دنیا بقدر ضرورت ہو



مفتی خلیل الرحمن قاسمی برنی

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقعہ پر حضرت عائشہ سے ارشاد فرمایاتھا:یَا عَائشۃُ اِذَا اَرَدْتِ اللُّحُوْقَ بِیْ فَلْیَکْفِکِ مِنَ الدُّنْیَا کَزَادِ الرَّاکِبِ وَاِیَّاکَ وَمجَانَسَۃَ الْاَغْنِیَاءِ وَلاَتَسْتَخْلِقِیْ ثَوْباً حَتّٰی تَرْقِعِیْہِ(ترمذی،۱/۷۰۳)۔اے عائشہ اگر آخرت میں میرا ساتھ چاہتی ہو تو مسافر کے توشہ کی طرح دنیا کو اپنے لئے کافی سمجھو۔مالداروں کی ہمنشینی سے بچو! کسی کپڑے کو برا نہ سمجھو تاآنکہ اس میں پیوند نہ لگاؤ۔
اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کو نصیحت فرمارہے ہیں۔آپ نے ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کو مخاطب کرکے فرمایا: اے عائشہ!اگر آخرت میں میرے ساتھ رہنا چاہتی  ہو،جنت میں میری رفاقت اورمعیت چاہتی ہو تو تین کام تمہیں کرنے پڑیں گے (۱) دنیا کو اپنے لئے اتنا ہی کافی سمجھنا جتنا کہ ایک مسافر اپنے لئے سامان سفر کو کافی سمجھتا ہے۔یعنی مسافر سفر کی مدت کو ذہن میں رکھ کر ہی سامان سفر رکھتا ہے۔اورضرورت ہی کاسامان رکھتا ہے۔اورکم سے کم رکھنے کی کوشش کرتاہے۔اسی طرح تم بھی دنیا میں اپنے لئے اتنا ہی سامان زیست اورمتاع زندگی کو کافی سمجھنا جتنا تمہیں یہاں یعنی دنیا میں رہنا ہے۔(۲) دوسری نصیحت آپ ﷺ نے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کو یہ فرمائی: اے عائشہ مالداروں کے پاس اٹھنے بیٹھنے سے اپنے آپ کو بچانا،مالداروں کی صحبت سے اپنے کو دور رکھنا۔کیوں کہ مالداروں کی ہم نشینی،ان کے ساتھ اٹھنا،بیٹھنا اورا ن کی مجالس میں حاضری یاتو حرص،لالچ اور طمع پیداکرے گی یا پھر چاپلوسی اورخوشامد کی بری صفت کو جنم دے گی۔مالداروں کی ہم نشینی اختیار کرنے والا شخص اللہ کے دئیے ہوئے مال و دولت کو ناکافی سمجھنے لگتاہے۔اوراس کوشش میں لگ جاتاہے کہ میں بھی اتنا مال حاصل کرلوں جتنا مال اس مالدار کے پاس ہے۔اسی طرح تملق اورچاپلوسی والی بری صفت بھی اس میں اس طرح پیدا ہوجاتی ہے کہ وہ اپنے مقصدکے حصول کیلئے کوئی بھی طریقہ اختیار کرنے لگتاہے۔خواہ وہ طریقہ دین و شریعت کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ قناعت بہت ہی اہم صفت ہے،اچھی قسمت والوں اورخوش نصیبوں کو ہی یہ صفت ملتی ہے۔اس صفت کا مطلب یہ ہوتاہے کہ انسا اللہ کے دیئے ہوئے مال پر راضی رہے۔اوراسے خدا کی تقسیم پر کسی طرح کی کوئی شکایت نہ ہو۔یہ ایک عظیم اورمبارک جذبہ ہے جو انسان کو اسی وقت حاصل ہوسکتاہے،جب وہ اپنی زندگی کے سلسلے میں مطمئن ہواوریہ یقین اپنے دل میں رکھے کہ خدائے واحد نے جو کچھ مجھے عطافرمایا ہے وہی میری قسمت میں تھا۔پیغمبر علیہ السلام یہی مبارک جذبہ اورعمدہ صفت اپنے ماننے والوں کی زندگیوں میں لانا چاہتے ہیں۔ایک موقعہ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:قد افلح من اسلم ورزق کفافاوقنعہ اللہ بمااٰتاہ (مسلم) کامیاب ہے وہ شخص جو اسلام لے آیا اوربقدر ضرورت اسے روزی ملی اوراللہ نے جو کچھ اسے دیا ہے اسے اس پر قناعت حاصل ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کو بھی اسی صفت قناعت سے مالا مال کرنے کے لئے یہ نصیحت فرمارہے ہیں کہ مالداروں ارامیروں کی ہم نشینی اورمجالست سے بچو اوران کی صحبت سے دور رہو۔اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ مالداروں سے کسی صورت میں ملا ہی نہ جائے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بلاضرورت صرف اپنے دنیوی مفاد کے لئے ان کی مجلسوں کی زینت نہیں بننا چاہیے کیوں کہ ایسا کرنے کی صورت میں اس کا وصف قناعت متأثر ہوجائے گا۔اورقناعت والی خوبصورت صفت سے وہ محروم ہوجائے گا۔(۳) تیسری نصیحت آپ ﷺ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کو یہ ارشاد فرمائی کہ:اے عائشہ! اپنے کسی بھی کپڑے کو پرانا نہ سمجھو،جب تک تم اس میں پیوند نہ لگالو۔”ولاتستخلقی ثوبا حتٰی ترقعیہ،یعنی جب تک کپڑا پیوند لگاکر استعمال کرنے کے لائق رہے تم اسے استعمال کرتی رہو۔پرانا ہوجانے کے صورت میں بھی اس وقت تک استعمال کرو جب تک وہ پیوند لگاکر استعمال کیا جاسکتاہے۔اس کے بعد ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کا آخر تک یہ معمول رہا کہ آپ اس وقت تک کپڑے استعمال کرتیں جب تک کہ وہ پرانے ہوجاتے اورپیوند ان میں لگالیا جاتا۔اس کے بعد ہی آپ ان کو پرانے قراردیتیں۔آپ کے بھانجے حضرت عروہ بن زبیر ؓ جو حضرت عبداللہ بن زبیر کے بھائی ہیں فرماتے ہیں کہ:میں نے نہیں دیکھا کہ آپ نے اپنے استعمال کے کسی کپڑے کو پرانا سمجھاہو،جب تک کہ پیوند لگاکر اسے استعمال نہ کرلیاہو۔ایک صاحب نے جب آپ سے سوال کیا کہ آپ کے پاس تو اوربھی کپڑے ہیں جو بالکل صحیح ہیں تو پھر آپ کپڑے میں پیوند کیوں لگارہی ہیں؟ اس پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا کہ بیٹے! جب تک انسان پیوند لگا کر کپڑا نہ پہن لے،اس وقت تک اس کو کپڑا پہننے کا لطف ومزا حاصل نہیں ہوسکتا۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھااپنے والد محترم کے گھر میں بڑی نازو نعم والی زندگی گذارتی تھیں۔اس لئے کہ ان کے والد محترم حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کافی متمول اورعرب کے مشہورتاجر تھے۔لیکن جب سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجیت میں آئیں اوررخصتی کے بعد آپ کے گھر تشریف لائیں تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رنگ میں رنگ گئیں۔حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت اورصحبت کی برکت سے اعلیٰ درجہ کی قناعت پسند ہوگئیں۔آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کی قناعت کایہ عالم تھا کہ آپ کو خدائے واحد نے اختیار دیا تھاکہ آپ فرمائیں تو آپ کے لئے پہاڑوں کو سونا بنادیا جائے مگر آپ نے یہ جواب دیا کہ الٰہ العالمین میں تو یہ چاہتاہوں کہ ایک دن بھوکا رہوں اورایک دن پیٹ بھر کر کھایا کھایاکروں تاکہ میں آپ کا شکر گذاربندہ بنوں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار طورپر زہد اورفقرکو پسند فرمایا۔آپ ؐ کی دعاؤں میں یہ بھی ایک دعا تھی۔اللھم احینی مسکینا وامتنی مسکینا واحشرنی فی زمرۃ المساکین۔اے اللہ مجھے مسکین بناکر زندہ رکھ اورمسکین بناکر موت عطافرمااورمساکین کی جماعت میں میر احشر فرما۔
یہی زہدو قناعت حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کی زندگی میں بھی نمایاں ہوگئی تھی۔چنانچہ آپ غیر معمولی سادگی کے ساتھ زندگی گذارتی تھیں۔پوری زندگی روکھی سوکھی کھاتی رہیں اورایک چھوٹے سے حجرہ میں بمشکل سات آٹھ گز کا ہوگا،جس کی چھت کے طورپر کھجور کی چھال اورنہنیاں ڈال دی گئی تھیں۔اورچھت بھی اتنی نیچی کہ کھڑے ہونے والے کا سر لگ جائے۔اسی حجرے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ زندگی گذارکر چلی گئیں۔
ایک زمانہ ایسا بھی آیا کہ مسلمانوں پر فتوحات کی کثرت ہونے لگیں۔اس زمانے میں حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ اورحضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی طرف سے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کی خدمت میں بڑے بڑے ہدایا پیش کئے جاتے تھے لیکن آپ تھیں کہ ادھر ہدایا آئے ادھر آپ بھر بھر تقسیم فرمادیتیں۔
ایک دفعہ حضرت عائشہ ؓ کی خدمت میں دوبورے درہموں کے بھر کر پیش کئے گئے،جن میں ایک لکھ سے زیادہ درہم تھے۔ام المؤمنین رضی اللہ عنہا نے طباق منگایا اوران کو بھر بھر کر تقسیم فرمانا شروع کردیا۔اورشام تک سب ختم کردئیے ایک درہم بھی باقی نہ چھوڑا۔خودروزہ دار تھیں۔افطار کے وقت باندی سے کہا کہ افطار کے لئے کچھ لے آؤ۔وہ ایک روٹی اورزیتون کا تیل لے کر آئیں اورعرض کرنے لگیں۔کیا اچھا ہوتاکہ ایک درہم کا گوشت ہی منگالتیں۔آج ہم روزہ گوشت سے افطار کرلیتے۔فرمانے لگیں اب طعنہ دینے سے کیا ہواس وقت یاد دلاتی تو منگالیتی۔
ایک دفعہ آپ روزہ دار تھیں اور گھر میں ایک روٹی کے سوا کچھ نہ تھا۔ایک فقیر نے آکر سوال کیا۔خادمہ سے فرمایاکہ وہ روٹی اس کو دیدو۔اس نے عرض کیا کہ افطار کے لئے گھر میں کچھ بھی نہیں ہے۔فرمایا:کیا مضائقہ ہے وہ روٹی اس کو دے دو۔اس نے دے دی۔
حضرت عروہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک دفعہ دیکھا کہ ستر ہزار درہم صدقہ کیے اوراپنے کرتے میں پیوند لگ رہاتھا۔
حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیزہ صحبت کی برکت سے یہ سیکھ لیا تھا کہ دنیا چند روزہ ہے اور آخرت کی زندگی دائمی ہے۔دنیا میں قناعت کے ساتھ زندگی گذارنے والا آخرت کی لامحدود زندگی میں آرام و راحت سے رہے گا۔بقدرضرورت مال پر اکتفاء اور حرص و طمع سے دوری اِن حضرات کی زندگیوں کا خوبصورت اورلازمی حصہ تھا۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اگر آدمی کے لئے دو جنگل سونے کے ہوجائیں تب بھی وہ تیسرے کی فکرمیں لگ جائے گا۔
ایک موقعہ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
منھومان لایشبعان منھوم فی العلم ومنھوم فی المال
دوحریص ایسے ہیں کہ ان کا کبھی پیٹ نہیں بھرنا ایک علم کا حریص۔اورایک مال حریص۔ 
حرص و طمع اورقلت قناعت چوں کہ انسان کی جبلت اورفطرت میں ہے۔اس لئے حق تعالیٰ شانہ اورحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قناعت کی بڑی تعریف فرمائی ہے۔آپ ؐ  کا ارشاد ہے کہ قیامت کے دن کوئی شخص غریب ہو یا امیر ایسا نہ ہوگا جو اس کی تمنا نہ کرے کہ کاش اس کو دنیا میں صرف ضرورت کی روزی ملتی۔اس سے زیادہ نہ ملتی۔زہد کو اختیار کرنا اورقناعت والی زندگی کو حاصل کرنا اسلام میں مطلوب ہے۔لیکن یہ بات یاد رہے کہ اس کے معنی صرف یہ ہیں کہ انسان کے پاس جو کچھ ہے اسے اس پر اتنااعتمادنہ ہو جتنا خدا کے پاس ہے۔ضرورت کی چیزیں اوراسبابِ راحت ضروری ہوں مگر اس کا دل ان میں الجھا ہواہرگز نہ ہو۔وہ پورے طورپر خداہی کی طرف متوجہ ہو۔اس میں غفلت نہ ہو۔رذائل سے دور ہو۔برے وساوس سے چوکنا رہنے والا ہو یہ حقیقت میں زاہد ہے۔اورتفصیل کریں تو یوں کہہ سکتے ہیں کہ دنیا کے ساتھ تعلق و اشتغال اورمحبت بقدر ضرورت ہوباقی اپنی تمام ترکاوشیں عالم آخرت کے لئے ہوں اورکسی بھی حال میں خدا اوررسول اورآخرت سے غافل نہ ہو ایسا شخص زاہد کہلانے کا مستحق ہے۔
حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ دنیا کے بارے میں زہد اوربے رغبتی حلال کو اپنے اوپر حرام کرنے اوراپنے مال کو برباد کرنے کا نام نہیں ہے بلکہ زہد کا اصل معیار اوراسکا تقاضایہ ہے کہ جو کچھ تمہارے پاس اورتمہارے ہاتھ میں ہو اس سے زیادہ اعتماد اوربھروسہ تم کو اس پر ہو جو اللہ کے پاس اوراس کے قبضے میں ہے۔اوریہ کہ جب تم کو کوئی تکلیف اورناخوشگواری پیش آئے تو اس کے اخروی ثواب کی چاہت اوررغبت تمہارے دل میں زیادہ ہو بہ نسبت اس کے کہ وہ تکلیف اورناگواری کی بات تم کو پیش ہی نہ آئے۔(ترمذی)
خلاصہ یہ ہے کہ یہ دنیا درحقیقت اس لئے ہے کہ ہم اس میں رہ کر اپنی آنے والی زندگی یعنی آخرت کے لئے تیاری کرلیں۔اورآخرت کو فراموش کئے بغیر اس دنیا کو اس طرح استعمال کریں کہ اس میں ہماری دنیوی ضروریات بھی پوری ہوں اورساتھ ساتھ آخرت کی زندگی کی بھلائی اورفلاح بھی پیش نظر ہو۔ایک حدیث پر اپنی بات ختم کرتاہوں۔جلیل القدر صحابی حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک موقعہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے مونڈھے کو پکڑا اورارشاد فرمایا:کن فی الدنیا کانک غریب اورعابر سبیل۔دنیا میں اس طرح رہو گویا تم پردیس میں ہو یا ایک راہ گیر اورمسافر ہو(بخاری ۸/۹۸)
9611021347

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے