حضرت تھانوی کے آخری شاگرد.خطیب الاسلام حضرت مولانا محمد سالم صاحب قاسمی نوراللہ مرقدہ



مفتی خلیل الرحمن قاسمی برنی
  9611021347

14/اپریل 2018ء کو بعدنماز ظہر یہ افسوس ناک اطلاع موصول ہوئی کہ حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب سابق مہتمم دارالعلوم دیوبند کے فرزند ارجمند،حجۃ الاسلام حضرت الامام نانوتوی قدس سرہٗ کے پڑپوتے اورحکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی قدس سرہٗ کے آخری شاگرد خطیب الاسلام حضرت مولانا محمد سالم قاسمی بھی دنیا کو الوداع کہہ گئے۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔
موصوف چند دنوں سے کافی بیمار تھے،اورمختلف عوارض و امراض کے سبب حددرجہ کے ضعف و نقاہت سے دوچار تھے،جس کی وجہ سے انہیں ہسپتال میں داخل کیا گیا تھا۔
حضرت مولانا محمد سالم قاسمی ؒ اس دور کے مایہ ناز علماء میں سے تھے۔تقویٰ،تدین،اصابت ِرائے،حلم و فراست،اعلیٰ درجہ کی ذہانت علم میں گہرائی،وجاہت و ذکاوت اوروسعت ِ مطالعہ ان کے نمایاں اوصاف تھے۔
آپ مؤرخہ22/جمادی الثانی1344؁ھ مطابق 8/جنوری1926ء بروز جمعہ کو ہندوستان کی مشہور علمی بستی قصبہ دیوبند ضلع سہارنپور میں پیدا ہوئے۔سات سال کی عمر میں ابتدائی تعلیم قرآن مجید سے شروع کی،اورحضرت قاری شریف حسن گنگوہیؒ سے ناظرہ و حفظ قرآن کی تعلیم مکمل کی۔پھر چار سالہ فارسی کے نصاب کی تکمیل حضرت مولانا محمد عاقل،مولانا محمد ظہیر،اورمولانامحمد حسن وغیرہ سے کی۔
1362ھ میں آپ نے عربی نصاب کا آغاز کیا،اوراس وقت کے ماہر اساتذہ کی زیرنگرانی مختلف علوم و فنون کی تکمیل کرکے 1367ھ مطابق1948؁ء میں ازہر ہند دارالعلوم دیوبند سے فراغت حاصل کی۔آپ کے اساتذہ میں شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی،حکیم الامت حضرت مولانااشرف علی تھانوی،شیخ الادب حضرت مولانا اعزاز علی امروہوی،جامع المعقول والمنقول حضرت علامہ ابراہیم بلیاوی،حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب قاسمی،مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی شفیع صاحب دیوبندی،شیخ التفسیر حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلوی سرفہرست ہیں۔ان میں سے ہر ایک آسمان علم و فضل کا نیر تاباں اورمیدان فقہ و بصیرت کا شہسوار تھا ورع و تقویٰ و خلقِ حسن تو گویا ان کا شعار تھا۔
ممتاز عالم دین اورمشہور محدث شیخ الحدیث حضرت مولانامحمد زکریا صاحب قدس سرہ اورعرب کے عظیم محدث شیخ عبداللہ بن محمد الناخی سے بھی آپ کو اجازت حدیث حاصل تھی۔
دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد دارالعلوم ہی میں آپ کا بحیثیت مدرس تقررہوگیا۔
شروع میں ابتدائی کتب نورالایضاح اورترجمہء قرآن پاک کا سبق آپ سے متعلق رہا،بعد ازاں متوسط کتب اورپھر بڑی کتابیں جیسے شرح عقائد مشکوٰۃ،ابوداؤد شریف اورصحیح  بخاری وغیرہ پڑھانے کا آپ کو شرف حاصل رہا۔
حضرت مولانا  محمد سالم صاحب قاسمی ؒ عظیم باپ کے عظیم فرزند تھے۔انہیں اپنے والد محترم کی بہت سی خوصیات اورخوبیاں وراثت میں ملی تھیں۔حضرت مہتمم صاحب قدس سرہٗ کی طرح ان کی شخصیت بھی بڑی دل نواز اورعلم و عمل سے معمور تھی وہ اوصاف حسنہ میں اپنے والد محترم کا عکس جمیل اور پرتو تھے۔
آپ کے معاصر ین اوررفقائے تعلیم میں حضرت مولانا سید اسعد مدنی ؒ ابن شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ،مولانا عتیق الرحمن سنبھلی ابن مولانا منظور نعمانیؒ اورمولانا سید رابع حسنی ندوی جیسے بلند پایہ اصحاب فضل و کمال شامل ہیں۔
حضرت قاری محمد طیب صاحب قدس سرہٗ کے بعدآپ ہی ایسی شخصیت تھے جن کو حضرت نانوتوی قدس سرہٗ کے علوم و معارف کی تفہیم و تشریح کا مکمل سلیقہ تھا۔علوم نانوتوی اورمعارف قاسمی کے وہ ادق ترین مضامین اورمشکل ترین مسائل جن کا درک عام علماء کو نہیں ہوتا تھا آپ ان کو نہایت ہی خوش اسلوبی کے ساتھ آسان پیرائے میں بیان فرماتے۔
مولانا کی کئی زریں خدمات میں ایک اہم خدمت دارالعلوم دیوبند میں قائم ایک تحقیقی شعبہ مرکز المعارف کی نگرانی ہے۔ارباب ِ دارالعلوم نے حضرت مولانا محمد سالم صاحب کے ذوق علم اورمعیار تحقیق کی مناسبت سے یہ شعبہ ان کےسپرد کیا تھا،جس میں آپ کے زیرنگرانی کئی اہم کام وجود میں آئے۔جامعہ دینیات دیوبند کا قیام بھی مولانا کے زندہ جاوید کارناموں میں سے ایک اہم کارنامہ ہے۔اسی طریقہء تعلیم کے ذریعہ آپ کا مقصد یہ تھا کہ عصری تعلیم گاہوں میں زیر تعلیم طلبہ و طالبات کو مراسلاتی طریقہ ء تعلیم کے ذریعہ اسلامی علوم سے آراستہ کردیا جائے۔بلاشبہ آپ اپنی اس محنت اورمبارک مقصد میں کامیاب رہے۔ملک اوربیرون ملک ہزاروں طلبہ نے اس ادارہ سے فیض حاصل کیا جو درحقیقت مولانا کی تعلیمی سرگرمیوں کا ایک روشن باب ہے۔
دارالعلوم دیوبند کے قضیہ نا مرضیہ کے بعد جب دارالعلوم وقف دیوبند کی تاسیس عمل میں آئی تو حضرت قاری صاحب قدس سرہٗ کی وفات کے بعد آپ ہی اس ادارہ کے مہتمم مقرر ہوئے۔آپ نے اپنی تمام تر صلاحیتیں اس ادارہ کی ترقی کے لئے صرف فرمادیں اورپھر لوگوں نے دیکھا کہ چند ہی دنوں میں یہ ادارہ بین الاقوامی شہرت کا حامل ادارہ بن گیا۔دارالعلوم وقف دیوبند میں ایک طویل عرصے تک آپ بخاری شریف کا درس دیتے رہے۔آپ کی درسی تقریریں عام فہم،ٹھوس علمی دلائل سے مزین اورطلبہ کے ذہن میں بیٹھ جانے والی ہوتی تھیں۔
آپ کی تحریری سرگرمیوں میں آپ کی کئی اہم تصانیف،مختلف سیمیناروں کے لئے آپ کے بیش قیمت علمی مقالات اوربہت سی کتابوں پر وقیع مقدمات آپ کی یادگار ہیں۔علماء نے مستقل تصانیف میں درج ذیل کتابوں کا تذکرہ کیا ہے:
(۱)مبادیئ التربیۃ الاسلامیۃ(عربی)تاجدار ارض حرم کا پیغام(۳) مرد غازی(۴) ایک عظیم تاریخی خدمت۔
مولانا مرحوم متنوع کمالات اورمختلف خوبیوں کے جامع تھے۔آپ کی ایک خوبی یہ تھی کہ آپ اپنے اسلاف کی طرح وقت کے بڑے پابند تھے۔آپ کے تلامذہ کے بقول طلبہ درسگاہ میں آپ کی آمدپر اپنی گھڑیوں کو سیٹ کرتے تھے۔
اس سلسلے میں آپ اپنے استاذ محترم حضرت مولانا محمد اعزاز علی صاحب امروہوی قدس سرہ ٗ کے نقش قدم پر تھے،کہاجاتاہاے کہ حضرت شیخ الادب وقت کی منٹوں اورسیکنڈوں کے اعتبار پابندی اوررعایت و لحاظ کر نے میں ضرب المثل تھے۔
آپ کا ایک نمایاں وصف اورواضح خصوصیت یہ تھی کہ آپ سخت سے سخت حالات کا مقابلہ مکمل استقامت اورصبرو حوصلہ کے ساتھ کرتے۔مصائب و آلام اورمشکلات و پریشانیوں کی راہ سے مسکراکر گذرجانا اورپھر کامرانیوں کی منزلوں کو سرکرنا آپ کی زندگی کا ایک حصہ بن گیا تھا۔ایسا لگتا ہے کہ شاعر نے شاید آپ ہی کے لئے یہ شعر کہا ہے۔ع  ؎
دامن جھٹک کے منزل غم سے گذرگیا
مڑمڑکےدیکھتی رہی گردِ سفر اسے
دارالعلوم وقف کے قیام میں کئی چیلنجوں کا سامنا تھا مگر آپ نے پوری استقامت اورپھر حوصلہ کے ساتھ اپنے مشن کو جاری رکھا اورپھر لوگوں نے دیکھا کہ آج دارالعلوم وقف ایک عالمی ادارہ کی حیثیت سے متعارف ہے۔
آپ کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ آپ کے یہاں عفو و درگذر کو بہت اہمیت حاصل تھی۔آپ بہت ہی متحمل مزاج اورعفوودرگذر کرنے والے لوگوں میں سے تھے۔آپ میں انتقامی جذبہ بالکل نہیں تھا۔اختلافات کے موقع پر آپ کی طرف منفی ردعمل دیکھنے میں نہیں آیا اگر چہ حالات اشتعال انگزیز تھے مگر آپ مشتعل نہیں ہوتے۔یہ دراصل اسی جذبہ عفو اورتحمل مزاجی کا اثر تھا جو قدرت نے آپ کی طبیعت میں ودیعت کیا تھا۔
آپ مختلف اداروں اورتنظیموں کے قابل احترام ذمہ داراورعہدے دار رہے آپ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے تاحیات صدر رہے۔اسی طرح مجلس مشاورت کے صدر،دارالعلوم وقف دیوبند کے سرپرست،مجلس منتظمہ دارالعلوم ندوۃ العلماء کے رکن رکین،مجلس شوریٰ مظاہر العلوم وقف کے رکن،مسلم یونیورسٹی علیگڑھ کورٹ کے رکن اوراسلامک فقہ اکیڈمی کے سرپرست تھے۔
یہ عظیم صفات کا حامل انسان اورعلم و عمل کا آفتاب16/اپریل 2018ء کو داعی ء اجل کو لبیک کہہ گیا۔مقبرہء قاسمیہ میں آپ مدفون ہیں۔رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ۔
آسماں تیری لحد پے شبنم افشانی کرے
سبزہء نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے