قادیانیت کا مکروہ چہرہ اور جسٹس منیر رپورٹ خالد محمود ۔کراچی Disgusting face of Qadianism and Justice Munir report Khalid Mahmood - Karachi

 

کتبہ: ۔خالدمحمود۔کراچی ۔
حضرت مولانا عبدالرحمن یعقوب باوا صاحب دامت برکاتہم العالیہ کسی تعارف کے محتاج نہیں، شروع سے ختم نبوت کے مبارک کام کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا ، برما ، بنگلہ دیش ، اور کراچی پاکستان سے ختم نبوت کے مبارک کام کا آغاز کیا، عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت میں اسی حوالے سے طویل عرصہ تک اپنی خدمات پیش کیں، پھر انگلینڈ تشریف لے گئے تو وہاں بھی ختم نبوت اکیڈمی (لندن ) کی بنیاد رکھی،اور یہاں سے بھی رد قادیانیت اور ختم نبوت کے مبارک کام کو اپنی طویل اسی سالہ عمر میں جاری و ساری رکھے ہوئے ہیں، جس میں ان کے بڑے بیٹے مولانا سہیل باوا صاحب بھی ان کی سرپرستی میں ختم نبوت کا مبارک کام کر رہے ہیں، حال ہی میں حضرت مولانا عبدالرحمن یعقوب باوا صاحب دامت برکاتہم العالیہ نے اپنے ایک ویڈیو پیغام کے ذریعے جسٹس منیر انکوائری رپورٹ اور پاکستان بننے کے بعد پاکستان میں قادیانیوں کا مختلف کلیدی عہدوں پر براجمان ہونا اور اس کے برے اور خوفناک اثرات کا مرتب ہونا، اس کا انہوں نے بہت اچھی طرح جائزہ لیا ہے، مناسب معلوم ہوا کہ اس پیغام کو حضرت مولانا سہیل باوا صاحب کی فرمائش پر آپ حضرات کی خدمت میں تحریری شکل میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کروں، ان شاءاللہ تعالیٰ یہ ویڈیو پیغام آپ حضرات کی خدمت میں قسط وار پیش کروں گا، یہ کہنا مشکل ہے کہ اس ویڈیو پیغام کی تحریری اقساط کتنی ترتیب پاتی ہیں، اس بنا پر اس کو قلم زد کرتا ہوں، حضرت مولانا عبدالرحمٰن یعقوب باوا صاحب دامت برکاتہم العالیہ فرماتے ہیں تمام مسلمان بہنوں اور بھائیوں کی خدمت میں السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ۔ ناظرین اسلامی جمہوریہ پاکستان کے قیام کے فوری بعد چودھری ظفر اللہ خان قادیانی ملک کا پہلا وزیر خارجہ بن گیا ، ملک کے کلیدی عہدوں پر قادیانی براجمان ہوگئے، دریائے چناب کے کنارے چنیوٹ شہر کے بالمقابل دس سو چونتیس ایکڑ زمین چند ٹکوں کے عوض لیز پر قادیانی جماعت نے حاصل کرکے ربوہ کے نام پر خالصتاً قادیانی بستی بسائی ، جو ریاست کے اندر ریاست کا منظر پیش کر رہی تھی، جن شہروں اور علاقوں میں قادیانی افسر کلیدی عہدوں پر تعینات تھے، وہ اپنے اپنے علاقوں میں قادیانیت کی تبلیغ میں سرگرم حصہ لے رہے تھے، قادیانی خلیفہ مرزا محمود ویسے تو امیر المومنین کے ٹائیٹل پر قابض تھے ہی، لیکن شروع سے ہی قادیانی حکومت قائم کرنے کے خواب دیکھ رہا تھا، جو اسکے بیانات سے واضع ہے ، قادیانیوں کی خطرناک سرگرمیاں سن 1951 اور سن 1952 میں ملک میں عروج پر پہنچ چکی تھیں ، مرزا محمود کے جارحانہ اور اشتعال انگیز بیانات ریکارڈ پر موجود ہیں، جس کی وجہ سے پاکستان کے مسلمانوں میں تشویش کی لہر دوڑ رہی تھی، علمائے کرام کو فکر لاحق ھوگئ تھی، نتیجتاً ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے شروع ہوگئے، یوں تحریک ختم نبوت برپا ہوگئ، پولیس اور فوج نے گولیاں چلائیں اور ایک اندازے کے مطابق دس ہزار مسلمان شہید ہونگے لاہور میں مارشل لاء نافذ کر دیا گیا علمائے کرام اور دینی تنظیموں کے راہنماؤں کو گرفتارکر لیا گیا تحریک تو دب گئ، پھر حکومت نے تحریک ختم نبوت کے بارے میں ایک تحقیقاتی کمیشن جسٹس منیر کی سربراہی میں قائم کیا، تاکہ وہ ان اسباب کی نشاندھی کرے کہ یہ تحریک کیوں کر برپا ہوئی، اور اس کی وجوہات کیا ہیں یہ میرے ہاتھ میں ایک کتاب ہے جو دراصل ایک رپورٹ ہے، "رپورٹ تحقیقاتی عدالت، فسادات پنجاب 1953" یہ بڑی پرانی کتاب ہے، اس کے چار سو پچیس صفحات ہیں، میں نے اس رپورٹ کے کچھ حصوں کا مطالعہ کیا ہے جس سے اندازہ ہوا کہ اس کا زیادہ تر حصہ میں علمائے کرام اور دینی تنظیموں نشانہ بنایا گیا ہے اور چند صفحات قادیانیوں کی سرگرمیوں کے بارے میں ہیں جو تشویشناک تھے، ان کا ذکر جسٹس منیر چند صفحات پر کیا ہے آئیں اب ہم اس حصے کا مطالعہ کرتے ہیں ، سب سے پہلے یہ بتادوں کہ 1952 میں قادیانی جماعت کراچی والوں نے ایک جلسہ کا اعلان کیا، اور کہا کہ 17و18 مئ (1952 ) میں کراچی قادیانی جماعت کے زیر اہتمام جہانگیر پارک میں ایک جلسہ منعقد ہوگا اور اس جلسے سے خطاب چودھری ظفر اللہ قادیانی کرے گا، اس اعلان پر وزیراعظم خواجہ ناظم الدین نے اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا، اور کہا کہ چودھری ظفر اللہ خان ایک فرقہ وار جلسہ عام میں شرکت کا ارادہ کرتے ہیں، اس کا جواب چودھری ظفر اللہ خان قادیانی نے یہ دیا کہ میں قادیانی جماعت سے وعدہ کر چکا ہوں، اگر چند روز پہلے مشورہ دیا جاتا، تو میں جلسے میں شریک نہ ہوتا، لیکن وعدہ کر لینے کے بعد اس جلسے میں تقریر کرنا اپنا فرض سمجھتا ہوں، اور اگر اس کے باوجود بھی وزیراعظم اس بات پر مصر ہیں کہ مجھے جلسے میں شامل نہیں ہونا چاہیے تو اپنے عہدہ سے مستعفی ہونے کو تیار ہوں ، لہزا چودھری ظفر اللہ خان قادیانی نے اس جلسے میں شرکت کی اور اپنی تقریر "اسلام زندہ مذہب ہے" کے زیر عنوان کی، تقریر کے آخر میں اس نے کہا کہ احمدیت ایک ایسا پودا ہے، جو اللہ تعالیٰ نے خود لگایا ہے، (یعنی کتنا بڑا جھوٹ بولا) اب وہ جڑ پکڑ گیا ہے، اگر یہ پودا اکھاڑ دیا گیا تو اسلام ایک زندہ مذہب کی حیثیت سے باقی نہ رہے گا، بلکہ ایک سوکھے ہوئے درخت کی ماند ہوجاۓ گا اور دوسرے مذاھب پر اپنی برتری کے ثبوت مہیا نہ کر سکے گا، (استغفرُللہ، نعوذباللہ ذالک) یعنی اگر مرزا غلام احمد قادیانی کو نبی و رسول مانو تو۔۔۔۔۔۔۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دین زندہ مذہب ہے، ورنہ نہ مانو تو مردہ مذہب ہوگا، منیر انکوائری رپورٹ کے مطابق قادیانیوں کے اس جلسہ نے کراچی میں فسادات پھوٹ پڑے کا موقع دیا ، یہ ریمارکس تھے جسٹس منیر کے، اسی رپورٹ میں لکھا گیا، کہ جب چودھری ظفر اللہ خان سے پوچھا گیا کہ آپ قائد اعظم کے نماز جنازہ میں شریک کیوں نہیں ہوۓ، اس کا جواب دیتے ہوئے چودھری ظفر اللہ خان نے کہا، اس نماز جنازہ کے امام مولانا شبیر احمد عثمانی صاحب تھے، جنھوں نے قادیانیوں کو کافر ، مرتد اور واجب القتل قرار دیا ، اس ان کی نماز جنازہ میں شریک ہونے کا فیصلہ نہ کرسکا، یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ مثال کے طور پر اگر مولانا شبیر احمد عثمانی صاحب کی جگہ کوئی اور مولوی صاحب جو بقول قادیانیوں کے غیر احمدی ہوتا یعنی قادیانی نہیں ہوتا، اور وہ امامت کرتا قائد اعظم محمد علی جناح کے نماز جنازہ کی، اور اس نے کسی قسم کا فتویٰ بھی نہ دیا ہوتا (جیسا کہ مولانا شبیر احمد عثمانی صاحب نے قادیانیوں کے بارے میں دیا ہوا تھا) تو کیا پھر چودھری ظفر اللہ خان قادیانی ایسے مولوی صاحب کے پیچھے قائد اعظم محمد علی جناح کا نماز جنازہ پڑھتے۔؟ اب میں قائد اعظم محمد علی جناح کی نماز جنازہ کے حوالے سے تین پوائنٹ پر بات کروں گا، جو میں اپنی طرف سے کر رہا ہوں، یہ اس کتاب میں شامل نہیں ہیں، پہلا سوال جب عدالت سے باہر چودھری ظفر اللہ خان قادیانی سے پوچھا گیا کہ آپ نے قائد اعظم محمد علی جناح کا نماز جنازہ کیوں نہیں پڑھا، ؟ تو اس پر اس نے جواب دیا کہ آپ مجھے کافر حکومت کا مسلمان وزیر سمجھ لیں ، یا مسلمان حکومت کا کافر نوکر۔ (اخبار زمیندار، 8 فروری 1950) دوسرا پوائنٹ جب اخبارات میں یہ واقعہ منظور عام پر آیا تو قادیانی جماعت کی طرف سے اسکا جواب یہ دیا گیا کہ جناب چوہدری ظفر اللہ خان صاحب پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے،کہ آپ نے قائد اعظم محمد علی جناح کا نماز جنازہ نہیں پڑھا، تو اس کا جواب یہ ہے کہ تمام دنیا جانتی ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح احمدی نہیں تھے ، (گویا مرزا قادیانی پر ان کا ایمان نہیں تھا، یعنی بقول قادیانیوں کے کافر تھے، معاذاللہ استغفرُللہ) کیونکہ قادیانیوں کی کتابوں میں لکھا ہے، کہ مسلمان کافر ہیں، (میں اس کی تفصیل میں نہیں جاتا) لہزا جماعت احمدیہ کے کسی فرد کا نماز جنازہ نہ پڑھنا کوئی اعتراض کی بات نہیں، (یہ جواب ہے قادیانی اخبار الفضل کا) یہ تینوں پوائنٹ میری طرف سے ہیں، کیونکہ چودھری ظفر اللہ خان قادیانی کا مسلہ چل رہا ہے، تو میں نے تین کا اضافہ کردیا، پھر آگے آخبار کہتا ہے کہ کیا یہ حقیقت نہیں کہ ابو طالب بھی قائد اعظم کی طرح مسلمانوں کے بڑے محسن تھے، مگر نہ مسلمانوں نے آپ کا نماز جنازہ پڑھا اور نہ ہی رسول خدا نے (الفضل،28 اکتوبر 1952) حضرت مولانا عبدالرحمن یعقوب باوا صاحب دامت برکاتہم العالیہ حقائق سے مذید پردہ اٹھاتے ہوئے فرماتے ہیں، کہ گویا قادیانیوں کے نزدیک جو مقام ابو طالب کا تھا وہ ہی مقام قائد اعظم کا ہوا ، یعنی وہ بھی کافر تھے اور ابو طالب بھی کافر تھے، جب جہانگیر پارک کراچی میں چودھری ظفر اللہ خان قادیانی کی تقریر ہوچکی تو علمائے کرام نے اپنے ردعمل میں ایک جلسہ منعقد کیا ، اور آئیندہ کا لائحہ عمل طے کیا ، اس اجلاس میں حکومت وقت کے سامنے تین مطالبات پیش کیے گئے، اول یہ کہ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جاۓ ، دوم یہ کہ چودھری ظفر اللہ خان قادیانی کو اس کے عہدہ سے الگ کیا جاۓ، سوم یہ کہ تمام قادیانیوں کو کلیدی عہدوں سے الگ کیا جاۓ، یعنی یہ تین مطالبات پیش کیے گئے، اب میں جسٹس منیر کے ریمارکس اس کے لکھے ہوئے اور کچھ اپنی زبانی پیش کروں گا، جسٹس منیر اپنی رپورٹ میں کہتا ہے،کہ یہ تین مطالبات اس لئے وجود میں آئے تھے، کہ قادیانیوں کے بعض عقائد اور ان کی سرگرمیاں مخصوص انداز کی تھیں،(یعنی مسلمانوں سے الگ) اور وہ دوسرے مسلمانوں سے علیحدہ ہونے پر زور دیتے تھے، اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلمانوں کے یہ مطالبات قادیانیوں کی سرگرمیوں کی ہی وجہ سے پیدا ہوۓ، (یعنی تبلیغی سرگرمیاں اور اشتعال انگیز بیانات) اور یہ کہ تقسیم سے پہلے یعنی پاکستان اور ہندوستان کی تقسیم سے پہلے متحدہ ہندوستان میں جس طرح قادیانی بلا روک ٹوک اپنی تبلیغی سرگرمیوں میں مصروف تھے، اور قیام پاکستان کے بعد وہ اپنی سرگرمیاں جاری رکھ سکیں گے، اور ان کے خلاف کوئی برہمی پیدا نہ ہوگی تو وہ گویا اپنے آپ کو دھوکا دے رہے تھے، یہ وہ ریمارکس ہیں جسٹس منیر کے ، لہزا قیام پاکستان کے بعد بھی قادیانیوں کی سرگرمیاں اور ان کی جارحانہ نشر واشاعت میں کوئی تغیر پیدا نہیں ہوا، یعنی جس طرح متحدہ ہندوستان میں قادیانی سرگرمیاں جاری تھیں، اسلام کے نام پر بن جانے والے پاکستان جس میں نناوے فیصد مسلمان اور بہت تھوڑے سے قادیانی تھے، اور یہ تبلیغ کرنا چاہتے تھے، مسلمانوں کو، تو پھر کیا برہمی پیدا نہیں ہوگی، اور کوئی اشتعال پیدا نہیں ھوگا،۔؟
* باقی آئندہ ان شاءاللہ۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے