ترجمان دیوبند اورسلف کی مثالی یادگار ‏حضرت مفتی فضیل الرحمن ہلال عثمانی ‏Hazrat Mufti Fazil-ur-Rehman Hilal Usmani, ‏the ideal monument of Deoband and Salaf


حضرت مفتی فضیل الرحمن  ہلال عثمانی

مفتی خلیل الرحمن قاسمی برنی  9611021347

زمانہء طالب علمی میں ایک مختصر کتاب ہاتھ لگی،جس کا عنوان تھا ”وہ بندہ ء مولا صفات“ میں نے وہ کتاب پوری پڑھی،بہت اچھی لگی یہ کتاب دارالعلوم دیوبند کے قدیم استاذِ تجوید و قرأت حضرت قاری جلیل الرحمن عثمانیؒ کی مختصر سوانح حیات تھی اوراس کے مصنف خود انہیں کے فرزند ارجمند حضرت مولانافضیل الرحمن ہلال عثمانیؒ تھے۔میں اس سے پہلے نہ حضرت قاری صاحب قدس سرہٗ سے واقف تھا اورنہ ان کے فرزند ارجمند حضرت مفتی صاحب ؒ سے۔والد صاحب سے کتاب کا تذکرہ کیا اورکہا کہ کتاب پڑھ کر صاحب تذکرہ حضرت قاری جلیل الرحمن عثمانی کی عظمت کے نقوش دل پر مرتسم ہوچکے ہیں ساتھ ہی لکھنے والے حضرت مولانامفتی فضیل الرحمن عثمانیؒ کے انداز تحریر نے بھی بہت متأثر کیا ہے۔اس پر والد محترم حضرت مولاناقاری شفیق الرحمن صاحب نے صاحب تذکرہ حضرت قاری جلیل الرحمن صاحب عثمانی قدس سرہٗ کا اپنے انداز میں مجھے تعارف کرایااورکہا کہ وہ بہت بااخلاق اوروضعدار انسان تھے۔خاندانی اوصاف کے حامل تھے،اورخوش اخلاق،خوش کردار اورخوش کلام بھی تھے۔والد محترم نے بتایاکہ ان کی ایک خوبصورت عادت یہ تھی کہ جب بھی ان سے کوئی ان کی درسگاہ ملنے جاتاتو اس کی خاطر تواضع بہت کریمانہ انداز سے فرماتے تھے۔ان سے ملنے والا ان سے متأثر ہوئے بغیر نہ رہتا۔حسین و جمیل اورخوبصورت دل رکھنے والے انسان تھے۔
حضرت قاری صاحب قدس سرہٗ ایک طویل عرصہ تک دارالعلوم دیوبند میں تجوید وقرأت کی خدمات انجام دیتے رہے،پھر ان کے ریٹائرڈ ہونے کے بعد ان کی جگہ والد محترم کا تقرر بحیثیت استاذِ تجویدوقرأت عمل میں آیا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت قاری صاحب قدس سرہٗ کا تعلق جس خاندان اورگھرانے سے تھا وہ پورا ہی گھرانہ علم و فضل اورشرافت و نجابت میں معروف تھا۔اسی گھرانے میں حضرت مولانامفتی فضیل الرحمن ہلال عثمانی نے 1939ء میں آنکھیں کھولیں۔آپ کا سلسلہء نسب چوالیسویں پشت میں دامادِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عثمان غنی ؓ سے جاکر مل جاتاہے۔آپ کے دادا محترم حضرت مولانامفتی عزیز الرحمن نوراللہ مرقدہ دارالعلوم دیوبند کے مفتی اول تھے۔فتاویٰ دارالعلوم دیوبند انہیں کے قلم گوہربار سے صادر ہونے والے فتاووں کا عظیم مجموعہ ہے وہ اپنی فقہی بصیرت اورخداداد ذہانت،نیز تقویٰ وطہارت کی بنیاد پر تمام اکابر کے معتمد تھے،جب کہ ان کے والد یعنی مفتی فضیل الرحمن ہلال عثمانی ؒ کے پردادا حضرت مولانا فضل الرحمن عثمانیؒ دارالعلوم دیوبند کے بانیوں میں سے تھے۔علم و عمل کے کئی تاجدار اوراصحاب فضل و کمال کی فہرست میں عبقری شان رکھنے والے کئی اساطین اورجبال علم اسی خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔اِن حضرات میں شیخ الاسلام علامہ شبیر احمدعثمانی،حضرت مولانا حبیب الرحمن عثمانی اورحضرت مفتی عتیق الرحمن عثمانی قدس اللہ اسرارہم اپنی جلیل القدر خدمات اورروشن کارناموں کی بدولت بہت متعارف ہیں۔
حضرت مولانافضیل الرحمن عثمانی بہت تھوڑی عمر میں مکتب میں داخل کئے گئے۔جسمانی کمزوری اورباربار بیمارہونے کے باعث حفظ قرآن کی دولت سے بہرہ ور نہ ہوسکے مگر فارسی نصاب میں حیرت ناک طریقے سے کامیابی حاصل کی۔باقاعدہ درس نظامی میں داخل ہوئے تو آپ کے جوہر کھلے۔آپ قوت حافظہ اورذہانت و ذکاوت میں بے نظیر تھے،اس دوران انہوں نے اپنی خوابیدہ صلاحیتوں کے چراغ خوب خوب روشن کیے۔دارالعلوم دیوبند کے مؤقر اساتذہ کی انہیں قربت حاصل رہی اوروہ حصول علم کے لئے مسلسل کوشاں رہے۔شیخ الاسلام حضرت مولاناسید حسین احمد مدنیؒ شیخ الادب حضرت مولانااعزاز علی صاحب امروہی ؒ،امام المعقولات و المنقولات حضرت علامہ ابراہیم بلیاویؒ،فقیہ النفس حضرت مولانا مفتی مہدی حسن شاہ جہاں پوریؒ اورحضرت مولانا محمد سالم قاسمیؒ جیسے یگانہئ روزگار اورماہرین علوم و فنون آپ کے نمایاں اساتذہ تھے۔1956ء میں امتیازی نمبرات کے ساتھ دارالعلوم دیوبند سے سند فراغت حاصل کی۔اورپھر دوسال کے بعد دارالعلوم دیوبند میں تدریسی خدمات انجام دینی شروع کیں۔دارالعلوم دیوبند میں آپ کا دورتدریس بارہ سال کو محیط ہے،اس عرصہ میں اپنی نیک سیرت اورفرائض میں غیرمعمولی لگن اورمحنت کے باعث اپنے بڑوں کا دل جیت لیا تھا۔حضرت قاری محمد طیب صاحب قدس سرہٗ آپ پر بہت اعتماد فرماتے تھے۔
حضرت مفتی صاحب نور اللہ مرقدہٗ بہت احسان شناس انسان تھے۔وہ اپنے اکابر و اساتذہ کے تئیں عقیدت و احترام میں مثالی کردار کے حامل تھے۔اسی مبارک جذبے نے ان کے قلم سے ان کے اساتذہ کے تذکرے صادر کرائے۔اس سلسلے میں ان کی کتاب ”میرے قابل احترام اساتذہ ء کرام“ علمی حلقوں میں بہت وقعت کی نگاہ سے دیکھی گئی اورمقبول ِ عام و خاص ہوئی۔
حضرت مفتی ہلال عثمانی 1973ء کو اپنے اساتذہ اوربالخصوص حضرت قاری محمد طیب صاحب کے ایماء اورمشوروں سے مفتئ اعظم کی حیثیت سے مالیرکوٹلہ پنجاب منتقل ہوئے اوریہاں آکر انہوں نے اپنی علمی و فقہی بصیرت اورخداداد صلاحیت کو بروئے کار لاتے ہوئے امت کو بے پناہ فائدہ پہنچایا۔
تیس سال سے زائد انہوں نے یہاں کے منصب افتاء کو روق بخشی۔اس درمیان ان کے قلم سے ہزاروں فتاویٰ نکلے جو امت کی راہنمائی کا سبب بنے،جب کہ ساٹھ سے زائد کتابیں منصہ شہود پر آئیں۔ان کی تحریر یں شگفتہ،سلیس اورسادہ ومؤثر ہوتی ہیں۔بڑے اورپھیلے ہوئے مضامین کو مختصر اورجامع انداز میں پیش کرنے کا سلیقہ انہیں خوب آتاتھا۔تحریر و تقریر دونوں میں ان کا اپنا ایک منفرد طرز تھا۔یہ کہنا صحیح ہوگا کہ وہ ایک صاحبِ طرزاورصاحب اسلوب قلم کار صاحب ِ فکرونظر مقرر اوربہت عظیم دیدہ ور اورحق شناس و حق گو انسان تھے۔انہوں نے اپنے آباؤ اجداد کی علمی تاریخ وروایات کو نہ صرف آگے بڑھایا،بلکہ اس قافلے کے سربرآوردہ افراد کے اختصاصات و امتیازات کو بھی نئے وروشن معانی مفاہیم سے روشناس کرایا۔تاریخ دیوبند سے واقفیت رکھنے والے احباب اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ دیوبند میں عثمانی خاندان کی اپنی ایک تاریخ رہی ہے۔اس خاندان کی علمی،دینی،اصلاحی خدمات کا جائزہ اگر لیا جائے تو معلوم ہوگا اس خاندان میں کئی ایسے عباقرہ ء وقت اوراساطین علم نے جنم لیا ہے جن کی روشن اورزریں خدمات سے عالم فیضیاب ہوا اورآج بھی ان کے فیوض و برکات سے ایک بڑا طبقہ سیراب ہورہاہے۔
حضرت مفتی فضیل الرحمن ہلال عثمانی نے نہ صرف اپنے خاندان کا نام روشن کیا،بلکہ اسلافِ دیوبند اوراکابر ین ِ امت کے اعتماد کوبھی باقی رکھا۔
حضرت مفتی صاحب مرحوم نے اپنا میدان خود بنایاتھا اس لئے لوگوں میں ان کا تعارف ان کے کام سے تھا ان کی علمی وقلمی خدمات ملک کے طول وعرض میں اس طرح پھیل گئی تھیں کہ اخیر میں ان کا شمار ملک کے ان علماء میں ہوتا تھا جو ملت اسلامیہ ہند کے لئے دل ِدرد مند اورروشن فکر کے ساتھ دینی و علمی سطح پر سیادت و قیادت کے فرائض بہتر سے بہتر طریقے سے انجام دینے کا سلیقہ رکھتے تھے۔الغرض وہ امت کے لئے بہت مفید اورکارآمد شخصیت کے حامل انسان تھے۔متنوع موضوعات پر آپ کی تحریریں خاصے کی چیز ہیں لیکن تفسیر نورالقرآن،معمار انسانیت اسلامی قانون نکاح،طلاق،وراثت،اصلاح معاشرہ کے چند اہم گوشے اورمنتخب فتاویٰ آپ کے علمی باقیات اورلازوال علمی شاہ کارہیں۔
۵/دسمبر 2019ء کو علم و قلم کا یہ شہسوار دنیا کو الوداع کہہ گیا۔مقبرہ قاسمیہ میں آسودہ ء خواب ہیں۔خدا ان کی قبر کو نورسے بھر دے۔آمین۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے