محبوب کی رضا میں کھوٹے سکے بھی منظور


 حضرت عثمان خیر آبادی ایک بزرگ گزرے ہیں ، ان کی ایک دکان تھی ، ان کی عادت تھی کہ جب کوئی گاہک آتا اور اس کے پاس کبھی کوئی کھوٹا سکہ ہوتا تو وہ پہچان تو لیتے تھے مگر پھربھی وہ رکھ لیتے اور سودادید یتے ے اس دور میں چاندی کے بنے ہوئے سکے ہوتے تھے ، وہ سکے گھسنے کی وجہ سے کھوٹے کہلاتے تھے ، وہ کھوٹے سکے جمع کرتے رہے ، ساری زندگی سی معمول رہا ، جب موت کا وقت قریب آیا تو آخری وقت انہوں نے پچان لیا ، اس وقت اللہ رب العزت کے حضور ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے لگے کہ اے اللہ ! میں ساری زندگی تیرے بندوں کے کھوٹے سکے وصول کرتا رہا تو بھی میرے کھوٹے عملوں کو قبول فرمالے ، سبحان اللہ محبت الہی کے رنگ میں ایسے رنگے ہوئے تھے ۔ ( خطبات ذوالفقار به ۸۵ ج : ۳ )

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے