتا بیں پڑھیں ”الفوز الکبیر، جلالین شریف“ آپ بچپن ہی سے ذہین،فطین،کتب بینی اور محنت کے عا دی تھے،دارالعلوم دیوبند کی طا لبعلمانہ زندگی میں بھی کمال شوق،لگن اور یکسوئی کے سا تھ تعلیم میں مشغول رہے، اسی لئے دورہ ء حدیث میں آپ نے اول نمبر سے کامیابی حاصل کی۔
1383ھ اور 1384ھ میں آپ نے حضرت مولانا مفتی مہدی حسن صاحب ؒ کی نگرا نی میں فتوی نویسی کی مشق کی، جس میں مہارت کے سبب ارباب دارالعلوم دیوبند نے آپ کو ”معین مفتی“ کی حیثیت سے دارالعلوم میں مقررکر دیا۔
  *تدریسی زمانہ* :

ذیقعدہ 1384؁میں بحیثیت مدرس علیا آپ دارالعلوم اشرفیہ راندیر (سورت) تشریف لا ئے،موصوف نے یہاں ”ابوداؤد شریف، تر مذی شریف،طحاوی شریف، شمائل، موطین،نسائی شریف،ابن ما جہ شریف، مشکوٰۃ شریف جلالین شریف مع فوز الکبیر“اور دیگر کتب پڑھا نے کے سا تھ تصنیف و تالیف کا مبارک مشغلہ بھی جا ری رکھا، یہاں رہتے ہو ئے آپ نے ”داڑھی اور انبیاء کی سنتیں،حرمت مصاہرت،العون الکبیر“اور علامہ طاہر پٹنی کی ”المغنی“ کی شرح عربی زبان میں تحریر فر مائی نیز اسی زمانہ میں آپ نے حضرت نا نو توی ؒ کے علوم ومعارف کی تسہیل اور تشریح کا گراں قدر کا م کاآغاز فر ما یا۔
 *دارالعلوم دیوبند میں تدریس* 
   1393؁ءمیں آپ کا تقرر دارالعلوم دیوبند میں ہوا اور بحمد اللہ اس وقت سے آج تک دارالعلوم دیوبند میں تسلسل کے سا تھ تدریس کا فریضہ انجام د ے رہے ہیں۔
1397-98میں با قاعدہ حدیث کا درس ارباب دارالعلوم دیوبند نے آپکو تفویض کیا، پہلے سال مشکوٰۃ شریف جلد ثانی مع نخبۃ الفکر کا سبق آپ سے متعلق رہا پھر اگلے سا ل مشکوٰۃ شریف کے سا تھ موطاا مام مالک ؒاور نسائی شریف کا سبق متعلق ہوا،پھر1402ھ سے تقریباً 1430ھ تک تر مذی شریف کا سبق مکمل جا ہ وجلال کے ساتھ پڑھا تے رہے پھراپنے استاذ محترم حضرت مو لا نا نصیر احمد خان صاحبؒ کے بعد سے بخاری شریف کا سبق بھی اسی شان وشوکت سے پڑھا تے رہے ۔
 *درس کی خصوصیات* :
حضرت مفتی صاحب دام اقبا لہ کے در س کی ایک بڑی خصوصیت یہ تھی کہ آپ رسوخ فی العلم کے سا تھ مرتب مضامین کو سلیقہ مندی اور سلجھی ہو ئی زبان میں اس طرح بیان فرما تے تھے کہ طالب علم آپ کاسبق باآسانی سمجھ لیتا ،طلبہء حدیث آپ کے درس میں حاضری کے لئے خصوصی شوق کا مظاہرہ کر تے نظر آتے تھے ،دیکھا گیا ہے کہ اکثر طلبہ آپ کی ہر با ت نقل کر نے کی کو شش کر تے ہیں۔ دوران درس سنت کے مطا بق ٹھہر ٹھہر کر کلام فر ما تے تھے اور ائمہ ء سلف،ائمہ ء مجتہدین اور محدثین کرام کا ذکر انتہائی ادب وعظمت سے کر تے تھے ۔
درس میں فقہا کے مذاہب اور دلائل کی وضاحت میں جو طر یقہ اختیار کرتے ، وہ عام فہم ہو نے کے سا تھ سا تھ انوکھا اور نرالا ہو تاتھا۔اسی طرح اقوال مختلفہ کی تنقیح اس انداز پر کر تے تھے کہ ہر امام کا قول حدیث شریف کے قریب نظر آتا تھا اور ہر طا لب علم محسوس کر تا  کہ اکثر مسائل میں اختلاف کی بنیاد نص فہمی کا اختلاف ہے،دلائل کا اختلاف نہیں۔ ایک بڑی خوبی آپ کے درس کی یہ بھی تھی کہ پو رے سا ل درس اس ٹھہراؤ اور تر تیب سے ہو تا  کہ کتاب بحسن وخوبی مکمل ہو جا تی ،یہ نہیں ہو تا کہ مشہور مباحث میں وقت صرف کرکے بقیہ کتاب پر ضروری توجہ نہ دی جا ئے،آپ کے یہاں اختلاف ائمہ کے بجائے مدارک اجتہاد (یعنی اختلاف کی بنیا دیں، بیان کر نے پر زیادہ زور تھا ۔آپ کے در س کی یہ خصوصیت ترمذی شریف کے درس کے دوران کھل کر سا منے آتی تھی اور یہ با ت تو آپ کا ہر شاگرد جا نتا ہے کہ سبق کے دوران آپ صرف مسائل ہی بیان نہیں کر تے بلکہ کتاب بھی پڑھاتے ہیں اور فن بھی سمجھا تے ہیں۔
 *تصنیفی خد مات* :
حضرت وا لا دامت بر کا تہم کی جملہ تصانیف مقبولیت عامہ حاصل کر چکی ہیں۔آپ کی بیشترتصانیف کثرت سے شا ئع ہو کر مشرق ومغرب میں پہونچ چکی ہیں،جن کو ہر جگہ کے علماء نے قدر کی نگا ہ سے دیکھا، آپ کی تصانیف میں جو زیادہ مشہور ہیں ان کی فہرست درج ذیل ہے:-
”تفسیر ہدایت القرآن،العون الکبیر،(الفوز الکبیر کی عربی شرح) فیض المنعم شرح مقدمہئ مسلم،تحفۃ الدرر شرح نخبۃ الفکر،مبا دیئ الفلسفہ،معین الفلسفہ،اسلام تغیر پذیر دنیا میں، داڑھی اور انبیاء کی سنتیں،تسہیل ادلہئ کا ملہ، رحمۃ اللہ الواسعہ شرح حجۃ اللہ البالغہ (مکمل پانچ جلدوں میں)تہذیب المغنی (المغنی کی عربی شرح)زبدۃ الطحاوی،تحفۃالالمعی شرح تر مذی (مکمل آٹھ جلدیں) تحفۃ القاری شرح بخا ری“
حضرت وا لا دامت بر کا تہم کی مذکو رہ با لا تصانیف کے علا وہ بھی اور تصانیف ہیں، آپ کی تمام تصانیف اور تمام تحریروں کا قدر مشترک یہ ہے کہ ان میں ترتیب، توضیح اور جا معیت خوب ہے،اسی لئے آپ کی کئی تصانیف دارالعلوم دیوبند اور دیگر مدارس عربیہ کے نصاب میں شا مل ہیں۔
 *اوصاف وکمالات* :
قدرت نے آپ کو بے شمار خوبیوں اور عمدہ اوصاف وکمالات سے نوازا ہے، اس تعلق سے آپ کے برادر صغیر حضرت مفتی امین صاحب پا لنپو ری کی تحریر ملاحظہ ہو:
”استاذ محترم کو اللہ جل شا نہ ٗ وعم نوالہٗ نے بہت سی خوبیوں سے نوازاہے، آپ کا ذوق؛لطیف،طبیعت؛سادہ اور نفیس ہے،مزاج میں استقلال اور اعتدال ہے،فطرت میں سلامت روی اور ذہن رسا کے مالک ہیں،زود نویس اور خوشنویس ہیں،حق وباطل اور صواب وخطا ء کے در میان امتیاز کر نے کی وافر صلاحیت رکھتے ہیں اور حقائق کے ادراک میں یکتا ئے زمانہ ہیں۔اور سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ موصوف اپنے کا موں میں نہایت چست اور حالات کا جواں مردی سے مقابلہ کر نے وا لے ہیں، میں نے حضرت اقدس جیسا شب وروز محنت کرنے والا اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا،آپ کے تمام شاگرد جا نتے ہیں کہ آپ کادرس کتنا مقبول ہے.آپ کی تصانیف اور تقاریر کتنی پر مغز، مرتب اور جا مع ہو تی ہیں“
حضرت الاستاذ دامت بر کا تہم کی ذات گرامی کا ایک بڑا وصف خورد نوازی بھی تھا اپنے چھوٹوں کی اصلاح وتربیت اور ان کو آگے بڑھا نے کے لئے راہ کی تعیین اور ان کے دینی علمی تخلیقی کا رنا موں پر ان کی تحسین وحوصلہ افزائی بھی آپ کی خصوصی عادات میں شامل تھیں۔
 *تصوف وسلوک سے آپ کا تعلق* :
حضرت والا دامت بر کا تہم زمانہء طا لبعلمی میں حضرت شیخ الحدیث مو لانا محمد زکریاصاحب قدس سرہٗ سے بیعت ہوے۔اسی کے سا تھ حضرت مو لانا عبد القادر صاحب رائے پوری رحمہ اللہ کی عرفا نی واصلا حی مجالس میں شرکت کر تے رہے ، اور آخر میں حضرت مو لانامفتی محمد مظفر حسین صاحب قدس سرہٗ سے تعلق قا ئم کیا۔ حضرت مفتی مظفر حسین صاحب قدس سرہٗ نے با قاعدہ آپ کو اجازت بیعت وارشاد سے نوازا۔
 *اہل وعیال کی تر بیت* :
اہل و عیال کی تر بیت آپ نے جس طریقہء کا ر کو سا منے رکھ کر انجام دی تھی ،وہ ایک انوکھی مثال ہے،آپ نے سب سے پہلے اپنی اہلیہ محترمہ (نوراللہ مر قدہا)کو قرآن کریم حفظ کرایا،پھر تمام بچوں کے حفظ کی ذمہ دا ری اہلیہ محترمہ (نو راللہ مر قدہا) کے سپرد کی۔ ماشاء اللہ انہوں نے تمام صاحبزا دوں اور صاحبزادیوں کو حفظ قرآن مکمل کرا دیا نیز صاحبزادوں کی دلہنوں کو بھی حفظ قرآن کی دو لت سے بہرہ مند کیا۔
حضرت الاستاذ دا مت بر کا تہم کو اللہ تعالیٰ نے کثرت اولاد کی نعمت عظمیٰ سے بھی نوازاہے،چنانچہ گیارہ صاحبزادے اور تین صاحبزادیاں ہوئیں جن میں بڑے صاحبزادے  جناب حافظ مو لوی مفتی رشید احمد صاحب1995ء کے ایک حادثہ میں شہید ہو گئے اور ایک صاحبزادی بچپن میں انتقال کر گئیں۔ما شا ء اللہ دس صاحبزادے اور دو صاحبزادیاں بقید حیات ہیں،اہلیہ محترمہ چند عرصہ پہلے اللہ کو پیاری ہو گئیں بلا شبہ حضرت کی علمی ترقیوں میں ان کا بھی حصہ ہے،اللہ تعالیٰ ان کی قبر کو نور سے بھر دے.آج حضرالاستاذ کے اس طرح چلےجانےسے پوری علمی دنیاسوگوار ہے اور ہر ایک اپنے آپ کو یتیم محسوس کر رہا ہے. خدا آپ کی حسنات کو قبول فرمائے اور اور دارالعلوم دیوبند کو آپ کا نعم البدل نصیب فرمائے (آمین) خلیل الرحمن قاسمی برنی 9611021347

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے