حضرت رائے پوری قدس سرہ کےصوفی جی مولاناافتخار الحسن صاحب کاندھلویؒ

حضرت رائے پوری قدس سرہ کےصوفی جی 
مولاناافتخار الحسن صاحب کاندھلویؒ

مفتی خلیل الرحمن قاسمی برنی
 9611021347

مؤرخہ 2/جون 2019بوقت شام سوشل میڈیا پرگردش کررہی اس خبر نے اچانک حیرت میں ڈال دیا تھا کہ برصغیر کے مشہور عالم دین،یاد گار اسلاف اورحضرت مولاناشاہ عبدالقادر رائے پوری قدس سرہٗ کے خلیفہ و مجاز حضرت مولاناافتخار الحسن صاحب کاندھلوی دنیائے فانی کو خیر باد کہہ کر مالک حقیقی سے جاملے۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔
مولانامرحوم علماء ربانیین کے سلسلے کی زریں کڑی تھے۔آپ کے اس طرح رخصت ہوجانے سے امت کو جو نقصان اورصدمہ پہنچا اس کی تلافی مشکل ہے۔آپ کے دم سے جو ایک روحانی دنیا قائم تھی وہ اب ویران ہو چکی ہے۔آپ کی وفات ایک عہد کا خاتمہ اورموت العالم موت العالم کا مصداق شمار کی جائےگی ۔
سب جانتے ہیں کہ اس دورمیں ہمیں روحانی سہاروں کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ہے،اورروحانی سہارے اگر نہ رہیں تو امت بے شمار خیروبرکات سے محروم ہوجاتی ہے۔آپ کے اس طرح مالک حقیقی کی طرف کوچ کرجانے سے امت بہت ساری برکات اوررحمتوں سے محروم ہوگئی۔
حضرت مولانا افتخار الحسن صاحب کاندھلوی قدس سرہٗ بزرگوں کے خاندان سے تھے اورانہیں کی حسنِ تربیت کا عکس جمیل تھے۔اسی لئے آپ نے ہمیشہ اپنے بزرگوں اوراکابر کی طرح صلاح و فلاح سے معمور تقویٰ والی زندگی اختیار فرمائی۔شریعت کی پابندی اوراتباع سنت آپ کی شناخت تھی اسی کا اثر تھا کہ ربّ ذوالجلال نے آپ کو بہت بافیض عالم بنایاتھا۔
مولانامرحوم کاندھلہ کے مشہور بزرگ حضرت مولانامفتی الٰہی بخش قدس سرہٗ کے خاندان سے ہیں،حضرت مفتی الٰہی بخش قدس سرہٗ سے آپ کا سلسہئ نسب ساتویں نمبر پے جاکر ملتاہے۔آپ کے والد بزرگوار بھی ایک عالم دین تھے اورصاحبِ علم و عمل کی حیثیت سے مشہور تھے۔مولانا رؤف الحسن ان کا نام تھا اس لئے یہ کہنا صحیح ہوگا کہ وہ اسم بامسمیٰ تھے۔ظاہر وباطن دونوں لحاظ سے وہ خوبصورت تھے جب کہ رأفت و شفقت میں تو وہ اپنی مثال آپ تھے ہی۔مولاناافتخارالحسن صاحب قدس سرہٗ کے دادا محترم جناب ضیاء الحسن صاحب ابن محمد صادق جناب نورالحسن کے فرزند تھے جو عالی مقام حضرت ابوالحسن ابن مولانامفتی بخش کے فرزند تھے۔
مولاناافتخار الحسن صاحب قدس سرہٗ کے والد محترم مولانا رؤف الحسن صاحب نے یکے بعد دیگرے دوشادیاں کیں،جس سے آٹھ  بچے ہوئے۔پانچ لڑکے اورتین لڑکیاں۔پہلی اہلیہ محترمہ کے بطن سے تین صاحبزادے حضرت مولانا نجم الحسن ؒ مولانااحتشام الحسنؒ خلیفہ ورفیق خاص حضرت مولانامحمد الیاس صاحب قدس سرہٗ اورحکیم قمرالحسنؒ ہوئے۔انہیں زوجہ محترمہ کے بطن ِمبارک سے تین صاحبزادیاں جویریہ خاتونؒ زوجہ حضرت مولانامحمد الیاس ؒ بانی تبلیغی تحریک،امۃ المتین زوجہ حضرت مولانا محمدزکریا ؒ شیخ الحدیث مظاہرالعلوم سہارنپور اور امۃ الدیان زوجہ حضرت مولاناظہیرالحسن صاحب شہید۔
دوسری اہلیہ سے حضرت مولانااظہارالحسن صاحب اورحضرت مولانامفتی افتخار الحسن صاحب قدس سرہٗ متولد ہوئے۔اس اعتبار سے آپ حضرت مولاناالیاس صاحب قدس سرہٗ اورحضرت مولانامحمد زکریا قدس سرہٗ کے برادر نسبتی ہوئے۔
آپ کی فراغت 1948میں مدرسہ مظاہرعلوم سے ہوئی۔آپ مظاہرعلوم کے قابل ترین فضلاء میں سے تھے۔دورانِ تعلیم محنتی اورذہین طلبہ میں آپ کا شمار تھا۔اپنے تمام اساتذہ کے آپ معتمد تھے۔اسی کے ساتھ نیکی صلاح و تقوی اوراورادووظائف کی پابندی میں آپ ضرب المثل تھے اسی کااثر تھا کہ آپ کو حضرت اقدس مولاناشاہ عبدالقادر رائے پوری ؒ کی طرف سے بہت کم عمری میں ہی اجازت و خلافت سے نوازادیا گیاتھا ۔آپ کے شیخ حضرت رائے پوری قدس سرہٗ آپ کو صوفی جی کے نام سے یاد فرماتے تھے،جس کا کئی جگہوں پر حضرت شیخ الحدیث قدس سرہٗ نے اپنی آپ بیتی میں بھی صوفی افتخار کے نام سے ذکرکیا ہے۔
مولانامرحوم علم و عمل دونوں میں یکتا تھے۔خصوصاً علم تفسیر میں آپ کو درک کامل حاصل تھا۔تقریباً 52 سالوں تک کاندھلے کی جامع مسجد اورپھر اپنے محلے کی مسجدمیں بعد فجر ایک ڈیڑھ گھنٹے تفسیر کرنے کا معمول رہا۔اس دوران آپ نے مکمل قرآن کریم کی تفسیر کے پانچ دورمکمل فرمائے۔آخری دورغالباً 1992یا 1993میں ہوا جس میں ایک عظیم الشان اجتماع منعقد ہوا۔کاندھلہ کی عیدگاہ لوگوں کے ہجوم سے بھرگئی۔اس اجتماع میں ہندوستان کی مایہ ناز علمی وروحانی ہستیاں بھی تشریف لائیں۔مہمان خصوصی کی حیثیت سے حضرت مولانا ابوالحسن علی میاں ندوی ؒ نے بھی شرکت فرمائی۔
اس اجلاس کے متعلق مولاناندویؒ اپنی آپ بیتی میں تحریر فرماتے ہیں کہ ”ایسی نورانی مجلس میں نے اپنی زندگی میں نہیں دیکھی“        آپ کے یہاں روزانہ ایک روحانی مجلس بھی منعقد ہوتی ۔جس کے روحانی و بابرکت اثرات دورتک دیکھنے میں آئے۔آپ کی یہ مجلس بڑی پر اثر عرفان و ایقان سے لبریز ہونے کے ساتھ علمی رنگ میں بھی رنگی ہوئی ہوتی تھی۔بعض مرتبہ کسی آیت کی تفسیر شروع فرماتے اورکئی دن تک مسلسل فرماتے رہتے۔آپ کی مجلس میں حاضر ہونے والے اہل علم کا تأثر تھا کہ ایسا لگتا تھا کہ علم کا ایک ٹھاٹھیں مارتاہواسمندر سامنے ہے۔روحانیت کا ایک بحرناپیداکنار ہے۔
آپ کی مجلس کے حاضرباش بعض اہل علم نے بتایاکہ سورہ بقرہ کی آیت ”واذ قال ربک للملٰئکۃ انی جاعل فی الارض خلیفہ“کی تفسیر میں سارے دن تک کلام فرماتے رہے۔اس تفسیر کا بعض حصہ ”تقاریر تفسیر قرآن مجید“ کے نام سے منظر عام پر آچکاہے۔
آپ علمی گہرائی رکھنے والے عظیم مفسر اعلیٰ درجے کے صوفی اورکامل زاہد.ومتقی انسان تھے۔بزرگوں کی یادگار،اکابر کی روایات کے محافظ اوراسلاف دیوبند کے اقدار کے حامل تھے۔بہت ساری نسبتوں کے حامل اورکئی طرح کے کمالات سے آراستہ ہونے کے باوجود انتہاء درجے کے متواضع اورسادہ انسان تھے۔آپ کا شمار ان ہستیوں میں ہوتا تھا جن کی علمی و دینی خدمات سے تاریخ اسلام کے بے شمار باب روشن ہیں۔بالخصوص آپ کااس دور میں وجود مسعود بہت ہی قیمتی تھا۔کیوں کہ آپ صالحین کا نمونہ اوران کا خوبصورت پرتو تھے۔برصغیر ہندوپاک کی تاریخ میں 300/برس پر محیط اس خانوادہ کی اسلامی اوراصلاحی تحریک اوردینی خدمات جلی حروف میں درج ہیں۔اس مبارک خاندان کے علمی ورثہ کے امین تھے حضرت مولاناافتخار الحسن صاحب قدس سرہٗ جس طرح آپ علوم متداولہ میں ماہر تھے اسی طرح آپ راہ طریقت میں بھی یکتا تھے۔بلکہ راہ ِ طریقت میں آپ کی خدمات کا سلسلہ وسیع تر اورفزوں تر ہے۔دنیا بھر میں آپ کے سلسلے سے وابستہ ہزاروں لوگ تھے۔جنہوں نے آپ کے دست حق پرست پر بیعت کی تھی اورآپ کے بتائے ہوئے اصلاحی طریقوں کی روشنی میں اپنی زندگیوں کو احسان و نور کی کیفیات سے معمور کررہے تھے۔اوران شاء اللہ کرتے رہیں گے۔آپ کے خلفاء کی تعداد 50/سے متجاوز ہے۔
حضرت مولانامرحوم میں وہ تمام صفات و عادات اورخصوصیات تھیں جو ایک عالم ربانی میں ہونی چاہیں۔علماء نے زاہد کی تین علامات لکھیں ہیں۔(۱) جو اس کے پاس موجود ہے اس پر خوش نہ ہو اورجو چند موجود نہیں ہے اس پر رنجیدہ نہ ہو(۲) مادح اورذام اس کو یکساں نظر آئیں۔(۳) حق تعالیٰ سے انس و محبت ہو اورطاعات میں لذت محسوس کرے۔یہ تینوں علامات حضرت مولاناافتخار الحسن صاحب قدس سرہٗ میں بدرجہءاتم موجود تھیں۔موجود پر وہ اتراتے نہیں تھے اورجو چیز نہیں اس پر کبھی رنجیدہ نہیں ہوتے۔اسی طرح ماد ح وذام ان کی نگاہ میں برابر تھے۔وہ سب کو معاف کرنے کے عادی تھے۔اورجہاں تک بات ہے ان کی حب فی اللہ کی تو وہ ان کے انگ انگ اورروئیں روئیں سے مترشح تھی ان کی زندگی کا ایک ایک لمحہ اسی کے لئے وقف تھا۔دعا ہے کہ اللہ حضرت والا کو علیین میں جگہ عطافرمائے اورجنت الفردوس میں اعلیٰ مقام نصیب فرمائے۔
رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ وادخلہ فسیح جناتہ

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے