دیوبندکی ایک بافیض شخصیت ڈاکٹر معیدالزماں صاحب قاسمی ؒ برادر مولاناوحیدالزماں صاحب کیرانویؒ


مفتی خلیل الرحمن قاسمی برنی بنگلور
9611021347


آج بتاریخ یکم محرم 1442ھ مطابق 21اگست 2020ع کو سوشل میڈیا کے ذریعہ یہ خبر ملی کہ دیوبند کی عظیم ہستی اورمخلص وہمدرد خادم قوم و ملت محترم جناب مولاناحافظ ڈاکٹر معیدالزماں کیرانوی اب اس دنیا میں نہیں رہے۔اناللہ وانا الیہ راجعون۔
موصوف بہت ہی بااخلاق اورصاحب کردار انسان تھے۔عام طورپر لوگ انہیں صرف ڈاکٹر ہی سمجھتے تھے لیکن ایسا نہیں تھا وہ بہترین حافظ قرآن اورمستند عالم دین بھی تھے۔دیوبند میں رہائش کے دوران متعدد مرتبہ علاج و معالجہ کے سلسلے میں ان کے مطب آناجانارہا۔کئی دفعہ جب دوسری جگہ سے مایوسی ہوئی تو قدرت نے آپ ہی کی طرف رجوع کرایااورشفاملی۔زمانہء طالب علمی میں جبکہ میں سال اول عربی کا طالب علم تھا،ایک دفعہ رات میں اچانک والد محترم حضرت مولاناقاری شفیق الرحمن صاحب بلندشہری استاذ دارالعلوم دیوبند کو دردگردہ کی شکایت ہوئی۔سب جانتے ہیں کہ یہ درد بہت ہی مؤلم اوربے چین کردینے والا ہوتاہے۔والد محترم کی اس رات کی بے چینی اورکرب آج تک مجھے یاد ہے۔آپ بہت تڑپ رہے تھے۔رات کے دوبجے تھے۔اس وقت کسی بھی ڈاکٹر کا ملنا بہت دشوار تھا۔لیکن میں نے ہمت جٹائی اوراپنی سائیکل پر سوار کرکے جناب ڈاکٹر معیدالزماں صاحب ؒ کے کاشانے پر حاضر ہوگیا۔بیل بجائی تو وہ اس وقت ناکارہ تھی۔مجبوراً باہر سے ہی آواز دینا پڑی۔باربار اورزورکی آواز پر ڈاکٹر صاحب مرحوم بیدارہوئے اورکھڑکی سے ہی تعارف چاہا ہم نے جب اپنا تعارف کرایاتو پہچان گئے اورفوراً مطب(جو ان کے گھر کے پیچھے والے حصے میں ہی واقع تھا)کھول دیا اوراندر بلالیا۔بہت تسلی سے دیکھا۔ان کی تجویز کے مطابق وہ دردگردہ ہی تھاجوپتھری کے راہ میں اٹکنے کی وجہ سے بہت تکلیف دہ صورت اختیارکرگیا تھا -ڈاکٹرصاحب مرحوم نے دوامرحمت فرمائی اورخدا کے فضل سے پھر شفا بھی ہوگئی- صبح ہوتے ہوتے درد بھی کافورہوگیااورپتھری بھی خارج ہوگئی۔
ماضی کے جن اطباء اورمعالجین کے بارے میں سنتے آئے تھے کہ وہ اطباء ہونے کے ساتھ مخلص،ہمدرد اوربااخلاق و باکردار بھی ہوتے تھے۔دن کو علاج کرتے تھے اورات کو اللہ کے حضور روتے اورگڑگڑاتے اوراپنی تمام تر صلاحیتوں کے باوجود خدا کے سامنے اپنی ناتوانی اورکمزوری کا اظہار کرکے مریضوں کے لئے شفامانگتے تھے۔ان کو یہ یقین ہوتا تھا کہ ہماری صلاحیتیں بھی اسی وقت کام آسکتی ہیں جب خدا کا حکم ہوگا۔کیوں کہ خدا کے حکم کے بغیر کوئی پتہ ہل سکتاہے نہ کوئی ذرہ حرکت کرسکتاہے۔دوامیں بھی شفاخداکے حکم سے آتی ہے۔راقم نے یہ اوصاف اورمخلص اطباء کی خوبصورت عادتیں اورپاکیزہ خصلتیں ڈاکٹر صاحب مرحوم میں بہت قریب سے مشاہدہ کی ہیں۔اس لئے بجاطورپر یہ کہاجاسکتاہے کہ آپ بھی اطباء اورحکماء کے اسی مبارک سلسلے کی ایک خوبصورت وزریں کڑی تھے۔
ڈاکٹر صاحب مرحوم بہت ہی خوش وضع،نفاست پسند اورنستعلیقی مزاج کے حامل تھے۔     گورارنگ،چھریرابدن،اتھاہ ہراقد،معصوم سی صورت،صاف دل،پاکیزہ نگاہ،سادہ طبیعت ،اوربہت نرم خو مگر حددرجہ وجیہ وشکیل انسان تھے ۔ایسا لگتا تھا کہ تیز مزاجی تندخوئی اورغصہ والے الفاظ ان کی کتاب زندگی میں نہیں ہیں۔
31/جنوری1946ء مطابق26/ربیع الاول 1365ھ میں آبائی وطن کیرانہ میں ہی ولادت ہوئی۔بارہ تیرہ سال کی عمر میں ناظرہ اورحفظ قرآن کی سعادت سے بہرہ ور ہوگئے تھے۔اعلی ٰ تعلیم کے لئے مادرعلمی دارالعلوم دیوبند میں داخل ہوئے۔خصوصی تربیت اپنے برادر بزرگ حضرت مولاناوحیدالزماں قاسمی کیرانویؒ سے حاصل کی۔1389ھ مطابق 1969ء میں دارالعلوم دیوبند سے فراغت حاصل کی۔فراغت کے بعد طب کی تعلیم کے لئے دہلی میں واقع ہمدرد طبی کالج میں داخلہ لیا۔تقریبا چھ سال کالج میں طب کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد 1396ھ مطابق 1976ء میں سند فراغت حاصل کی۔اس کے بعد سے وفات تک دیوبند ہی میں مطب کرتے رہے۔خدانے ان کو دستِ شفا سے نوازا تھا،جس کی وجہ سے مخلوق کا رجوع تھا اوربے شمار لوگوں کو نفع پہنچا۔
اللہ ڈاکٹر صاحب کی مغفرت فرمائے اورپسماندگان کو صبرجمیل نصیب فرمائے۔آمین۔خلیل الرحمن قاسمی برنی 9611021357

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے