خواتین اسلام کے کارنامے شیخ عبدالقادر جیلانی کی والدہ ماجدہ کا کردار

شیخ عبدالقادر جیلانی بچپن میں مدرسے میں پڑھنے جاتے تھے ۔ ماں نے ان کے کپڑوں میں پیسے سی دیئے اور نصیحت کی کہ بیٹے !تمہیں ہمیشہ سچ بولنا ہے ۔ راستے میں قافلے کو ڈاکوؤں نے لوٹ لیا ، ایک ڈاکو نے ان سے بھی پوچھ لیا کہ کیا تمہارے پاس پیسے ہیں ؟ بچے نے صاف بتادیا کہ ہاں میرے پاس پیسے ہیں ، ڈاکو ان کو اپنے سردار کے پاس لے گیا ۔ سردار بڑا حیران ہوا کہ بچے کو نہ تو اپنی جان کا خوف ہے اور نہ ہی مال کے ضائع ہونے کا ڈر ہے ۔ سردار نے پوچھا کہ تم نے سب کچھ سچ سچ کیوں بتادیا ؟ لوگ تو ایسے موقع پر اپنے مال کو چھپاتے ہیں ، بچہ کہنے لگا کہ میری امی نے کہا تھا کہ ہمیشہ سچ بولنا ، ڈاکوؤں کے سردار پر ایک بچے کی بات کا اتنا اثر ہوا کہ اس نے سوچا کہ یہ چھوٹا سا بچہ اپنی ماں کی بات کا اتنالحاظ رکھتا ہے ہم نے بھی کلمہ پڑھا ہوا ہے ،مگر ہم تو الله تعالی کے دین کا اتنا لحاظ نہیں رکھتے ۔ چنانچہ وہ سب ڈاکو توبہ تائب ہو کر نیکوکا ر بان گئے ۔ یہ بچہ بڑا ہو کر اپنے وقت کا ایک بڑاولی بنا ، جن کوشیخ عبدالقادر جیلانی کہتے ہیں ۔ اس طرح ایک اور کا میاب شخصیت کے پیچھے آپ کو عورت کا کردار ماں کی شکل میں نظر آئے گا ۔ اس پاکباز ، عابدہ ، زاہدہ اور خدا رسیدہ خاتون کی شادی کا واقعہ بھی بہت ایمان افروز ہے، ان کی شادی سید ابوصالح جنگی دوست سے ہوئی تھی جو ایک بڑے متقی اور خدا رسیدہ بزرگ تھے ۔ عنفوان شباب میں سید ابوصا لح اکثر ریاضت و مجاہدات میں مشغول رہتے تھے ، ایک دفعہ دریا کے کنارے عبادت کر رہے تھے ، کھانا کھائے ہوئے تین دن گزر چکے تھے ۔ اچانک ایک سیب دریا میں بہتا ہوا دکھائی دیا ، بسم اللہ کہہ کر اسے پکڑ لیا اور کھا گئے ۔ پھر دل میں خیال پیدا ہوا کہ معلوم نہیں اس سیب کا مالک کون ہے ، میں نے بغیر اجازت کھا کر امانت میں خیانت کی ہے ، یہ خیال آتے ہی اٹھ کھڑے ہوئے اور دریا کے کنارے کنارے پانی کے بہاؤ کے مخالف سمت سیب کے مالک کی تلاش میں چل پڑے ۔ کافی فاصلہ طے کرنے کے بعدان کولب دریا ایک وسیع باغ نظر آیا اس میں سیب کا ایک تناور درخت تھا جس کی شاخوں سے پکے ہوئے سیب پانی میں کر رہے تھے ، سید ابوصالح نے لوگوں سے اس باغ کے مالک کا پتہ دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ اس کے مالک جیلان کے ایک رئیس سید عبداللہ صومعی ؒ ہیں فور اَ ان کی خدمت میں حاضر ہوئے سارا ماجرا بیان کیا اور بصد ادب بلا اجازت سیب کھا لینے کے لئے معانی چاہی ۔ سید عبداللہ دیکھتے ہی سمجھ گئے کہ باوصف نوجوان ہے ، دل میں تڑپ اٹھی کہ اس کو سایہ عاطفت میں لے لوں ، فرمایا دس سال تک اس باغ کی رکھوالی کرو اور مجاہد ہ نفس کرو پھر معاف کرنے کا سوچوں گا ، سید ابوصالح نے شرط منظور کر لی اور دس سال تک باغ کی رکھوالی کرتے ہے ، ساتھ ہی سید عبدالله صومعیؒ کی ہدایات کے مطابق مدارج سلوک بھی لے کرتے رہے ۔ دس سال کے بعد سید عبداللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے فرمایا کہ دو سال اور باغ کی رکھوالی کرو ، سید ابوصالح نے مزید دو سال گزارے ، بارہ سال کی مدت پوری ہوئی تو سید عبداللہ نے ان کو بلایا اور کہا کہ اب تک تو آزمائش کی کسوٹی پر پورا اترا ہے ، اب ایک اور خدمت باقی ہے وہ یہ کہ میری ایک لڑکی ہے جو پاؤں سے لنگڑی ، ہاتھوں سے بھی کانوں سے بہری اور آنکھوں سے اندھی ہے ،اس بے چاری کو اپنے نکاح میں لے لو تو سیب بخش دوں گا ۔ سیدابوصالحؒ نے شرط منظور کر لی اور سیدعبداللہ نے اپنے لخت جگر کا نکاح ان سے کر دیا ۔ نکاح کے بعد سید ابوصالح پہلی مرتبہ اپنی پانی کے پاس گئے یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ان کے تمام اعضاء درست ہیں اور وہ کمال در جے کے حسن ظاہری سے متصف ہیں ۔ دل میں خیال آیا کہ یہ کوئی اور لڑکی ہے ، اسی وقت باہر نکلے اور شیخ عبدالله کی خدمت میں حاضر ہوکر واقعہ بیان کیا ۔ انہوں نے فرمایا کہ یہی میری لخت جگر تمہاری بیوی ہے ، اس کی جو صفات میں نے بیان کی تھیں اس کا مطلب یہ تھا کہ اس نے آج تک کوئی کام شریعت کے خلاف نہیں کیا اس لئے لنجی ہے ، آج تک گھر سے باہرقدم نہیں نکالا اس لئے لنگڑی ہے ، آج تک خلاف حق کوئی بات نہیں سنی اس لئے بہری ہے ، آج تک نامحرم پر نظر نہیں ڈالی اس لئے اندھی ہے ۔ اب سید ابوصالح سمجھے کہ ان کی بیوی کن خصوصیات کی حامل ہے ، اس طرح ان پاکباز ہستیوں کی رفاقت کا آغاز ہوا ،اور اس خاتون کے بطن سے سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانیؒ پیدا ہوئے ۔

ایک تبصرہ شائع کریں

1 تبصرے

Please do not enter any spam link in the comment box
براہ کرم کمنٹ باکس میں کوئی سپیم لنک نہ ڈالیں