مرزا محمود احمد کی بیماری کے آخری دس سال

مرتب از: خالد محمود۔ کراچی۔
اپنی بیماری حوالے سے مرزا محمود احمد کے بیان خود اس کی زبانی یہ ہیں،کہ: *مجھ پر فالج کا حملہ ہوا، اور اب میں پاخانہ پیشاب کے لیے بھی امداد کا محتاج ہوں، دو قدم بھی نہیں چل سکتا* (الفضل مورخہ 12 اپرپل 1955) *26فروری کو مغرب کے قریب مجھ پر بائیں طرف فالج کا حملہ ہوا، اور تھوڑے وقت کے لیے میں ہاتھ پاؤں سے معذور ہوگیا، ۔۔۔ دماغ کا عمل معطل ہوگیا، اور دماغ نے کام کرنا چھوڑ دیا* *میں اس وقت بالکل بیکار ہوں، ایک منٹ نہیں سوچ سکتا* (الفضل مورخہ 26 اپریل 1955) اب مرزا محمود احمد کی بیماری کا جائزہ ڈاکٹر اسماعیل کی رپورٹ کے مطابق لیا جاۓ، تو وہ ڈاکٹر اسماعیل کے مطابق کچھ یوں ہے،کہ: *بڑا الزام یہ لگایا جاتا ہے کہ خلیفہ عیاش ہے ، اس کے متعلق میں کہتا ہوں، میں ڈاکٹر ہوں ، اور میں جانتا ہوں، کہ وہ لوگ جو چند دن بھی عیاشی میں پڑ جائیں، وہ وہ ہوجاتے ہیں ، جنھیں انگریزی میں Wrech کہتے ہیں، ایسے انسان کا دماغ کام کا رہتا ہے، نہ ہی عقل درست رہتی ہے، نہ حرکات صحیح طور پر کرتا ہے، غرض سب قویٰ اس کے برباد ہوجاتے ہیں، اور سر سے پیر تک، اس پر نظر ڈالنے سے فوراً معلوم ہوجاتا ہے کہ وہ عیاشی میں پڑ کر اپنے آپ کو برباد کر چکا ہے، اسی لیے کہتے ہیں، "الزنا یخرج البناء"* *کہ زنا انسان کو بنیاد سے نکال دیتا ہے۔* بقول میاں عبدالمنان عمر جب خلیفہ صاحب کو مشہور ڈاکٹر جما کے پاس طبی معائنہ کے لیے لے جایا گیا، تو کسی نے ڈاکٹر صاحب سے پوچھا کہ خلیفہ صاحب کو کیا بیماری ہے ، تو ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ: *یہ بیماری کسی شریف آدمی کو نہیں لگتی* اور سید شہود احمد صاحب نے ، مرزا محمود احمد کی بیماری کا جو آنکھوں دیکھا حال بیان کیا ہے وہ کچھ اس طرح سے ہے کہ: *اللہ تعالیٰ کا عذاب تو میں نے مرزا محمود احمد کی زندگی کے آخری سالوں میں دیکھ لیا تھا، مرزا محمود ذہنی طور پر بالکل ماؤف ہوچکا تھا، جسم سکڑ گیا تھا، زبان گنگ تھی، جسم زخموں سے بھرا ہوا تھا، زخموں سے بدبو آتی تھی، کوئی آدمی پاس کھڑا نہ ہوسکتا تھا، کبھی کبھی اپنا گند منہ پر بھی مل لیتا تھا، اس وجہ سے اس کے ہاتھ پاؤں باندھ دیے جاتے، ہر وقت سر دائیں بائیں ہلاتا رہتا ، خاندان کے تمام افراد کو اتنی نفرت تھی ، اس کے کمرے میں جانا پسند نہیں کرتے تھے، بیویاں تو پہلے ہی چھوڑ چکی تھیں،* (ربوہ کا راسپوٹین، مرزا محمود کی کہانی اس کے مریدوں کی زبانی، دور حاضر کا دجال، ص، 157 تا 158، از ، طاہر رفیق صاحب، ) ایسے حقائق کو دیکھ پڑھ کر بھی اگر قادیانیوں کو عبرت حاصل نہیں ہوتی، تو پھر سمجھ لینا چاہیے کہ ان کے دلوں کو مہر لگ چکی ہے،

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے