ایک عورت کے بچے کو اللہ نے کس طرح سمندر میں سے زندہ نکال کر اسکے پاس پہچایا اللہ پر توکل اور خوف کا سچاواقعہ

ایک بزرگ فرماتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ طواف کر رہا تھا۔ دفعتاً میں نے ایک لڑکی کو دیکھا کہ اسکے کاندھے پر ایک کمسن بچہ بیٹھا ہے اور وہ یہ ندا کر رہی ہے کہ۔۔۔اے کریم اے کریم تیرا گذرا ہوا زمانہ کیسا موجب شکر ہے میں نے پوچھا وہ کیا چیز ہے جو تیرے اور مولٰی کے درمیان گذری۔کہنے لگی کہ میں ایک مرتبہ کشتی پر سوار تھی۔ اور تاجروں کی ایک جماعت میرے ساتھ تھی۔ طوفانی ہوا ایسے زور سے آٸی کہ وہ کشتی غرق (ڈوب) گئی۔ اور سب کے سب ہلاک ہو گئے۔ میں اور یہ بچہ ایک تخت پررہ گئے۔ اور ایک حبشی آدمی دوسرے تختہ پر۔ ہم تین کے سوا کوئی بھی ان میں نہ بچا۔ جب صبح کا چاندنا ہوا تو اس حبشی نے مجھے دیکھا، اور پانی کو ہٹاتا ہٹاتا میرے تختے کے پاس پہونچ گیا۔ اور جب اسکا تختہ میرے تختے کے ساتھ مل گیا تو وہ بھی میرے تختہ پر آگیا۔ اور مجھ سے بُری بات کی خواہش کرنے لگا۔ میں نے کہا کہ اللّٰه سے ڈر، ہم کس مصیبت میں مبتلاء ہیں اس سے خلاصی اسکی بندگی سے بھی مشکل ہو رہی ہے۔ چہ جائیکہ اسکا گناہ ایسی حالت میں کریں۔ کہنے لگا ان باتوں کو چھوڑ۔ خدا کی قسم یہ کام ہو کر رہے گا۔ یہ بچہ میری گود میں سو رہا تھا۔ میں نے چپکے سے ایک چٹکی اسکے بھرلی۔ جس سے یہ ایک دم رونے لگا۔ میں نے اس سے کہا کہ اچھا ذرا ٹہرجا۔۔۔ میں اس بچہ کو سلادوں پھر جو مقدر میں ہوگا وہ ہو جائے گا۔ اس حبشی نے اس بچے کی طرف ہاتھ بڑھا کر اسکو سمندر میں پھیک دیا۔ میں نے اللّٰه پاک سے کہا۔اے وہ پاک ذات جو آدمی کے اور اسکے دلی ارادہ میں بھی حائل ہو جاتی ہے۔ میرے اور اس حبشی کے درمیان تو ہی اپنی طاقت اور قدرت سے جدائی کر، بے تردد تو ہر چیز پر قادر ہے۔ خداکی قسم میں ان الفاظ کو پورا بھی نہ کرنے پائی تھی کہ سمندر سے ایک بہت بڑے جانور نے منہ کھولے ہوئے سر نکالا۔ اور اس حبشی کا ایک لقمہ بنا کر سمندر میں گھس گیا۔ اور مجھے اللّٰه ﷻ نے محض اپنی طاقت اور قدرت سے اس حبشی سے بچایا۔ وہ ہر چیز پر قادر ہے، پاک ہے، اسکی بڑی شان ہے۔اسکے بعد سمندر کی موجیں مجھے تھپیڑتی رہیں یہاں تک کہ وہ تختہ ایک جزیرہ کے کنارے سے لگ گیا۔ میں وہاں اتر پڑی اور یہ سوچتی رہی کہ یہاں گھاس کھاتی رہوں گی۔ پانی پیتی رہوں گی جب تک اللّٰه تعالٰی کوئی سہولت کی صورت پیدا نہ کرے۔ اسی کی مدد سے کوئی صورت ہو سکتی ہے۔ چار دن مجھے اس جزیرے میں گذر گئے۔ پانچویں دن ایک بڑی کشتی سمندر میں چلتی ہوئی مجھے نظر آئی میں نے ایک ٹیلہ پر چڑھ کر اس کشتی کی طرف اشارہ کیا۔ اور کپڑا جو میرے اوپر تھا اسے خوب ہلایا۔ اس میں سے تین آدمی ایک چھوٹی سی ناؤ پر بیٹھ کر میرے پاس آئے۔ میں انکے ساتھ اس ناؤ پر بیٹھ کر اس کشتی پر پہونچی تو میرا یہ بچہ جس کو حبشی نے سمندر میں پھیک دیا تھا۔ انمیں سے ایک آدمی کے پاس تھا۔ میں اسکو دیکھ کر اسپر گر پڑی۔ میں نے اسکو چوما، گلے سے لگایا۔ اور میں نے کہا کہ یہ میرا بچہ ہے۔ میرے جگر کا پارہ ہے۔ وہ کشتی والے کہنے لگے تو پاگل ہے۔ تیری عقل ماری گئی ہے۔ میں نے کہا کہ نہ میں پاگل ہوں، اور نہ ہی میری عقل ماری گئی ہے۔ میرا عجیب قصہ ہے پھر میں نے اپنی سر گزشت سنائی۔ یہ ماجرا سن کر سب نے حیرت سے سر جھکا لیا۔ اور کہنے لگے تو نے بڑی حیرت کی بات سنائی۔اور اب ہم تجھے ایسی بات سنائیں گے جس سے تجھے تعجب ہوگا۔۔۔!!! (پھر ان لوگوں نے اپنی کہانی کچھ اس طرح سنائی):- ہم اس کشتی میں بڑے لطف سے چل رہے تھے۔ ہوا موافق تھی اتنے میں ایک جانور سمندر کے پانی کے اُوپر آیا۔ اسکی پشت پر یہ بچہ تھا۔ اور اسکے ساتھ ہی ایک غیبی آواز ہم نے سنی۔ کہ اگر اس بچہ کو اسکی پشت پر سے اٹھا کر اپنے ساتھ نہ لیا تو تمہاری کشتی ڈبو دی جائے گی۔ ہم میں سے ایک شخص اٹھا اور اس بچہ کو اسکی پشت پر سے اٹھا لیا۔ اور وہ جانور پھر پانی کے اندر چلاگیا۔ تیرا واقعہ اور یہ واقعہ دونوں بڑے حیرت انگیز ہیں۔ اور اب ہم سب یہ عہد کرتے ہیں کہ آج کے بعد سے اللّٰهﷻ ہمیں کبھی کسی گناہ پر نہ دیکھے گا۔ اسکے بعد ان سب نے توبہ کی۔۔۔۔۔وہ پاک ذات کتنی مہربان ہے۔ بندوں کے احوال کی خبر رکھنے والی ہے۔ بہترین احسانات کرنے والی ہے۔ وہ پاک ذات مصیبت زدوں کی مصیبت کے وقت مدد کو پہونچنے والی ہے۔ سبق:-ایک طرف یہ عورت جس کے اعمال صالحہ اور اللّٰه پر یقین کامل نے اسے اور اس کے بچے کی کس طرح حفاظت کی، اور آج ہمارے اعمال کہ سمندر کے باہر رہتے ہوئے کبھی سیلاب کبھی طوفان تو کبھی کورونا جیسی وباء ہمیں پرشان کئے ہوئے ہے باوجود اس کے ہم یہ سوچنے سے قاصر ہیں کہ یہ سب کیوں ہے، ہمیں چاہیئے کہ ہم اپنا احتساب کریں اور اللّٰه سے معافی مانگیں اور توبة نصوح کریں تاکہ اللّٰه تعالٰی ہمیں ان مشکلات سے نجات عطا فرمائے۔۔۔آمین

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے