لاش ‏نہیں ‏ملی

لاش نہیں......... ملی
معروف صحافی *جناب شورش کاشمیری رحمه الله* نے اپنے *ہفت روزہ چٹان* میں ایک واقعہ لکھا کہ 1946ء کے انتخابات کا زمانہ تھا *حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمه الله* پنجاب یا سرحد کے سفر سے واپس جارہے تھے
*مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن* کے نوجوانوں نے جالندھر کے اسٹیشن پر اپنے لیڈر *شمس الحق* کی قیادت میں *حضرت مدنی رحمه الله* کی توہین کی انہیں گالیاں دیں اور برا بھلا کہا:
*شمس الحق* نے لیڈری کے زعم میں *حضرت مدنی رحمه الله* کی داڑھی پکڑ کر کھینچی بلکہ شاید چہرے پر طمانچہ بھی مارا۔ *حضرت مدنی* صبر کی تصویر بنے رہے آہ تک نہ کی۔
ان نوجوانوں نے واپس جاکر *علامہ اقبال* کے جگری دوست *مولانا عظامی* کو اپنا یہ کارنامہ سنایا تو وہ کانپ اٹھے جسم پر لرزہ سا طاری ہو گیا کپکپاتی ہوئی آواز میں انہوں نے کہا:
*اگر یہ واقعہ سچ ہے تو جس نے حضرت مدنی رحمه الله کی داڑھی پر ہاتھ ڈالا ہے اس کی لاش نہیں ملے گی اسے زمین جگہ نہیں دے گی۔*
چنانچہ ایسا ہی ہوا
یہ نوجوان لائل پور جسے اب فیصل آباد کہا جاتا ہے میں قتل و غارت کا شکار ہو گیا آج تک اس کی نعش کا پتہ بھی نہیں چلا نہ کفن ملا نہ قبر نصیب ہوئی
خود لیگ والے بھی کچھ نہ بتا سکے جتنے منہ اتنی باتیں کسی نے کہا اسے اینٹوں کے بھٹے میں زندہ جلا دیا گیا کسی نے کہا کہ لاش کے ٹکڑے کر کے دریا میں بہا دیۓ گۓ کسی نے کہا قیمہ کر کے جانوروں کو کھلا دیا گیا پولیس نے انعام بھی مقرر کیا اعلانات بھی کۓ مگر اس کی نعش کا پتہ نہ چل سکا۔
یہ تو ایک واقعہ تھا اس جیسے ہزاروں اور بھی واقعات ملتے ہیں۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے