خَلیفةُالمُسلِمِین حضرت عمر رضی اللہ عنہ

مختصر سیرت خلیفہ دوم امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ} ⭐️خَلیفةُالمُسلِمِین دوم حضرت عمر رضی اللہ عنہ نام ــــــــــــــــــــــــــــــــــ عُمَر لقب ـــــــــــــــــــــــــــــــ فَارُوق کُنّیت ـــــــــــــــــــــــــــ اَبُو حَفص نام پِدَر ــــــــــــــــــــــ خَطَّاب نام مَادَر ــــــــــــــــــــ حنتمہ سَالِ تَوَلّد ـــــــــــــــــ 583 م. در مكہ تَاريخِ وَفَات ــــــــ 1 محرم الحرام 23 ہجری مُدَّتِ خِلافَت ـــــ 10 سال و 6 ماه ⭐️محرم کی پہلی تاریخ کو امیر المؤمنین سیدنا عمر فاروقؓ کی شہادت کا عظیم سانحہ پیش آیا وہ عمرؓ جن کی شہادت یقیناََ واقعہ کربلا سے زیادہ دردناک ہے اس لئے کہ اسلام کو رفعت و عظمت کی بلندیوں تک پہنچانے والے حضرت عمر فاروقؓ تھے جن کو برادر رسول اور مطلوب اسلام ہونے کا شرف حاصل ہے جن کے سایہ سے بھی شیطان بھاگتا تھا اور جن کی ذات میں خاتم النبین سید المرسلین ﷺ کو صفات نبوت نظر آتی ہیں، ⭐️تعارف امیر المؤمنین سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ :/ سسر رسول اللہ ﷺ داماد علیؓ مراد نبی ﷺ فاتح قبلتین پیکر عدل و شجاع شہید مسجد نبوی ﷺ، ⭐️خلیفہ دوم امیرالمؤمنین حضرت عمر فاروقؓ کی کنیت ابو حفص اور لقب فاروق اعظم ہے آپؓ اشراف قریش میں اپنی ذاتی و خاندانی و جاہت کے لحاظ سے بہت ہی ممتاز ہیں آٹھویں پشت میں آپؓ کا خاندانی شجرہ رسول اللہ ﷺ کے شجرہ نسب سے ملتا ہے آپؓ واقعہ فیل کے تیرہ برس بعد مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے اور اعلان نبوت کے چھٹے سال ستائیس 27 برس کی عمر میں مشرف بہ اسلام ہوئے جبکہ آپؓ سے پہلے کل انتالیس آدمی اسلام قبول کرچکے تھے آپؓ کے مسلمان ہو جانے سے مسلمانوں کو بے حد خوشی ہوئی یہاں تک کہ حضور اکرم ﷺ نے مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ خانہ کعبہ کی مسجد میں اعلانیہ نماز ادا فرمائی، ⭐️حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ جب حضرت عمر فاروقؓ اسلام لائے تو حضرت جبرائیل علیہ السلام حضور اکرم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یارسول اللہ ﷺ ! آسمان والے بھی عمر کے اسلام لانے پر خوش ہوئے، (ابن ماجہ شریف) ⭐️امیر المؤمنین سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے فضائل و موافقات :/ ایک موقع پر حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا لوکان بعدی نبی لکان عمر (مشکوۃ شریف مناقب عمرؓ) ترجمہ : میرے بعد کوئی نبی نہیں اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر ہوتا، ​ ⭐️ایک حدیث شریف میں فرمایا بے شک میں نگاہ نبوت سے دیکھ رہا ہوں کہ جن و انس کے شیطان دونوں میرے عمر کے خوف سے بھاگتے ہیں، (مشکوۃ شریف صفحہ 558)​ ⭐️ترمذی شریف کی حدیث شریف میں ہے کہ پیغمبر آخرالزماں حضرت محمد مصطفٰی ﷺ نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ نے عمر کی زبان اور قلب پر حق جاری فرمایا، (مشکوۃ شریف صفحہ 557)​ ⭐️حضرت عمر فاروقؓ کی عظمت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ قرآن مجید کی بہت سی آیتیں آپؓ کی خواہش کے مطابق نازل ہوئیں حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر فاروقؓ کی رائیں قرآن مجید میں موجود ہیں تاریخ خلفاء میں ہے کہ حضرت عمر فاروقؓ کسی معاملے میں مشورہ دیتے تو قرآن مجید کی آیتیں آپؓ کے مشورے کے مطابق نازل ہوتیں حضرت عمر فاروقؓ کی عنداللہ مقبولیت کا یہ حال ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تقریباََ 43 مواقع پر حضرت عمر فاروقؓ کی عین خواہش پر قرآن مجید کی آیتیں نازل فرمائی ہے جن کو موافقات عمر کہا جاتا ہے، ⭐️ایک مرتبہ حضرت عمر فاروقؓ نے آپ ﷺ سے عرض کیا یارسول اللہ ﷺ آپ کی خدمت میں ہر طرح کے لوگ آتے جاتے ہیں اور اس وقت آپ ﷺ کی خدمت میں آپ ﷺ کی ازواج بھی ہوتی ہیں بہتر یہ ہے کہ آپ ﷺ ان کو پردہ کرنے کا حکم دیں چناچہ حضرت عمر فاروقؓ کے اس طرح عرض کرنے پر ازواج مطہرات کے پردے کے بارے میں قرآن مجید کی آیت نازل ہوئی، ⭐️ترجمہ آیت : اور جب تم امہات المؤمنین سے استعمال کی کوئی چیز مانگو تو پردے کے باہر سے مانگو، ️ایک مرتبہ ایک یہودی حضرت عمر فاروقؓ کے پاس آکر کہنے لگا تمہارے نبی جس جبرائیل فرشتے کا ذکر کرتے ہیں وہ ہمارا سخت دشمن ہے حضرت عمر فاروقؓ نے اس کو جواب دیا جو کوئی دشمن ہو اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کے رسولوں اور جبرائیل اور میکائیل کا تو اللہ دشمن ہے کافروں کا جن الفاظ کے ساتھ سیدنا حضرت عمر فاروقؓ نے یہودی کو جواب دیا بلکل انہی الفاظ کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں آیت کریمہ نازل فرمائی، (پارہ نمبر 1 ، رکوع نمبر 12) ⭐️امیر المؤمنین سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی اعلانیہ ہجرت :/ حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ جس کسی نے ہجرت کی چھپ کر کی مگر حضرت عمر فاروقؓ مسلح ہو کر خانہ کعبہ میں آئے اور کفار کے سرداروں کے للکارا اور فرمایا کہ جو اپنے بچوں کو یتیم کرنا چاہتا ہے وہ مجھے روک لے حضرت عمر فاروقؓ کی زبان سے نکلنے والے الفاظوں سے کفات مکہ پر لرزہ طاری ہوگیا اور کوئی مد مقابل نہ آیا ہجرت کے بعد آپؓ نے جان و مال سے اسلام کی خدمت کی آپؓ نے اپنی تمام زندگی اسلام کی خدمت کرنے میں گزار دی آپؓ نے تمام اسلامی جنگوں میں مجاہدانہ کردار ادا کیا اور اسلام کے فروغ اور اس کی تحریکات میں حضور اکرم ﷺ کے رفیق رہے، ⭐️خلافت و اولیات فاروقی رضی اللہ عنہ :/ امیرالمؤمنین حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اپنے بعد آپؓ کو خلیفہ منتخب فرمایا اور دس برس چھ ماہ چار دن آپؓ نے تخت خلافت پر رونق افروز ہو کر جانشین رسول ﷺ کی تمام ذمہ داریوں کو باحسن وجوہ انجام پایا آپؓ نے امور حکومت و سلطنت میں ایسی درجنوں اصلاحات فرمائیں جو پہلے نہیں تھیں ان کو اولیات فاروقی کہا جاتا ہے جن میں بعض مندرجہ ذیل ہیں، ​ 1) تاریخ و سال ہجری جاری کیا 2) بیت المال قائم کیا 3) ماہ رمضان میں تراویح کی نماز باجماعت جاری فرمائی 4) لوگوں کے حالات معلوم کرنے کے لئے راتوں کو گشت کیا 5) ہجو ، مذمت کرنے والوں پر حد جاری فرمائی 6) شراب پینے پر 80 کوڑے لگوائے 7) نکاح مؤقت کی حرمت کو عام کیا اور ناجائز قرار دیا 8) جن لونڈیوں سے اولاد ہو ان کی خرید و فروخت ممنوع قرار دی 9) نماز جنازہ میں چار تکبیریں پڑھنے کا حکم دیا 10) دفاتر قائم کئے اور وزارتیں معین و مقرر کی 11) سب سے زیادہ فتوحات حاصل کیں 12) مصر سے بحر ایلہ کے راستے مدینہ طیبہ میں غلہ پہنچانے کا بندوبست کیا 13) صدقہ کا مال اسلامی امور میں خرچ کرنے سے روکا 14) ترکہ اور ورثے کی مقررہ حصوں کی تقسیم کا نفاد فرمایا 15) گھوڑوں پر زکوۃ وصول کی 16) درہ ایجاد کیا 17) شہروں میں قاضی مقرر کئے 18) کوفہ ، بصرہ ، جزیرہ ، شام ، مصر اور موصل شہر آباد کئے 19) مساجد میں رات کی روشنی کا بندوبست کیا 20) مسافر خانے قائم کئے 21) اذان فجر میں الصلوۃ خیرمن النوم کا اضافہ کیا (تاریخ خلفاء ، صفحہ 312) ⭐️شہادت امیر المؤمنین سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ :/ 26 ذی الحجہ 32 ہجری بروز چہار شنبہ نماز فجر میں ابولولو فیروز مجوسی (ایرانی) کافر نے آپؓ کو شکم مین خنجرمارا اور آپؓ یہ زخم کھا کر تیسرے دن یکم محرالحرام کو شرف شہادت سے سرفراز ہوگئے بوقت شہادت آپؓ کی عمر مبارک 63 برس تھی حضرت صہیب رومیؓ نے آپؓ کی نماز جنازہ پڑھائی اور روضہ مبارکہ کے اندر حضرت صدیق اکبرؓ کے پہلوئے انور میں مدفن ہوئے، (ازالتہ الخفاء عن خلافتہ الخلفاء)​ ⭐️حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا اپنے انتقال کے وقت وصیت کرنا :/ حضرت یحیٰی بن ابی راشد نصریؒ کہتے ہیں کہ جب حضرت عمر بن خطابؓ کی وفات کا وقت قریب آیا تو اپنے بیٹے سے فرمایا اے میرے بیٹے ! جب مجھے موت آنے لگے تو میرے جسم کو دائیں پہلو کی طرف موڑ دینا اور اپنے دونوں گھٹنے میری کمر کے ساتھ لگا دینا اور اپنا دایاں ہاتھ میری پیشانی پر اور بایاں ہاتھ میری ٹھوڑی پر رکھ دینا اور جب میری روح نکل جائے تو میری آنکھیں بند کر دینا اور مجھے درمیانے قسم کا کفن پہنانا کیونکہ اگر مجھے اللہ کے ہاں خیر ملی تو پھر اللہ تعالی مجھے اس سے بہتر کفن دیدیں گے اور اگر میرے ساتھ کچھ اور ہوا تو اللہ تعالی اس کفن کو مجھ سے جلدی سے چھین لیں گے اور میری قبر درمیانی قسم کی بنانا کیونکہ اگر مجھے اللہ کے ہاں خیر ملی تو پھر قبر تاحد نگاہ کشادہ کر دیا جائیگا اور اگر معاملہ اس کے خلاف ہوا تو پھر قبر میرے لئے اتنی تنگ کر دی جائے گی کہ میری پسلیاں ایک دوسرے میں گھس جائیں گی میرے جنازے کے ساتھ کوئی عورت نہ جائے اور جو خوبی مجھ میں نہیں ہے اسے مت بیان کرنا کیونکہ اللہ تعالی مجھے تم لوگوں سے زیادہ جانتے ہیں اور جب تم میرے جنازے کو لے کر چلو تو تیز چلنا کیونکہ اگر مجھے اللہ کے ہاں سے خیر ملنے والی ہے تو تم مجھے اس خیر کی طرف لے جارہے ہو اس لئے جلدی کرو اور اگر معاملہ اس کے خلاف ہے تو تم ایک شر کو اٹھا لے جارہے ہو اسے اپنی گردن سے جلد اتار دو، (حیاتہ الصحابہ جلد 3 صحفہ 52 ، 53) واٰخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين الحمدللہ ------- ختم شدہ

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے