یہ رسم جہیز آخر مر کیوں نہیں جاتی

یہ رسم جہیز آخر مر کیوں نہیں جاتی ،،، از✍ احتشام الحق، مظاہری کبیر نگری، 9554304745 کل شام جیسے ہی آفس سے روم پر پہنچا کھانے وغیرہ سے فراغت کے بعد جب لیٹنے کےلئے بستر پر گیا تو بہت دیر تک نیند نھیں آئی غیر محسوس بے چینی و بے قراری نے ساتھ نھیں چھوڑا،گذشتہ کل ہی آحمد آباد میں پیش آنے والے اندوہناک واقعہ کی ویڈیو سے دل و دماغ متاثر ھے، وہ کیا پریشان کن واقعہ ہیں جس نے میری آنکھوں سے بہت دیر تک نیند کو ، کوسوں دور کردیاتھا، آپ بھی سن لیجئے اور شریک غم ہوجائیے، احمد آباد کی رہنے والی عائشہ نامی ایک خاتون نے اپنی دلفریب مسکراہٹوں کے ساتھ دلوں میں غم کا سمندر لئے ہوئے کسی پر کسی بھی طرح کا کوئی الزام نہ لگاتے ہوئے اپنے آپ کو سابرمتی ندی کے حوالے کردیا ھے، لیکن جب ان کے والد لیاقت علی خان سے اسکے خود کشی کی وجہ دریافت کی گئی تو وہ عائشہ کا ظالم شوہر عارف خان، جو راجستھان کا رہنے والا ہے اس کی طرف سے جہیز کے مطالبات تھے، یہی وجہ تھی کہ ہر روز اس ظالم درندے نے عائشہ کو، کوسنے سے لیکر ستانے طلاق دینے یہاں تک کہ جلانے اور مارڈالنے تک کی دھمکیاں بھی دیتا رہتا تھا، عائشہ کی جو ویڈیو وائرل ہوئی ہے اس سے صاف ظاہر ہوتا ھے کہ وہ محبت کی ماری ہوئی تھی، شوہر کو تو وہ بہت چاہتی تھی بٹ ظالم شوہر جہیز کا لالچی تھا، بار بار جہیز کے مطالبات نے اسے اندھا بنا دیا تھا، عائشہ کی طرح نہ جانے کتنی عورتیں ہیں جو جہیز کی لالچی خاندان، ساس سسر اور شوہروں کے ہاتھوں ستائی جاتی ہیں، اور اپنے آپ کو سمندروں کے بہتے ہوئی دھاروں کے حوالے کرنے پر مجبور ہو جاتی ہیں،،، کسی شاعر نے کیا خوب کہا ھے، شاعر سے قدر معذرت کے ساتھ، جہیز کم تھا بہو سمندر میں اتاری ہے ہمارے معاشرے میں اب تک یہ رسم جاری ہے ، جہیز کے نام پر ستائی ہوئی عائشہ اور اسکے والد کے غم کو دیکھ کر مجھے ہندوستانی معاشرے کے بانجھ پن اور بے حسی پر دکھ ہو رہا تھا کہ ہما را معاشرہ کہاں پہنچ چکا ہے ہر گھر گلی اور شہر میں جگہ جگہ نہ جانے کتنی عائشائیں مدد مدد پکار رہی ہے لیکن ہما را معا شرہ تو بے حسی کا شکار ہو چکا ہے جو کسی بھی عائشہ کی مدد اور پکار سننے کو تیار نہیں، ہم جو حضرت عائشہ کے لازوال کر دار پر تقریریں کر تے ہیں یہ دیکھنے کی زحمت نہیں کر تے کہ آج بھی ہما رے معاشرے کے ظلم کی چکی میں کتنی عائشائیں پس رہی ہیں کو ئی ان کی مدد کو تیا ر نہیں معا شرے کی بے حسی پر یہی احساس ہو تا ہے کہ ہما را معا شرہ صحت مند اصلاحی معا شرہ نہیں رہا ، بلکہ بے حس ہو چکا ھے جہاں کسی مظلوم کی مدد کے لئے کو ئی بھی آگے بڑھنے کو تیا ر نہیں ۔ با پ لیاقت علی خان کے آنسو دیکھ کر میری آنکھوں سے بھی مو تیوں کی لڑی مسلسل جھڑ رہی تھی میں مجرموں کی طرح بیٹھا موبائل کی اسکرین پر نظر گڑائے ہوئے ان کی درد ناک چیخ و پکار سن رہا تھا، کیونکہ میں بھی اِسی گلے سڑے معاشرے کا حصہ تھا جہاں ہر روز معصوم مظلوم بچیوں پر درد ناک مظالم ڈھائے جا تے ہیں،، ،آج ہمارے معاشرے میں جہیز کے نام پر غریب معصوم دوشیزاؤں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جارھے ھیں جبرو تشدد کی خاردار جھاڑیاں ان کی راہ میں حائل ھیں آج بھی ان عورتوں کے ارمانوں کاخون کیا جارھا ھے غریب گھرانے کی لڑکیوں پر خدا کی زمین اپنی وسعت اور کشادگی کے باوجود تنگ ہورھی ھے جس گھر میں لڑکی پیدا ہوتی ہے ، اور جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتی ہے اسی وقت سے والدین کی نیدیں حرام ھوجاتی ھے زندگی کا ہر لمحہ سانپ بن کر ڈسنے لگتا ھے ایک طرف لڑکی کی اٹھتی ہوئی جوانی ھوتی ھے تو دوسری طرف جنسی بھیڑیوں کی اٹھتی ہوئی نگاہیں ہوتی ھیں اور تیسری طرف پڑوسیوں کی چہ می گوئیاں والدین اس گلاب کے پھول کو سجانے کےلئے جب کسی لڑکے کی تلاش کرتے ھیں تو جہیز کے مطالبات انکے ارادوں کو وہیں مسمار کردیتے ھیں، ،،، افسوس صد افسو ایک پاکیزہ رشتہ جسے ربِّ کائنات نے پاکیزہ اور عظیم مقصد کے لئے جاری کیا جو عہد رسالت اور عہد صحابہ اور عہد اسلاف میں بڑے پاکیزہ اور سادہ طریقہ سے عمل میں اتا رہا آج دین سے دور خاندانوں اور نوجوانوں نے اسے نفع جوئی اور زر طلبی کا کاروبار سمجھ لیا ھے ،،،، چنانچہ،،،، ان اسباب و حالات کا جائزہ لینے کے بعد یہ محسوس ھوا کہ معاشرہ میں دینی اسلامی روح بیدار کی جائے اسلامی احکام کی اہمیت و عظمت دلوں میں اتاری جائے متاعِ دنیا کی حرص سے دور کیا جائے اس بات کو دل و دماغ میں راسخ کیا جائے کہ مومن کی سرخروئی اور کامیابی اسی میں ھے کہ خدا کی قائم کہ ھوہی حدود کے اندر رہ کر جائز و بہتر طور پر اپنی دنیا بھی خوشحال بنائیں اور آخرت بھی سنوارے ناانصافی اور ظلم و ستم سے بہر حال پرہیز کریں ورنہ اسکا انجام بڑا ھی بھیانک اور خطرناک ھے خالق حقیقی کی سزاسے کبھی غافل نھیں ھونا چاھئے

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے