Qadyaniyat se Islam KI Taraf

کتبہ: خالد محمود ۔ کراچی ۔

ایک ایسی بہن جس نے کم عمری ہی میں حق و باطل کو پہچانتے ہوئے، بتوفیق الہیٰ قادیانیت کے کفر سے نکل کر دین اسلام کی روشنی میں آگئیں، اور اس دوران اس بہن کو قادیانیت کی جانب سے جن مصائب اور مشکلات سے دو چار ہونا پڑا، ان حالات کو ہماری اس بہن نے نشان منزل لہو کے قطرے کے زیر عنوان لکھا ہے، یہ ایمان افروز کتاب مجھے عالمی مبلغ ختم نبوت حضرت مولانا سہیل باوا صاحب دامت برکاتہم العالیہ نے عنایت فرمائی، اور ساتھ ہی فرمایا، کہ قادیانیت چھوڑ کر مسلمان ہونے والی اس بہن کا نام ذکر کیے بغیر ان کے قبول اسلام کے حالات واقعات کو قسط وار لکھوں، کہ ہوسکتا ہے اس بہن کے قبول اسلام کو پڑھ کر کسی اور قادیانی/ مرزائی یا غیر مسلم کو راہ ہدایت نصیب ہوجاۓ، آمین ثم آمین ۔ بہرحال قادیانیت کے چنگل سے آزاد ہونے والی بہن اپنے بارے میں لکھتی ہیں، کہ میری زندگی بظاہر بہت پرسکون اور عیش و آسائش میں گزری تھی، ایسی زندگی جس کی لوگ تمنا کیا کرتے ہیں، میں ایک ایسے گھرانے میں پیدا ہوئ جہاں دولت کی ریل پیل تھی، منہ سے نکلی ہر جائز وناجائز کو پورا کرنا ضروری سمجھا جاتا تھا۔ ہمارا گھرانہ دنیا کے ان گھرانوں میں شامل تھا، جہاں بچوں کو عیش و طرب کی زندگی دے کر ان میں اعتماد کو گویا کوٹ کوٹ کر بھرا جاتا ہے، اور الفاظ میں نہیں بلکہ احساسات کے طور پر گویا ان کو یہ باور کروایا جاتا ہے، کہ وہ دنیا کے چند خوش نصیب لوگوں میں سے ہیں جن کو یہ سب کچھ حاصل ہے، اور پھر اس احساس کے پیدا کرنے کے پیچھے کیا مقاصد چھپے ہوئے ہوتے ہیں، وہ آگے سمجھے جاسکیں گے، میں بھی اپنے آپ کو بہت کم عمری سے ہی بہت خوش نصیب لڑکیوں میں سے تصور کرنے لگی تھی، میری آنکھوں کے خواب بھی میری طرح کی بالی عمر کی لڑکیوں جیسے تھے، کہ مستقبل میں مجھے کیا بننا ہے، کیا کیا کرنا ہے، بہترین خاندان، بہترین حلقہ احباب، بہترین اسکول اور پرشکوہ عمارت میں پر آسائش و آرائش گھر میں رہتے ہوئے، جب کہ ہر ہر خواہش نوک زبان پر آتے ہی پوری ہوجاتی تھی، ان تمام نعمتوں کے باوجود اگر میں کسی چیز سے محروم تھی تو وہ بس ایک تھی، اور وہ تھا دل کا سکون۔ میرا بچپن کچھ آگے بڑھنا شروع ہوا تو میں ماں باپ اور اپنے تینوں بھائیوں کی لاڈلی بہن اور خاص کر ابو کی سب سے چہیتی اور لاڈلی بیٹی، میں نے محسوس کرنا شروع کیا کہ میرے پاس سب کچھ ہے ، میرا گھر اور میرا بدن تمام آسائشات سے بھرا ہوا ہے ، لیکن ایسے میں کچھ خالی ہے، تو وہ میرا دل ہے، جس دن مجھ پر اپنے دل کا خالی پن آشکار ہوا، میں بے چین ہو گئ کہ ایسا کیا کرنا چاہیے جس سے دل کا خالی پن دور ہو، مجھے بالکل سمجھ نہیں آتا تھا، کہ بظاہر سب کچھ ہاتھ میں ہونے کے باوجود میرے دل میں سکون کیوں نہیں ہے ، آہستہ آہستہ مجھے اس بات نے پریشان کرنا شروع کردیا تھا، اور میں سب آسائشوں اور نعمتوں کے درمیان بھی الجھن میں رہنے لگی تھی۔ اس کا سبب معلوم ہوا تو مجھ پر گویا دنیا تنگ ہوگئی، وہ نعمتیں جو آنکھ کھلتے ہی مجھے میسر تھیں، سب گویا مجھے ناگ بن کر ڈسنے لگیں۔ میری بے چینی کی ابتداء میری پیاری بہن کی شہادت سے شروع ہوئی، ہوا کچھ یوں کہ میں نے جس گھر میں آنکھ کھولی وہ ایک ایسا گھرانہ تھا، جو اپنے آپ کو مسلمان سمجھتا تو تھا، لیکن مسلمان تھا نہیں، جی ہاں میں نے ایک قادیانی پیشوا کے گھر آنکھ کھولی اور وہیں اپنا بچپن اپنی دل کی ویرانی کے ساتھ گزارا، میں برملا کہتی ہوں خوش نصیب ہیں، وہ لڑکیاں جن کے ماں باپ مسلمان ہوتے ہیں، اور وہ مسلمان گھرانے میں آنکھ کھولتی ہیں، ان کو اسلام اور ختم نبوت پر ایمان شروع دن سے نصیب ہوتا ہے، ان کو حق کو اپنانے کے لیے کوئی محنت کوئی جدوجہد نہیں کرنی پڑتی، ان کے اپنے والدین ان کے سگے، ان کے چہیتے بہن بھائی اس بات پر ان کی جان کے درپے نہیں ہوجاتے کہ وہ ایک حق راستے کو چننا چاہتی ہیں جو کہ ہرہر انسان کا پیدائشی حق ہے، وہ لڑکیاں جن کو یہ نعمت حاصل ہے، وہ حقیقت میں میں رشک کے قابل ہیں، وہ اگر اس بات پر فخر بھی کریں تو بے جا نہ ہوگا، مجھے یہ نعمت کن کن قربانیوں کے بعد ملی ہے ، اور ان قربانیوں نے دل کو کیسے کیسے اور کہاں کہاں پارہ پارہ کیا ہے، میں بیان کرنے لگوں تو شاید پہاڑوں کا سینہ شق ہوجاۓ۔ جاری ہے

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے